پیر، 25 دسمبر، 2017

کامیابی کے حصول اوربربادی سے حفاظت کے تین ضوابط


عَنْ أَبِیْ هرَیْرَۃ رَضِيَ اللّه عَنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ قَالَ: ’’ ثَلٰثٌ مُنجِیَاتٌ، وَ ثَلٰثٌ مُهْلِكَاتٌ فأَمَّا الْمُنْجِیَاتُ فَتَقْوَی اﷲِ فِی السِّرِّ وَالْعَلَانِیة، وَالْقَوْلُ بِالْحَقِّ فِی الرِّضیٰ وَالسَّخَطِ، وَالْقَصْدُ فِی الْغِنَا وَالْفَقْرِ، وأَمَّا المهلِکَاتُ فهویً مُتَّبَعٌ، وَشُحٌّ مُطَاعٌ، وَإِعْجَابُ الْمَرْئِ بِنَفْسِه، وَهيَ أَشَدُّهنَّ ‘‘۔ (رواہ البیهقي فی شعب الإیمان، مشکوۃ المصابیح / ص: ۴۳۴/ باب الغضب و الکبر/ الفصل الثالث)      
ترجمہ  :   حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں ،رحمت  عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’تین چیزیں نجات دِلانے والی اور تین چیزیں ہلاک کرنے والی ہیں، نجات دلانے والی تین چیزیں تو یہ ہیں :۱- ظاہر و باطن (خلوت وجلوت)میں تقویٰ اختیار کرنا ۔ ۲-رضامندی اور ناراضگی (خوشی اور غمی) دونوں حالتوں میں حق بات کہنا۔ ۳- میانہ روی اختیار کرنا غنی اور فقر(تونگری اور تنگ دستی) میں، اور ہلاک کرنے والی تین چیزیں یہ ہیں:  ۱-اتباعِ ہوا ۔۲- وہ بخل جس کے تقاضوں پر عمل کیا جائے۔ ۳-آدمی کا اپنے آپ کوبطورِ عُجب (خودپسندی) اچھا سمجھنا، اور یہ چیز ہلاک کرنے والی باتوں میں سب سے زیادہ سخت ہے۔
تمام جِدوجُہد کا مقصد حصولِ کامیابی  :          
ایک طرف دنیا کے ہر سلیم الفطرت وشریف الطبیعت انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے فن اور شعبہ میں کامیابی حاصل کرے اور ایک کامیاب زندگی گذارے ، اسی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے وہ دن رات کوششوں اور جدو جہد میں لگا رہتا ہے، تو دوسری طرف خودصاحب ِشریعت، نبی رحمت،جناب محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے فطرت ِانسانی کو محسوس کرتے ہوئے وہ ہدایات دیں جن پر عمل کرنے سے نہ صرف دنیا بلکہ عقبیٰ کی کامیابی بھی یقینی ہوجاتی ہے۔رحمت عالم   صلی اللہ علیہ و سلم  کبھی تو حاضرین مجلس اور مخاطبین کے خاص حالات کے لحاظ سے اور کبھی کسی ایسے ہی سبب سے اپنی ہدایات میں خاص خاص اعمالِ صالحہ اوراخلاقِ حسنہ کی اہمیت اور خصوصیت بیان فرماتے، اور اسی طرح خاص خاص برے اعمال کی قباحت و شناعت پرخصوصیت سے زور دیتے تھے، کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم  معلم کائنات تھے ،او رایک معلم ومربی کا طرز بھی یہی ہوناچاہیے۔
تقویٰ سبب ِفلاح  :چنانچہ حدیث بالا میں بیان کردہ تین چیزیں دارین کی نجات کا سر چشمہ ہیں، اور حقیقی کامیابی کا راز ان میں مضمرہے۔ 
(۱)  ان میں پہلی چیز تقویٰ ہے، جو دینی زندگی کی اصل روح ہے۔اسی لیے قرآنِ کریم نے حکم دیاکہ{وَاتَّقُوْا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ} (آل عمران :۱۳۰)  اللہ تعالیٰ سے ڈرو، تقویٰ اختیار کرو، تاکہ تم فلاح پاؤ۔           
اب سوال یہ ہے کہ تقویٰ کیاہے؟ توقرآنِ کریم نے سورۂ مومنون کے شروع میں جن اوصاف سے متصف ہونے پر مومنین کوکامیابی کی خوشخبری دی ان اوصاف کا مجموعہ وسرچشمہ ہی تقویٰ ہے ،کیوں کہ تقویٰ میں تمام صفاتِ حسنہ جمع ہوجاتی ہیں، اس لیے خوشی میں، غمی میں، خلوت میں،جلوت میں، سفر میں اور حضرمیں {اِتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقَاتِہٖ} (آل عمران: ۱۰۲) کا حکم دیا، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر حال میں اس کا اختیار کرناضروری ہے، اس کے علاوہ بھی تقویٰ کا حکم قرآن کریم میں جابجا موجود ہے، حتی کہ کسی جگہ تو ایک ہی آیت میں دو دو مرتبہ اس کا ذکر ہے۔
جیسے حلوے کے تھال کو میوے سے سجایا جاتا ہے اسی طرح اﷲ پاک نے اپنے کلام کو تقوی سے سجایا۔‘‘ جس سے تقویٰ کی  مزیداہمیت ثابت ہوتی ہے، اور جیسا کہ عرض کیاگیاکہ تقویٰ صفاتِ حسنہ سے متصف ہو کرگناہوں اور برائیوں سے بچنے کو کہتے ہیں، لہٰذاجو شخص اپنے آپ کو گناہوں سے بچائے وہی در اصل متقی ہے، اﷲ رب العزت اس سے انتہائی محبت فرماتے ہیں، حتی کہ اسے اپنا ولی اور دوست بنا لیتے ہیں،جیساکہ فرمایا :        
{إِنْ أَوْلِیَاؤُھٗ إِلَّا الْمُتَّقُوْنَ} (الأنفال : ۳۴) متقی لوگوں کے سوا اور کوئی اس کا ولی نہیں ہوسکتا۔          حضرت شاہ ابرار الحق صاحب ہردوئی ؒ نے اس کی ترجمانی یوں فرمائی:جو خدا کے دوست ہیں وہ ہیں ولی ،جو گناہوں سے بچیں وہ ہیں متقی،دارین کی فلاح و کامیابی اُن ہی کے لیے ہے، اور دارین میں ہر قسم کے شر سے محفوظ و مطمئن یہی ہیں ، ہم بھی یہ مقام حاصل کرنا چاہیں تو تقویٰ کے ذریعہ حاصل کر سکتے ہیں، چنانچہ فرمایاگیا:
                                                    تو چنیں خواہی خدا خو اہد چنیں   ٭  می دہد یزداں مرادِ متقی      
پس واضح ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ کا ولی متقی ہے، اور تقویٰ و پرہیزگاری کلید ِکامیابی ہے۔ قرآنِ کریم نے اسے یوں بیان فرمایاہے :
{ أَلَاإِنَّ أَوْلِیَآئَ اﷲِ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَo اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَo (یونس :۶۲-۶۳)
(۲) دوسری چیز : حق کا قائل و مائل ہونا، کیوںکہ پرہیزگاری کے ساتھ بزدلی جمع نہیں ہوسکتی، تقویٰ حق گوئی کا تقاضا کرتا ہے، کہ بندہ ہر حال میں حق کا قائل ہو، اور یہ اس وقت ہوگا جب بندہ حق کی طرف حقیقۃً مائل ہو، جو حق کی طرف مائل ہی نہیں وہ حق کا قائل کیسے ہوگا؟ اورجو شخص ہر حال میں حق کا ساتھ دے وہ کامیاب ہے، کیوں کہ اﷲ تعالیٰ کی غیبی مدد اہل حق کے ساتھ ہوتی ہے، باطل کے ساتھ کبھی نہیں ، حق کے ساتھ حالات ضرور آتے ہیں، جیسا کہ خود تاریخ اس پر شاہد ہے، مگر جوبندے اس پر جمے رہے وہی کامیاب ہوئے، اس لیے کامیابی کی دوسری شرط ہے: ’’القَوْلُ بالْحَقِّ فِی الرِّضٰی وَالسَّخَطِ‘‘ہر حالت میں (حق نیت اور حق طریقے سے)حق کہے اور حق پر ثابت قدم رہے، یہ نہیں کہ موافق حالات میں تو حق بات کہے، اور مخالف حالات میں غلط بات کہے۔ سخت   حالات   میں  بھی  لب  کھولے   تو حق  بولے گرچہ آفات ہوں بہت پھر بھی لب کھولے تو حق بولے   ،   حضرت امام شافعیؒ فرماتے تھے کہ تین عمل بڑے سخت ہیں:(۱)تنگی کے و قت سخاوت۔(۲)تنہائی میں تقویٰ۔(۳)ایسے شخص کے سامنے حق بات کہنا جس سے کوئی امید وابستہ ہو، یا جس سے ڈر او رخوف ہو، لیکن اہل حق نے ہرحال میں اس پر عمل کر کے دکھایا۔
تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ   :   حضرت امام احمد بن حنبل ؒ کے زمانہ میں ایک زبردست فتنہ ’’خلق قرآن ‘‘ کا اٹھا، بغداد کے معتزلہ نے ہنگامہ کھڑا کر کے یہ چاہا کہ آپؒ کسی بھی طرح یہ تسلیم کر لیں کہ قرآن مخلوق ہے، اور اس سلسلہ میں آپؒ  کو دربارِ خلافت میں طلب کیا گیا، تو آپؒ نے ’’اَلْقَوْلُ بالْحَقِّ فِی الرِّضٰی وَالسَّخَطِ‘‘ کا ثبوت دیا، سخت حالات اور اذیتیں برداشت کیں، مگر قرآن کو مخلوق کبھی نہیں کہا ۔( تذکرۃ الاولیاء / ص :  ۱۳۳)      
ہر حال میں انہو ں نے حق کا ساتھ دیا،وہ جانتے تھے کہ حالات حق کے ساتھ ہوتے ہیں، اس لیے ہر حال میں حق پر جمے رہے، تو کامیابی ان کا مقدر بنی۔ جب آپؒ کی وفات ہوئی تو ۲۵ لاکھ افراد نے نمازِ جنازہ پڑھی، حضرت عبدالوہاب وراق ؒ فرماتے ہیں ’’تاریخ اسلام میں اس سے بڑے کسی جنازہ کا ثبوت نہیں ملتا، اس دن اس عظیم مجمع کو دیکھ کر ۲۰ ہزار کے قریب غیر مسلم دولت ِاسلام سے مشرف ہوئے ‘‘ ۔(البدایہ والنہایۃ/ ص :۷۹۳، )
اعتدال کی اہمیت:حصول کامیابی کاتیسرا اصول ’’میانہ روی‘‘ ہے، حد سے گذر جانے کو ’افراط‘، حدسے اُتر جانے کو ’تفریط‘ اور حد میں رہنے کو ’اعتدال‘ کہتے ہیں، قرآن کہتاہے کہ کامیاب ہوناچاہتے ہو تو {وَاقْصِدْ فِیْ مَشْیِکَ} (لقمان:۱۹) اعتدال کی راہ اختیار کرو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تقویٰ کے نام پر غلواختیار کیا جائے او راعتدال کی حدوں سے تجاوز کیاجائے، کہ اعتدال دینداری،مالداری اور محتاجی ہر حال میں اختیار کرناضروری ہے، یہ چیز زندگی کے ہر شعبہ میں مطلوب ہے ، اس سے انسان افراط وتفریط سے محفوظ رہتا ہے، کسی بھی حالت کا سامنا کرنے میں اسے دشواری نہیںپیش آتی۔
مولانا رومؒ  فرماتے ہیں:  در خبر خیر الامور اوساطہا   ٭  نافع آمد زاعتدال اخلاطہا
اسلام نے جو نظام پیش کیا اس میں کسی قسم کی نہ کمی ہے نہ زیادتی، نہ انتہا پسندی نہ بیجا سختی، نہ ایسی دینداری مطلوب ہے جو رہبانیت تک پہنچا دے اور نہ یہ جائز ہے کہ دنیا ہی مقصود بن جائے، دین ودنیا دونوں کی ہر حالت میں اعتدال اور میانہ روی مطلوب ہے۔ عموماً یہ مشاہدہ میں آتا ہے کہ جو لوگ میانہ روی اختیار نہیں کرتے امن و سکون ان کی زندگی سے رخصت ہوجاتا ہے، کیونکہ بے اعتدالی اور بدامنی میں چولی دامن کا تعلق ہے،ارشادِ ربانی ہے:{وَلَا تَعْتَدُوْا إِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ} ( بقرہ۱۹۰)اور زیادتی(وبے اعتدالی) نہ کرو، یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ بے اعتدالی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اس کے بر عکس جو لوگ ہر شعبہ میں میانہ روی اختیار کرتے ہیں وہ ہر کام کو خوش اسلوبی سے انجام دیتے ہیںاور خوشحال رہتے ہیں، وہ کبھی مایوس اور ناکام نہیں ہوتے۔اسلام کا نظام ہے پُر اعتدال، اس پر جو قائم ہے وہ ہے خوشحال حضور  صلی اللہ علیہ و سلم  کا یہ فرمان ان لوگوں کے لیے نہایت اہم ہے جو مالی فراوانی کے زمانہ میں اپنے خرچے بہت بڑھالیتے ہیں، او رپھر نامساعد حالات میں پریشانیوں سے دو چار ہوتے ہیں، اگرایسے لوگ خصوصی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ا س فرمان کو مشعل راہ بنالیں توبہت سی دشواریوں سے نجات پالیں۔
بہر حال! (۱)تقویٰ اور پرہیزگاری،(۲) حق گوئی اور (۳)میانہ روی، دارین میں کامیابی کے لیے لازمی و ضروری ہے۔
اتباعِ ہوا:  اس کے بعد حدیث پاک میں تین ایسی چیزوں کو بیان فرمایا جن سے ہلاکت اور بربادی آتی ہے۔
 ۱. ان میں پہلی چیز ہے اتباعِ ہوا۔   یاد رکھئے !  آج تک دنیا میں جب کبھی جہاں کہیں اور جو بھی تباہی آئی اس میں ہوائے نفسانی کو خاص دخل رہا ہے، آئندہ بھی اسی سے تباہی آئے گی، چناںچہ قرآنِ کریم نے ہواپرستوں کی ہلاکت کو یوں بیان فرمایا ہے: { فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِہِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوْا الصَّلوٰۃَ وَاتَّبَعُوْا الشَّہَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا} (مریم : ۵۹)پھر ا ن کے بعد ایسے ناخلف لوگ آئے جنہوں نے نماز کو ضائع کیا،اور اپنی نفسانی خواہشات کے پیچھے چلے، چنانچہ یہ لوگ عنقریب (آخرت میں) خرابی دیکھیں گے۔ ویسے خواہشاتِ نفسانی تو ہر انسان میں پائی جاتی ہیں، مگر شریعت نے اس نفسانی خواہش پر پابندی لگائی جو خلافِ شرع ہو، وہی مہلک اور مضر ہے، اسی نے قوموں کوہلاک کیا، مولانا جلال الدین رومی ؒ فرماتے ہیں:
                                         چیست حبل اﷲ؟ رہا کردن ہوا   ،    کیں ہوا، صرصر مر عاد را۔       
اﷲ تعالیٰ کی رسی کیا ہے؟ اتباعِ ہوا کو چھوڑنا، جس نے ہوا پرستی چھوڑ ی اس نے گویا اﷲ تعالیٰ کی رسی پکڑلی، اور جس نے حبل اﷲ کو پکڑا وہ کامیاب ہو گیا، اس کے بر خلاف جس نے خواہشاتِ نفسانی پر عمل کیا اور مرضی ٔ ربانی سے اعراض کیا وہ تباہ ہوگیا، قومِ عاد کے لیے تباہی بشکل آندھی آئی، اس کی وجہ یہی اتباعِ خواہشاتِ نفسانی تھی۔بخیلی سبب ِتباہی  :    
(۲)ہلاکت کا دوسرا سبب:   ایسا بخل ہے جس کا اتباع کیا جائے، جس کے تقاضوں پر عمل کیا جائے ایسی بخیلی سے تباہی و بربادی آتی ہے۔قرآنِ کریم نے اس کی طرف اشارہ فرمایا:     {وَمَنْ یَبْخَلْ فإِنَّمَا یَبْخَلُ عَنْ نَفْسِہِ}  (محمد : ۳۸)  اور جو شخص بھی بخل کرتاہے وہ خود اپنے آپ ہی سے بخل کرتاہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس کا نقصان خود اسی کو ہوتاہے۔’’شُح‘‘ یہ بخل کا سب سے اعلیٰ درجہ ہے، جس کے ساتھ حرص کی آمیزش بھی ہو۔ دوسرے لفظوں میں یوں بھی کہاگیاہے کہ’’شُح‘‘ یہ ہے کہ جو چیز اپنے پاس نہیں اس کی حرص کرے اور جو چیز اپنے پاس ہے اس میں بخل کرے اور  ضرورت پر بھی خر چ نہ کرے۔   
حضرت ابوعلی جرجانی   ؒ فرماتے ہیں: ’’بخل میں تین حروف ہیں: ’’ب‘‘ ’’خ‘‘ اور ’’ل‘‘،  بخل کے ان تینوں حروف سے اس طرف اشارہ ہوتا ہے کہ اس سے تباہی پیدا ہوتی ہے، اور وہ اس طرح کہ ’’ ب‘‘ سے مراد بلا ہے ، ’’خ‘‘ سے مراد خسران ہے اور ’’ل‘‘ سے مراد لوم یعنی ملامت ۔ (انوارالاتقیاء).
معلوم ہواکہ بخل سے بلائیں آتی ہیں، بخل سے خسران اور نقصان ہوتا ہے، بخل سے لوگوں کی ملامت اور ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔         چنانچہ منقول ہے کہ ایک شخص روٹی اور شہد لے کر کھانے بیٹھا، تو عین اس وقت دروازے پر کوئی مہمان آدھمکا، صاحب ِمکان میزبان بڑابخیل تھا، اس لیے فوراً روٹی اٹھاکر ایک طرف رکھ دی، اوراس سے پہلے کہ شہد غائب کرتا مہمان دروازہ کھول کر اندر آپہنچا، مہمان کے بیٹھ جانے کے بعد بخیل نے کہا: ’’روٹی کے بغیر آپ شہد چاٹنا پسند کریں گے؟‘‘ مہمان نے کہا: ’’کیوں نہیں؟‘‘ پھر آؤ دیکھا نہ تاؤ، مہمان نے انگلیوں سے شہد چاٹنا شروع کردیا، بخیل اسے یوں بے دردی سے شہد کا صفایاکرتادیکھ کر ضبط نہ کرسکا، اور بول پڑا: ’’آپ کو معلوم ہے کہ خالی شہد دل کو جلاتاہے؟‘‘ مہمان نے برجستہ جواب دیا: ’’جی ہاں، مگرآپ کے  دل کو!‘‘  (’’کتابوں کی درسگاہ میں‘‘ص :۱۱۷).
صاحبو!  بخیل اگرچہ مال سے امیر ہوتا ہے، مگر دل سے فقیر ہوتاہے۔ بخل کی مذمت کب ہے؟   لیکن حدیث شریف کی صراحت کے مطابق بخل کی یہ مذمت اس وقت ہے جب کہ اس کے تقاضوں پر عمل کیا جائے، اور اگر اس کے تقاضوں پر عمل نہ کیا جائے تو پھر یہی بخل اجر و ثواب کا سبب بھی ہے، مثلاً دیکھئے ! بعض اوقات صدقۃ الفطر یا ادائِ زکاۃ وغیرہ کے وقت بخل کی وجہ سے مال خرچ کرنے کا ارادہ نہیں ہوتا ،دل پر آرے چل رہے ہیں، مگرسخت ناگواری کے باوجود مرد مومن حکمِ الٰہی کی تکمیل کے خاطر مال خرچ کرتا ہے، تو اس کو دو اجرملتے ہیں: (۱) خرچ کرنے کا اجر۔(۲) اس پر گرانی کا اجر۔  پھر یہ چیز خلوص کے منافی بھی نہیں، کیوں کہ اخلاص کے لیے اپنی خوشی سے دینا شرط نہیں، اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے دینا شرط ہے۔
غرض! بخل مطلق برا نہیں، بلکہ اس کے تقاضوں پر عمل کیا جائے تب برا اور مہلک ہے، اس لیے کہ ارادۂ بخل غیر اختیاری ہے، جب کہ اس کے تقاضوں پر عمل کرنا اختیاری امر ہے، اور مؤ اخذہ اختیاری امور پر ہوتا ہے۔واﷲ اعلم ۔
(۳) عجب کی مذمت  :  ہلاکت کا تیسرا سبب’’ عُجب‘‘ ہے، اور عجب خود پسندی کو کہتے ہیں، جس کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ اپنے اعمال وکمالات پر نظر کرے، اوراعمال و کمالات کو اپنی طرف منسوب کرے، اور ان کے سلب ہو جانے سے بے خوف ہو جائے،حق تعالیٰ نے فرمایا:     { فَلاَ تُزَکُّوْا أَنْفُسَکُمْ ہُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَی} (النجم :۳۲) اپنے آپ کو پاکباز نہ ٹھہراؤ ،وہ خوب جانتاہے کہ کون نیک او رمتقی ہے۔ اس کے باوجود اگرکوئی عجب میں مبتلا ہوتاہے او راپنے علاوہ کسی پر اس کی  نظر ہی نہیں جاتی، تو پھریہ چیز انسان کو خالق و مخلوق دونوں کی نظر سے گرادیتی ہے، جیساکہ بنی اسرائیل کا وہ عابد جو پانچ سو سال تک عبادت میں مشغول رہ کر بھی جب عجب میں مبتلاہوا تواللہ تعالیٰ کو اس کی وہ اداپسند نہ آئی، جس کا واقعہ مشہور ہے،کیوں کہ اس مرض میں مبتلاہونے والا خود کو کبھی بیمار نہیں سمجھتا، بلکہ اگر کوئی اس کو نصیحت کرے اور سمجھائے تو وہ اسی کو غلطی پر سمجھتا ہے،اور بلاشبہ وہ  مرض بڑا سخت اور لاعلاج ہے جس کو مریض مرض نہ سمجھے، عجب کا روحانی مرض بھی اسی قسم کا ہے۔    
حضرت شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں: مرا پیر دانائے روشن شہاب٭
                           دو اندرز  فرمود بر روئے آبیکے آں کہ بر خویش خود بیں مباش،                                       دیگر آں کہ بر غیر بد بیں مباش   
مجھے میرے روشن ضمیر پیر حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی ؒ نے ایک بار کشتی میں بیٹھے ہوئے دو نصیحتیں فرمائیں:      
۱-        خود بینی اور خود پسندی میں کبھی مبتلا نہ ہونا ۔       
۲-        بد بینی میں کبھی مبتلا نہ ہونا، کامیاب رہوگے۔      اور اگر خود پسندی ہوگی تو حدیث کے مطابق تباہی ہوگی کہ عجب ہلاکت پیدا کرنے والی چیزوں میں سب سے زیادہ خطر ناک ہے۔اسی وجہ سے ایک بزرگ فرماتے تھے کہ رات بھرسو کر صبح کو ندامت کی حالت میں اٹھنا مجھے اِس سے زیاددہ پسند ہے کہ شب بیدار رہوں اور صبح کو عجب محسوس کروں کہ ندامت تو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے، لیکن عجب پسند نہیں۔
عجب کا علاج  :  علماء فرماتے ہیں کہ جو شخص عجب کا علاج کرنا چاہتاہے اسے چار چیزوں کا التزام کرنا ہوگا :
۱- ہر عمل او رکمال کو اللہ تعالیٰ کی توفیق کا ثمرہ سمجھے۔ اس سے عجب کے بجائے شکر کا جذبہ پیدا ہوگا۔          
۲- اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کی جو نعمتیں ہیں اُن کا دھیان رکھے۔ اس سے عمل  میں پختگی آئے گی اور عجب سے حفاظت ہوگی۔
۳- عمل کرکے بھی اس بات سے ڈرتا رہے کہ معلوم نہیںعمل قبول ہوگا یانہیں۔ ظاہر ہے کہ جس دل میں یہ خوف ہوگا اس میں عجب کیسے پیداہوگا؟           
۴- اپنے گناہوں اور خامیوں پر نظر ڈالے۔ کیوںکہ جب یہ خطرہ غالب رہے گا کہ کہیں خامیاں اور کوتاہیاں خوبیوں اور نیکیوںپر غالب نہ آجائیں، تو عجب پیدانہیں ہوسکتا۔ اب جو عجب سے بچ گیا وہ ہلاکت سے بچ گیا۔        
بہر کیف! اس حدیث کاحاصل یہ ہے کہ جس شخص کو یہ فکر او رخواہش ہو کہ وہ نجات حاصل کرے او رہلاکت سے بچے، اسے چاہیے کہ وہ ان منجیات پر عمل کرے،اور مہلکات سے اجتناب کرے، ظاہر و باطن ہر حال میں تقویٰ اور خوفِ الٰہی اس کاشعا ررہے۔اور خواہ کوئی خوش ہو یاناراض، مگر ہمیشہ سلیقہ سے انصاف او رحق کی بات کہے۔اور خوش حالی و تنگ دستی دونوں حالتوں میں میارنہ روی اختیار کرے، اور اسی کے ساتھ خواہشاتِ نفسانی او ربخل کے تقاضوں پر نہ چلے، نیز خود پسندی کی مہلک روحانی بیماری سے بھی بچے۔پھر دارین میں کامیابی اس کا مقدر بن جائے گی۔ ان شاء اللہ۔           حق تعالیٰ ہمیں منجیات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرماکر مہلکات سے بچائے، آمین یا رب العالمین۔ وَ آخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِیْنَ یَا رَبِّ صَلِّ وَ سَلِّمْ دَائِماً أَبَدًاعَلٰی حَبِیْبِکَ خَیْرِالْخَلْقِ کُلهم .

                                                            بحوالہ   گلدستہ حدیث    بتغیر   یسیر  :  اکبر حسین اورکزئی 

کوئی تبصرے نہیں: