پیر، 29 جنوری، 2018

اتفاق کی اہمیت اور اختلاف کی مذمت


عَنْ أَبِیْ مُوْسٰیؓ عَنِ النَّبِیِّ   قَالَ: اَلْمُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ کاَلْبُنْیاَنِ یَشُدُّ بَعْضه بَعْضاً، ثُمَّ شَبکَ بَیْنَ أَصاَبِعه ۔‘‘ (متفق علیہ، مشکوٰۃ/ص :۴۲۲/باب الشفقۃ والرحمۃ علی الخلق/ الفصل الأول)
ترجمہ  :   حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓنے رحمت عالم   صلی اللہ علیہ و سلم  سے روایت نقل فرمائی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم  نے ارشاد فرمایا: ’’(ایک) مسلمان (دوسرے )مسلمان کے لیے ایک مکان (اور اس کی دیوار) کے مانند ہے، جس کا بعض (ایک حصہ) بعض (دوسرے حصہ)کو مضبوط رکھتا ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم  نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل فرمایا ۔
کائنات کا نظام انسانوں کے آپسی اتفاق سے چلتا ہے   : رب کریم کی سجائی ہوئی، بسائی ہوئی اور بنائی ہوئی اس کائنات کے نظام میں ذرا غور کیا جائے تو کسی بھی سمجھدارپر اتفاق کی اہمیت اور اختلاف کی مذمت واضح ہو سکتی ہے۔ وہ اس طرح کہ یہ دنیا چوںکہ دار الاسباب ہے، اس لیے اسباب کے تحت کائنات کا تمام ہی نظم و نظام اور ضبط و انتظام انسانوں کے آپسی تعاون و تنا صر اور اتفاق و اشتراک سے چلتا ہے، اس دنیا میں ایک شخص خواہ وہ کتنا ہی دانش مند اور دولت مند کیوں نہ ہو ؟ مگر وہ اپنی ساری ضروریات ِ زندگی اکیلا اور تنِ تنہا پوری نہیں کر سکتا، کیا بڑا، کیا چھوٹا، کیا عامی، کیا نامی، کیا پڑھا لکھا، کیا ان پڑھ،کیا امیر، کیا غریب،کیا گورا ،کیا کالا ،کیا لال ،کیا پیلا ،کیا عربی، کیا عجمی، کیا شہری، کیا دیہاتی ،بلا تخصیص ہر ایک کو قدم قدم پر دوسرے کے سہارے اور ساتھ کی ضرورت پڑتی ہے،رعایا کو بادشاہ چاہیے تو بادشاہ سلامت کو رعایا،پبلک لیڈر کے بغیر اگرلا وارث ہے تو خود لیڈر صاحب بھی لوگوں کے بغیر،بغیر بارات کے دولہا ہیں،مزدوروں کو امیروں اور سیٹھوں کی حاجت و ضرورت ہے تو امیروں کے کام بھی ان کے ملازموں کے بغیر رکے ہوئے ہیں،یہی وجہ ہے کہ آج اگر یہ بھنگی،دھوبی،باورچی،موچی،اور منشی یا دیگر ملازمین اپنے اپنے کام کاج چھوڑ کر ہڑتال پر اتر آئیں تب دیکھئے گا کہ منشی صاحب،ڈپٹی صاحب، کلیکٹر صاحب، پروفیسراور ڈاکٹر صاحب،انجینئر اور ایڈوکیٹ کی کیا گت بن کر رہتی ہے، مختصریہ ہے کہ اُن کے کام ان سے وابستہ ہیں، تو اِن کی ضرورتوں کی زنجیر اُن کے دامن سے بندھی ہوئی ہے،اس طرح ربِّ کریم کی جانب سے کائنات کا یہ سارا نظام ایک دوسرے کے تعاون اور اتفاق و اتحاد سے چلتا ہے۔                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                          
اتفاق کا اصل مرکز دین ہے  : اس لیے نظامِ کائنات کی بقا اور انسانوں کی صلاح و فلاح کے لیے آپسی اتفاق اور اتحاد نہایت اہم و ضروری ہے۔ پھر اس کائنات میں اگرکوئی نیک جذبہ یا صحیح واسطہ ایسا ہوسکتا ہے جو تمام ہی انسانوں کو رنگ و نسل کے امتیاز اور زبان و ذات کے اختلافات سے نجات دلا کر ہر ایک کو اتفاق اور اتحاد کی لڑی میں پرو سکتا ہے تو بلا شبہ وہ دین حق یعنی اسلام ہی ہے، قرآن کہتا ہے کہ تم سب کا دین تو ایک ہی ہے،فرمایا:           { وَ إِنَّ ھٰذِہٖ أُمَّتُکُمْ أُمَّۃً وَّاحِدَۃً } (المومنون : ۵۲ )  اور حقیقت یہ ہے کہ یہی تمہارادین ہے (سب کے لیے) ایک ہی دین۔اورجب سب کا دین ایک ہے تو صاف ہو گیا کہ سب کے اتفاق کا اصل مرکز بھی دین ہی ہے، اس لیے حکم یہ ہے کہ        { وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلاَتَفَرَّقُوْا} (آل عمران : ۱۰۳)اللہ کی رسی یعنی دین کو سب مل کر مضبوطی سے تھام لو اور اختلاف پیدا نہ کرو۔ آیتِ کریمہ میں ’’جَمِیْعًا‘‘ کی قید لگائی، اس کا مطلب یہ ہے کہ دین تو سب کا ایک ہی ہے، اس لیے دینی و اسلامی اصولوں پر سب مل کر جمع ہو جائو، اور انفرادی زندگی میں اپنے مفاد سے بڑھ کر دوسرے کے مفاد کا خیال کرو، اس کی برکت سے تم میں جمعیت اور اجتماعیت خود بخود پیدا ہو جائے گی، اس کے بغیر اتحاد مشکل ہے،شاعر مشرق علامہ اقبال ؒ نے کہا ہے :     فرد قائم ربط ملت سے ہے، تنہا کچھ نہیں *  موج ہے دریا میں، بیرونِ دریا کچھ نہیں
 حضراتِ صحابہؓ    کا اتفاقِ باہمی دین اسلام کے سبب تھا   :   حیاۃ الصحابہ سے دنیا و انسانیت کو یہی درس ہدایت ملتا ہے، جب صحابۂ کرامؓ کی زندگی میں دین نہیں تھا تو ہر طبقہ میں شدید اختلاف اور انتشار تھا،تاریخ اسلام کا ہر طالب علم اس سے بخوبی واقف ہے، لیکن جب ان کی زندگی میں دین آیا اور صحابہؓ  اللہ تعالیٰ کی توفیق و عنایت اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم  کی دعوت و تر بیت سے دین پرجمے، تو ان کے ما بین اتفاق و اتحاد اور اجتماعیت و اخوت کی ایسی عمومی فضا قائم ہوگئی کہ مختلف علاقوں میں رہنے والے،مختلف قبیلوں سے تعلق رکھنے والے،مختلف حیثیتوں اور زبانوں والے قرنِ اوّل کے تمام ہی مسلمان یک جسم وجان اور باہم شیر و شکر ہوگئے،خود قرآن نے اس کی گواہی دیتے ہوئے فرمایا:{ فَأَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖ إِخْواَناً } ( آل عمران : ۱۰۳)                                                                                            پھر اللہ تعالیٰ نے تمہارے دلوں کو جوڑدیا او رتم اللہ کے فضل سے بھائی بھائی بن گئے۔ دربار رسالت میں سیدنا بلال حبشی ؓ تھے، سیدنا صہیب ؓ رومی تھے، سیدنا سلمان فارسی ؓ تھے، سیدنا عداس نینوائیؓ تھے، سیدنا ابو ذر غفاریؓ تھے، سیدنا طفیل دوسیؓ تھے، سیدنا حذیفہ سہمیؓ تھے، سیدنا ابو سفیان امویؓ تھے، سیدنا عدی طائیؓ تھے، انصار بھی تھے، مہاجر بھی،جو کچھ بھی تھے،مگر سب نیک اور ایک تھے، اور{إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَۃٌ } (الحجرات: ۱۰) (بلاشبہ تمام مومن بھائی بھائی ہیں)کی حقیقی،عملی اورسچی تفسیر تھے،اللہ کی قسم ! صحابہ کرامؓ کے پاکیزہ سماج میں جو اتفاق اور اخوت تھی پوری انسانی تاریخ میں کہیں اس کی مثال نہ ملتی ہے اور نہ ملے گی ۔
ایک  ہدایت آموز واقعہ   :   چنانچہ ہجرت کے بعد رحمت عالم  صلی اللہ علیہ و سلم نے اتفاق کی اہمیت کے پیش نظر مہاجرینؓ اور انصارؓ میں مواخات قائم فرمائی، تاریخ انسانی میںیہ ایسا عدیم النظیر واقعہ ہے جس میں تمام انسانوں کے لیے عموماً اور مسلمانوں کے لیے خصوصاًسامانِ عبرت ہے، اس سلسلہ کا ایک ہدایت آموز واقعہ یہ ہے کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ  کا بھائی چارہ حضرت سعدؓ بن ربیع سے ہوا، اِن کے آپس میں اخوت قائم ہوجانے کے بعد حضرت سعدؓ نے حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ سے فرمایا :  ’’ ایْ أَخِیْ! أَناَ أَکْثَرُ أَھْلِ الْمَدِیْنَۃِ ماَلاً، فَانْظُرْ شَطْرَ ماَلِیْ، فَخُذْہٗ، وَتَحْتِیْ امْرَأَتاَنِ، فَانْظُرْ أَیَّتُھُماَ أَعْجَبُ إِلَیْکَ، حَتّٰی أُطَلِّقَھاَ۔‘‘       اے میرے بھائی! میں مدینہ منورہ میں الحمد للہ سب سے زیادہ مالدار ہوں، لہٰذا دیکھ لو اور اپنی پسند کا میرا آدھا مال لے لو، اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے میری دو بیویاں ہیں، جن کے ساتھ زندگی خوشی خوشی بسر ہو رہی ہے،لیکن تم میرے ایمانی بھائی ہو اور اب تک بغیر بیوی کے زندگی بسر کر رہے ہو، اس لیے دیکھو،میری دو بیویوں میں سے جو پسند ہو میں اسے طلاق دے دوںگا،پھر عدت کے بعد تم اس سے شادی کر لینا،سبحان اللہ !کیا ایثار اور اخوت تھی؟ لیکن حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ کی غیور طبیعت نے اس پیش کش کو قبول نہ کیا،فرمایا:’’ بَارَکَ اللّٰہُ لَکَ فِیْ أَھْلِکَ وَ ماَلِکَ، دُلُّوْنِیْ عَلیٰ السُّوْقِ۔‘‘ (حیاۃ الصحابۃ : ۱/۳۶۳) جزاکم اللّٰہ خیرا فی الدارین  . اللہ تعالیٰ تمہارے اہل و عیال اور مال و منال میں بہت ہی زیادہ برکتیں عطافرمائے، آمین۔
آپ مجھے صرف بازار کا راستہ بتلا دیجئے، آگے اللہ تعالیٰ مالک ہے، تو حضرت سعد ؓ نے بے تکلف ان کی رہبری فرمائی،اس کے بعد حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ نے بازار جا کر خریدو فروخت شروع کر دی،اللہ تعالیٰ کی قدرت دیکھئے کہ انہیں تجارت میں اتنا نفع ہوا کہ کچھ ہی عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے ان کو مال بھی دیا اور شادی بھی کرا دی، ان کی تجارت میں برکت کا حال خود ہی فرماتے ہیں کہ اگر میں کوئی پتھر بھی اٹھاتا تو مجھے اس سے سونا چاندی حاصل ہونے کی امید ہوتی ۔امت مسلمہ ایک وجود بن جائے تو کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا   صاحبو ! یہی تو ایمان اور ایمانی زندگی کی خاصیت ہے،اس سے اجتماعیت بھی نصیب ہوگی اور برکت بھی، حضرات صحابہؓ نے ایمان کے بعد اپنی عملی زندگی سے یہ ثابت کر دیا کہ مسلمان جہاں اور جیسا بھی ہو،جس رنگ و نسل سے بھی تعلق رکھتا ہو، لیکن مومن ہونے کی حیثیت سے وہ دوسرے مومن کا بھائی ہے،اور ساری امت مسلمہ ملت اسلامیہ کے توسط سے مربوط او رمضبوط رشتہ میں بندھی ہوئی ہے،یہی وجہ ہے کہ حدیث پاک میں امت مسلمہ کو ایک مضبوط عمارت اور  دیوارسے تشبیہ دی گئی: ’’ اَلْمُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ کاَلْبُنْیاَنِ۔‘‘ علماء نے فرمایا کہ یہ حدیث آیت کریمہ { کَأَنَّھُمْ بُنْیَانٌ مَرْصُوْصٌ} (الصف:۴(ایمان والے سیسہ پلائی ہوئی دیوا رکی طرح ہیں) کی تفسیر ہے۔  مطلب یہ ہے کہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے جو تعلق ہوتا ہے،اس کی مثال ایک مضبوط عمارت کے مانند ہے، جس کے مختلف حصے باہم مل کر مضبوط ہو جاتے ہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر دکھائیں،گویا مسلمان کے آپسی تعلق کو مضبوط مکان کے ساتھ تشبیہ دے کر اتفاق کی اہمیت اور اختلاف کی نحوست کو حدیث مذکور میں بہترین انداز سے سمجھایا گیا،کہ جس طرح مکان کے مختلف اجزاء اور حصے اینٹ،لوہا، لکڑی وغیرہ ایک دوسرے سے جڑ کر ایک مضبوط اورپختہ عمارت بن سکتی ہے، مسلمانوں کے بھی مختلف افراد ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ایک مضبوط جماعت بن سکتے ہیں۔ اس سے معلوم ہواکہ ان کی قوت جمعیت میں ہے، انفرادیت میں نہیں،ورنہ جیسے تعمیر ِ مکان سے پہلے جب اس کے مختلف اجزا ء ایک دوسرے سے علاحدہ تھے،تو حال یہ تھا کہ اینٹوں کا ڈھیر پڑا ہے، الگ الگ انیٹیں لاکھوں کی تعداد میں ہیں، لیکن اس کے باوجود گلی کا معمولی لڑکا بھی ایک اینٹ دوسری اینٹ سے ٹکرا دیتا ہے، لاتعداد اینٹیں بھی اس بے حیثیت لڑکے کے سامنے بے دست وپا ہوتی ہیں،ایسے ہی لوہا اپنی ذات سے کتنا ہی مضبوط سہی،لیکن یہ کسی جگہ الگ سے یونہی پڑا ہواہو تو ایک کمزور شخص بھی اسے چرا سکتا ہے، یہی حال لکڑی کا بھی ہے، مگر جب یہی اینٹیں، لوہا اور لکڑی باہم مل جل کر ایک مضبوط عمارت بن جائیں تو اب بڑی سے بڑی  جماعت مل کر بھی اسے دھکا دے تو ایک اینٹ بھی نہیں ہل سکتی، ٹھیک یہی حالت امت مسلمہ کی ہے، یہ امت مختلف افراد کے مجموعہ سے بنی ہے،اس حقیقت کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مثال دیتے ہوئے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر دکھلایا، جس سے صاف ظاہر ہو گیا کہ اگر ان میں اتفاق اور جمعیت نہیں،تو پھر اس کے افراد اپنی اپنی جگہ کتنی ہی صلاحیت اور حیثیت کے مالک ہوں،مگر ایک بے حیثیت شخص بھی ان کو آپس میں ٹکرا سکتا ہے،کمزور سے کمزور شخص بھی ان کے ایمان، اعمال اور اخلاق کو برباد کر سکتا ہے،لیکن جب  ایک دوسرے سے مل کر حلال امور اور معاملات میں اتفاق کرکے امت مسلمہ ایک وجود بن جائے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت اور حکومت اپنی اکثریت کے باوجود اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی ۔پستی اور ذلت کا سبب اختلافِ باہمی ہے  :         ہماری تاریخ شاہد ہے کہ جب ہمارے ایمان میں قوت اور آپس میں اخوت اورصبر و استقامت کا وصف تھاتو ہم دنیا پر چھائے ہوئے تھے، کامیابی ہمارے قدم چومتی تھی، ہم اقلیت میں تھے تب بھی دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت اکثریت میں ہوتے ہوئے بھی ہمیں شکست نہ دے سکی، بدر کا واقعہ اس کی بہترین مثال ہے، لیکن جب سے ہم میں اختلاف پیدا ہوااور ہم نے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنا شروع کیا،تو ہماری جمعیت اور قوت ختم ہو کر ہوا اکھڑ گئی، قرآن نے سمجھایا تھا: {وَلاَتَناَزَعُوْا فَتَفْشَلُْوْا وَتَذْہَبَ رِیْحُکُمْ } (الأنفال : ۴۱) کہ اختلاف اور جھگڑا نہ کرنا، ورنہ تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔(تمہارا رعب و دبدبہ جاتا رہے گا)  افسوس! قرآن کی اس ہدایت کو ہم سمجھ نہ سکے،یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج امت کے ہر طبقہ میں اختلاف اور انتشار کا بول بالا ہونے کی وجہ سے ہمیں قدم قدم پر دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے،آج جب کوئی قومی و ملی تحریک چلانے کا مسئلہ آتا ہے تو بد قسمتی سے باطل پرستوں سے پہلے ہی آپسی اختلاف اور مسلکی تفریق ہمیں کچل دیتی ہے اور ہماری صلاحیتیں کالعدم ہو کر رہ جاتی ہیں ۔ہمیں  اپنوں ہی نے لوٹا، غیروں میں کیا دم تھا؟میری کشتی وہیںڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا            اور اسی پر بس نہیں، مزید ستم یہ ہے کہ ہمارا جو سرمایہ کفر و شرک،الحاد ومنکرات اور خرافات وبدعات کے خلاف لگنا چاہیے تھا اب وہ ہمارے آپسی اختلاف کے سبب امت مسلمہ پر لگ رہا ہے، ہم نے اپنی توپ وٹینک کے دہانے اپنوں ہی پر کھول دیے ۔     افسوس! کہ کفار تو مسلمانوں کو ایک ہی گروہ سمجھتے ہیں، مگر ہمارا حال یہ ہے کہ ہم  اپنے علاوہ دوسرے گروہ کو مسلمان سمجھنے کے لیے تیار نہیں، الا ما شاء اللہ۔اب دوستوں نے فریب دیا تو کیا ہوا؟
٭ یہ  حادثے ہم  پہ کئی  بار  ہو گئے . ٭   اب کیا گرائے گی ہمیں دنیا نگاہ سے ٭  اتنے ہوئے ذلیل کہ خود دار ہو گئے
عالم گیر دعوت اور عالم گیر پیغام و نظام رکھنے والی امت اس وقت عصبیت و اختلافات میں بٹ گئی، إِنَّا لِلّٰہِ وإِنَّا إِلیہ راجعون! ہماری پستی کا بنیادی سبب آپسی اختلاف ہی تو ہے، اس حقیقت کوکاش ہم سمجھ لیںکہمنفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک ایک ہی سب کا نبی، دین بھی، ایمان بھی ایک حرم پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک اسبابِ زوالِ امت   :           ہمارے بزرگوں نے اسبابِ زوالِ امت کی حقیقت ہمیں سمجھائی؛ تاکہ دیکھ سکیں وہ عروج و زوال، کیاتھا ماضی  اور کیاہے حال؟        چنانچہ حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب ؒ مالٹا کی چار سالہ قید سے رہائی کے بعد تشریف لائے تو ایک رات بعد عشاء دارالعلوم دیوبند میں علماء کے بڑے مجمع میں ارشاد فرمایا کہ ’’ہم نے تو مالٹا کی جیل میں دوسبق سیکھے ہیں‘‘ یہ سن کر سارا مجمع ہمہ تن گوش ہو گیا کہ حضرت استاذ العلماء نے اَ سیّ سال علماء کو درس دینے کے بعد اس آخری عمر میں دو سبق سیکھے ہیں وہ کیا ہیں ؟ فرمایا کہ ’’میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اس پر غور کیا کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی و دنیوی  حیثیت سے کیوں تباہ ہو رہے ہیں ؟ تو اس کے دو سبب معلوم ہوئے: ایک اُن کا قرآن کو چھوڑ دینا،   دو: آپس کا اختلاف اور خانہ جنگی ،اس لیے میں وہیں سے یہ عزم لے کر آیا ہوں کہ اپنی باقی زندگی اس کام میں صرف کروں کہ قرآنِ کریم کو لفطاً اور معنًی عام کیا جائے،بچوں کے لیے لفظی تعلیم کے مکاتب بستی بستی قائم کیے جائیں، اور بڑوں کو عوامی درس (قرآن ) کی صورت میں اس کے معانی سے رو شناس کرایا جائے، اور قرآنی تعلیم پر عمل کے لیے آمادہ کیا جائے،اور مسلمانوں کے باہمی جنگ و جدال کو کسی قیمت پر برداشت نہ کیا جائے۔       
آگے حضرت مفتیٔ اعظم مفتی محمدشفیع صاحب ؒ فرماتے ہیں کہ حضرتؒ نے باقی ایامِ زندگی میں ضعف وعلالت اورہجومِ مشاغل کے باوجود اس کے لیے سعيِ پیہم فرمائی ۔(البلاغ مفتی ٔاعظم  نمبر/ ص : ۲۵۰).
آئیے !بے جا اختلاف ختم کرکے حدیث پاک کا مصداق بنیں   :      عاجز کا خیالِ ناقص یہ ہے کہ امت کا عروج ایمان کی قوت، اسلامی سیاست، حسن تدبیر، آپس کی محبت و اخوت اور صبر و استقامت میں ہے، اور زوال اختلاف میں ہے،امت کو زوال سے بچانے کے لیے ذاتی طور پر ہر ایک کے لیے ضروری ہے کہ اپنے افکار و خیالات کو قرآن وسنت اور مسلَّمہ اسلامی اصولوں سے متصادم ہونے(ٹکرانے) سے بچائے، اختلاف اگر شرعی حدود میں نیک نیتی کے ساتھ ہو تو وہ مذموم نہیں ہے، لیکن اس صورت میں بھی اختلاف رائے کے باوجود فریق ثانی کے احترام سے ہرگز گریز نہیں کرنا چاہیے،پھر ان شاء اللہ وہ اختلاف بھی رحمت ثابت ہوگا،کیوںکہ نہ مطلقاً اتفاق مستحسن ہے اور نہ مطلقاً اختلاف مذموم ہے،بلکہ مقاصد پر نظر کر کے ان کے حسن و قبح (اچھے برے ہونے) کافیصلہ کیاجائے گا، نیکی میں اعتدال کے ساتھ اتفاق اچھا اور اختلاف برا ہے،جب کہ بدی میں اس کے برعکس اختلاف اچھا اور اتفاق براہے۔قرآنِ کریم  نے اصحابِ کہف کے متعلق فرمایا  : { وَرَبَطْنَا عَلٰی قُلُوْبِہِمْ إِذْ قَامُوْا} (الکہف : ۱۴)           جب وہ حق کی دعوت لے کر اٹھے تو ہم نے ان کے دلوں میں ربط و تعلق اور وحدت ویگا نگت پیدا کر کے انہیں کئی قالب ویک جان بنا کر متحد و متفق کر دیا، یہ اس لیے کہ انہیں دنیا کی باطل قوت سے ٹکر لینا تھی، جس کے لیے ایمان کی قوت کے ساتھ آپسی اخوت  اور حسنِ تدبیر یعنی اسلامی سیاست اور صبر و استقامت بہت ضروری ہے ۔   شاہ صاحب علامہ سید عبد المجید ندیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’احقاقِ حق و ابطالِ باطل کے علم برداروں کے لیے قرآن نے یہ واضح معیار پیش کر دیا کہ موقف کی سچائی کے بعد  اہلِ حق کی کامیابی کاجوگُر ہے وہ ان کا باہمی اتحاد ہے، اگر اُن میںاتفاق و اتحاد نہیں تو موقف کی سچائی کے باجود کا میابی کی حقیقی منزل سے وہ محروم رہیں گے ۔           صاحبو !یقینا ہم ایک دوسرے کے بغیر ناقص ہیں،نہ عزت سے جی سکتے ہیں نہ چین سے مر سکتے ہیں،اس لیے تہیہ وارادہ کیجئیکہ آپس میں بے جا اختلاف کو ختم کرکے بنیانِ مرصوص بن جائیں، اللہ تعالیٰ کی رسی کو حکم قرآنی کے مطابق مضبوطی سے تھام لیں،اور حدیث مذکورمیں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشادکے مصداق بنیں، جس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لیے مضبوط مکان (اور اس کی دیوار)کے مانند ہے، جس کا ایک حصہ دوسرے سے مل کر تقویت پاتا ہے، اگر معمولی ذرات مل کر بلند پہاڑ بن سکتے ہیں، پانی ایک ایک قطرہ مل کر سمندر بن سکتا ہے،ایک ایک ٹہنی اور شاخ مل کر درخت بن سکتا ہے، جسم کے اعضا مل کر بہترین انسان بن سکتا ہے،تو یقینا امت کے تمام افراد بھی ایک دوسرے سے مل کر بہترین امت بن سکتی ہے ۔ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے انسان کواُخو ّت کا بیاں ہوجا،    محبت کی زباں ہو جاحق تعالیٰ ساری امت کو صراطِ مستقیم پر جمع فرمادے۔ ( آمین )     جَزَی اللّٰہُ عَنَّا مُحَمَّداً صَلّٰی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمَا ہُوَ أَہْلُہٗ ۔

٭…٭…٭
بحوالہ گلدستہ حدیث  بتغیر یسیر :   اکبر حسین اورکزئی

منگل، 23 جنوری، 2018

فکر ِآخرت


عَنِ المُسْتَوْرِدِ بْنِ شَدَّادٍؓ  قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ الله یَقُوْلُ: ’’ وَالله مَا الدُّنْیَا فِیْ الآخِرَةِ إِلاَّ مِثْلُ مَا یَجْعَلُ أَحَدُکُمْ إِصْبَعه فِیْ الیَمِّ، فَلْیَنْظُرْ بِمَ یَرْجِعُ۔‘‘(مسلم، مشکوٰۃ المصابیح : ۴۳۹)   
ترجمہ  :   حضرت مستورد بن شدادؓ  فرماتے ہیں کہ میں نے رحمت ِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم  سے سنا کہ دنیا کی مثال آخرت کے مقابلہ میں ایسی ہے جیسے کہ تم میں سے کوئی اپنی ایک انگلی دریا میں ڈال کر نکال لے، اور پھر دیکھے کہ پانی کی کتنی مقدار اس میں لگ کر آئی ہے۔
آخرت کی حقیقت     : اللہ رب العزت نے جس طرح اس عالمِ دنیا کو پیدا فرمایا جس میں ہم اور آپ اپنی زندگی گذار رہے ہیں اور جس کو ہم اپنی آنکھوں اور کانوں وغیرہ حواس سے محسوس کرتے ہیں ، جس طرح یہ ایک واقعی حقیقت ہے اسی طرح اللہ رب العزت نے اس عالمِ دنیا کے بعد عالمِ آخرت کو بھی پیدا فرمایا ہے۔ آخرت سے مراد وہ زندگی ہے جو مرنے کے بعد دو بارہ اٹھائے جانے سے شروع ہو کر کبھی ختم نہ ہوگی، اور اسی میں دنیوی زندگی کے اچھے برے اعمال کی جزا و سزا دی جائے گی۔عالمِ دنیا کی طرح عالمِ آخرت بھی ایک واقعی اور یقینی حقیقت ہے، جس پر ایمان ضروری ہے، قرآنِ کریم نے آخرت کو مختلف ناموں سے بیان کیا ہے، مثلاً سورۂ ’’الحاقہ‘‘ میں اس کا ایک نام ’’الحاقۃ‘‘ ذکر کیا گیا، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے، اور اُسے قائم ہونا ہے، قرآن نے گویا اس لفظ سے لوگوں کو یہ بتا دیا کہ آخرت کی بات یوں ہی نہیں ؛ بلکہ وہ ایک حقیقت ہے، اور ہر حال میں واقع ہونے والی ہے، اس لیے آخرت کے سلسلہ میں کسی قسم کے تردّد اور شک میں پڑ کر اسے نظر انداز نہ کیا جائے، اب رہی بات یہ کہ اس دنیوی زندگی میں ہمارا آخرت کو نہ دیکھنا اور اُسے محسوس نہ کرنا، تو یہ بالکل ایسا ہی ہے جیساکہ ماں کے پیٹ میں ہونے کے زمانہ میں ہم اس دنیا کو نہ دیکھ سکتے تھے نہ محسوس کر سکتے تھے، لیکن جب ہم ماں کے پیٹ سے منتقل ہو کر دنیا میں آئے، تو ہم نے اس دنیا اور اس کی وہ تمام حیرت انگیز چیزوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا، بلکہ ان کا مشاہدہ و تجربہ کر لیا جن کا ہم ماں کے پیٹ میں تصو ّر بھی نہیں کر سکتے تھے، بالکل اسی طرح جب اس عالمِ دنیا سے موت کے بعد منتقل ہو کر ہم عالمِ آخرت میں پہنچیں گے، تو وہاں کی ان تمام حیرت انگیز چیزوں اور جنت و جہنم کو دیکھ لیں گے، جن کا اس وقت ہم تصو ّر بھی نہیں کر سکتے، لیکن چوں کہ ان کی اطلاع اللہ رب العزت نے اپنی کتاب اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم  کے ذریعہ ہمیں دی ہے اور قرآنِ پاک کے بقول  آخرت پر ایمان اہل ایمان کی پہچان ہے:{ وَبِالآخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ} (البقرۃ : ۴) اس لیے الحمدللہ ! ہم اہل ایمان آخرت پر یقین بھی رکھتے ہیں اور فکر بھی کرتے ہیں ، اور علماء کہتے ہیں کہ فکر ِ آخرت درحقیقت چراغِ آخرت ہے؛   جو مومن ہی کے دل میں روشن ہوتا ہے۔
آخرت اور اس کی تمام چیزیں دائمی ہیں  : پھر قرآنِ پاک نے دنیا اور آخرت کے متعلق ایک یقینی حقیقت یہ بیان فرمائی کہ ’’دنیا اور اس کی ہر چیز فانی ہے۔‘‘  { کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ} (الرحمن : ۲۶)                   
بقولِ شاعر  :         ہر صبح طائرانِ خوش الحان     ٭        کہتے ہیں :  ’’کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ‘‘    
دنیا کی ہر چیز آنی جانی اور فانی ہے، اس کے برخلاف آخرت اور اس کی ہرچیز غیر فانی اور دائمی ہے، بلکہ خود انسان بھی وہاں پہنچنے کے بعد غیر فانی بنا دیا جائے گا، وہاں اس کو بھی کبھی ختم نہ ہونے والی زندگی دی جائے گی، اس مضمون کو قرآنِ پاک نے مختلف مقامات پر بیان کیا ہے، چنانچہ ایک جگہ ارشاد ہے:  { إِنَّمَا ھٰذِہِ الْحَیوٰۃُ الدُّنْیاَ مَتَاعٌ وَ إِنَّ الآخِرَۃَ ھِيَ دَارُ الْقَرَارِ} (المؤمن : ۳۹)                   ’’یہ دنیوی زندگی (اور اس کا ساز و سامان) تو بس چند دِنوں کے استعمال کے لیے ہے اور یقین جانوکہ آخرت ہی در اصل رہنے بسنے کا گھر ہے۔‘‘  تویہاں کی ہر چیز وقتی ہے اور وہاں کی ہر چیز دائمی ہے۔      حدیث ِ مذکور میں آخرت کے مقابلہ میں دنیوی زندگی کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا  :
’’ وَ الله مَا الدُّنْیَا فِیْ الآخِرَۃ إِلاَّ مِثْلُ مَا یَجْعَلُ أَحَدُکُمْ إِصْبَعه فِیْ الیَمِّ، فَلْیَنْظُرْ بِمَ یَرْجِعُ۔‘‘      
مطلب یہ ہے کہ دنیا کی فانی زندگی آخرت کے مقابلہ میں اتنی بھی حقیقت و حیثیت نہیں رکھتی جتنا کہ دریا کے مقابلہ میں انگلی پر لگا ہوا پانی، اور یہ مثال بھی صرف سمجھانے کے لیے دی ہے، ورنہ فی الحقیقت دنیا کی آخرت کے مقابلہ میں کوئی حیثیت ہی نہیں ، وجہ یہ کہ دنیا اور جو کچھ اس میں ہے، خواہ وہ نعمتیں ہوں یا مصیبتیں ، وقتی، متناہی، محدود اور فانی ہیں ، جب کہ آخرت لا محدود، غیر متناہی ، غیر فانی اور دائمی ہے،لہٰذا وہاں کی سزائیں اور مصیبتیں بھی دائمی ہوں گی، اور جزائیں و نعمتیں بھی، چنانچہ قرآن نے شقی اور بدبخت لوگوں کے بارے میں جو دنیا ہی کے طلبگار تھے ارشاد فرمایا ہے :{ فَأَمَّا الَّذِیْنَ شَقُوْا فَفِیْ النَّارِ لَھُمْ فِیْھَا زَفِیْرٌ وَّ شَھِیْقٌ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا} (ھود : ۱۰۶)   
جو لوگ شقی ہوں گے وہ دوزخ میں ہوں گے، جہاں ان کے چیخنے چلانے کی آوازیں آئیں گی، یہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔دوسرے مقام پر فرمایا :  { وَ مَاھُمْ بِخٰرِجِیْنَ مِنَ النَّارِ} (البقرۃ : ۱۶۷)  یہ لوگ کبھی بھی دوزخ سے نہ نکلیں گے۔          مطلب یہ ہے کہ وہاں کافروں اور مجرموں کو جوسزا دی جائے گی وہ دائمی ہوگی، اسی طرح آخرت کے اُمید وار مومنوں اور فرماں برداروں کو جو جزا دی جائے گی وہ بھی دائمی ہوگی۔        فرمایا :     { وَ أَمَّا الَّذِیْنَ سُعِدُوْا فَفِیْ الْجَنّۃِ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا} (ھود : ۱۰۸) جو نیک بخت ہوں گے وہ جنت میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔    دوسرے مقام پر فرمایا :        { لاَ یَمَسُّھُمْ فِیْھَا نَصَبٌ وَّ مَا ھُمْ مِّنْھَا بِمُخْرَجِیْنَ} (الحجر:۴۸) وہاں ان کو نہ کوئی تھکن ہوگی، نہ وہاں سے کبھی وہ نکالے جائیں گے۔
آخرت کا یقین اور استحضار  :ظاہر ہے کہ جب یہ حقیقت ہے تو اب نقل و عقل دونوں کا تقاضہ یہ ہے کہ ہماری ساری توجہ و طلب اور فکر و کوشش بس آخرت ہی کی بہتری کے لیے ہو، دنیا ضرورت پوری کرنے کی جگہ ہے، چاہت پوری کرنے کی نہیں ، لہٰذا دنیا سے ہمارا تعلق بقدرِ ضرورت ہی ہو، ہم دنیا کے طلبگار بننے کے بجائے آخرت کے اُمید وار بن جائیں ، لیکن بظاہر یہ اسی وقت آسان ہے جب آخرت کے حقائق کا مکمل یقین اور ان کا استحضار نصیب ہو جائے، آج صورتِ حال یہ ہے کہ آخرت کا کسی درجہ میں ہمیں یقین تو ہے؛ مگر اس کا استحضار و دھیان بہت کم ہے،اس لیے آخرت کے بجائے دنیا کی طرف ہماری رغبت اور توجہ زیادہ ہے، جب کہ حضراتِ انبیاء، صحابہؓ  اور صلحاء کو یہ چیز میسر تھی، جیساکہ قرآنِ کریم نے ان کے امتیازی وصف کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ  { إِنَّا أَخْلَصْنٰھُمْ بِخَالِصَۃٍ ذِکْرَ الدَّارِ} (ص : ۴۶)ہم نے ان کو ایک خاص وصف کے لیے چن لیا تھا، جو (آخرت کے) حقیقی گھر کی یاد تھی۔ یعنی یہ لوگ آخرت پر یقین، اس کااستحضار اور اس کو یاد رکھتے تھے۔  اس لیے ان کی ساری رغبتیں اور دلچسپیاں آخرت کے ساتھ خاص ہو گئی تھیں ، دنیا کی رنگینیوں سے ان کا دل اُٹھ چکا تھا۔
صاحبو  !  یہ ایک یقینی حقیقت ہے کہ دِل میں آخرت کا یقین اور اس کا استحضار پیدا ہونے کے بعد کسی بھی انسان کے لیے اس کی فکر اور تیاری کرنا، مراد گناہوں سے بچنا اور نیکیوں کا اہتمام کرنا آسان ہو جاتا ہے۔
ایک عبرت ناک واقعہ  :اس سلسلہ میں ایک نہایت عبرت ناک واقعہ ہے کہ مکہ مکرمہ میں حضرت عبید بن عمیرؒ مشہور تابعی گذرے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑی فصیح زبان دی تھی، ان کی مجلس میں مشہور صحابی حضرت عبداللہ بن عمرؓ  بھی بیٹھا کرتے تھے، اور ان کی دل پر اثر کرنے والی گفتگو سے پھوٹ پھوٹ کر روتے تھے، مکہ مکرمہ میں ایک جوان عورت شادی شدہ تھی، اللہ تعالیٰ نے اسے غیر معمولی حسن سے نوازا تھا، یہ حسن بھی بڑی عجیب چیز ہے، بڑے بڑے بہادر، پہلوان اور سورما اس کے ایک نگاہِ غلط انداز کے وار سے ڈھیر ہو کر مرغِ بسمل کی طرح تڑپنے لگتے ہیں ، وہ بہادر جو کسی کے داؤ میں نہ آتا ہو بسا اوقات حسن کی بھولی سی نظرسے اس کے قلب و جگر کی حالت دگرگوں ہو جاتی ہے، یہ خاتون ایک دِن آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھ رہی تھی، شوہر سے کہنے لگی: ’’کوئی شخص ایسا ہو سکتا ہے جو یہ چہرہ دیکھے اور اس پر فریفتہ نہ ہو؟‘‘ شوہر نے کہا: ’’ہاں ، ایک شخص ہے، حضرت عبید بن عمیر!‘‘  اس عورت کو شرارت سوجھی، کہنے لگی:  ’’اگر آپ مجھے اِجازت دیں تو ابھی میں انہیں بھی اسیر محبت بنائے دیتی ہوں ،‘‘  شوہر نے اِجازت دی، تو وہ حضرت عبید بن عمیرؒکے پاس آئی اور کہا : ’’مجھے آپ سے تنہائی میں ایک ضروری مسئلہ پوچھنا ہے،‘‘ حضرت عبید بن عمیرؒ  مسجد ِحرام کے ایک گوشے میں اس کے ساتھ الگ کھڑے ہو گئے، تو اس نے اپنے چہرے سے نقاب سرکایا، اور اس کا چاند سا حسین چہرہ قیامت ڈھانے لگا، حضرت عبیدؒ نے اُسے بے پردہ دیکھ کر فرمایا : ’’اللہ کی بندی! اللہ سے ڈر،‘‘ وہ کہنے لگی: ’’میں آپ پر فریفتہ ہو گئی ہوں ،آپ میرے متعلق غور کر لیں ‘‘ … دعوتِ گناہ کی طرف اشارہ تھا؛ مگر حضرت عبیدؒ اس کے جھانسے میں کب آنے والے تھے، فرمایا : ’’میں چند سوالات پوچھتا ہوں ، اگر تونے ان کے صحیح جوابات دے دیے، تو میں تیری دعوت پر غور کر سکتا ہوں ‘‘ اس نے ہامی بھر لی، تو فرمایا : ’’موت کا فرشتہ جب تیری روح قبض کرنے آجائے، اس وقت تجھے یہ گناہ اچھا لگے گا؟‘‘  کہنے لگی :  ’’ہرگز نہیں ‘‘    فرمایا : ’’جواب درست ہے۔‘‘ فرمایا : ’’جب لوگوں کو قیامت کے دِن اعمال نامے پیش کیے جارہے ہوں گے، اور تجھے اپنے متعلق معلوم نہ ہوگا کہ وہ دائیں ہاتھ میں ملے گا یا بائیں میں ؟ کیا اس وقت تجھے یہ گناہ اچھا لگے گا؟‘‘ کہنے لگی : ’’ہرگز نہیں ‘‘  فرمایا : ’’جواب صحیح ہے۔‘‘   فرمایا :’’پل صراط عبور کرتے وقت تجھے اس گناہ کی خواہش ہوگی؟‘‘ کہنے لگی: ’’ہرگز نہیں ‘‘ فرمایا :  ’’جواب درست ہے‘‘ پھر فرمایا  : ’’جب تو آخرت میں اللہ کے سامنے کھڑی ہوگی، اس وقت تجھے اس گناہ کی رغبت ہوگی؟‘‘ کہنے لگی: ’’بالکل نہیں ‘‘  اس پر آپؒ نے فرمایا : ’’ اللہ کی بندی! اللہ سے ڈر اور فکر ِ آخرت کر!‘‘اس نصیحت سے اس عورت کے دل کی کائنات بدل گئی، جب وہ گھر لوٹی تو حالت یہ تھی کہ دنیوی لذتیں اُسے بے حقیقت معلوم ہونے لگیں ، ساری رغبتیں آخرت کے ساتھ خاص ہو گئیں ، پہلے اس کی ہر رات شب ِ زفاف ہوا کرتی تھی؛ مگر اب ہر رات شب ِ عبادت بن گئی۔ (کتاب الثقات للعجلی:۲/۱۱۹، از :’’کتابوں کی درسگاہ میں ‘‘ /ص:۵۳) .
کسی نے کیا خوب کہا ہے: فکر ِ دنیا کر کے دیکھا، فکر ِعقبیٰ کر کے دیکھ ٭ سب کو اپنا کر کے دیکھا، رب کو اپنا کر کے دیکھ
توشۂ آخرت  :   خلاصہ یہ ہے کہ ایمان کے بعد انسان کی زندگی کو ایمانی و عملی بنانے، یعنی زندگی کو سنوارنے اور فلاح کے مقام تک پہنچانے کے لیے بنیادی طور پر اللہ کاڈر اور آخرت کا فکر نہایت ضروری ہے، خوفِ خدا اور فکر ِعقبیٰ کی سچی اور یقینی کیفیت کے دل میں پیدا ہونے کے بعد کسی بھی انسان کے لیے معاصی سے اجتناب اور اعمالِ صالحہ کا اہتمام آسان ہو جاتا ہے، اور یہی در اصل توشۂ آخرت ہے، یعنی ایمانِ کامل، اعمالِ صالحہ، تقویٰ اور فکر ِعقبیٰ، آخرت میں یہی چیز کام آنے والی ہے، اس لیے رحمت ِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم  اپنی امت کو اپنے خطبات و مواعظ اور نصائح کے ذریعہ اس کی طرف متوجہ فرماتے رہتے تھے، جیساکہ مشہور صحابی ٔ رسول سیدنا حنظلہ بن الربیع رضی اللہ عنہ کی مشہور و معروف روایت سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ رحمت ِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم  کی مجالسِ مقدسہ کا خاص موضوع ایمان، اعمالِ صالحہ، خوفِ خدا اور فکر ِعقبیٰ ہی تھا، یہی وجہ ہے کہ حضرات ِ صحابہؓ  کی دلی کیفیت ان مضامین کو سن کر یہ ہوتی گویا وہ دنیا میں نہیں ؛ آخرت میں ہیں ، اور احوالِ آخرت، جنت و دوزخ ان کے بالکل سامنے ہیں ، یہ کیفیت اپنی حقیقت کے ساتھ آج ہمارے دلوں میں بھی پیدا ہو جائے تو ہماری ساری رغبتیں دنیا سے ہٹ کر آخرت کے ساتھ ہو جائیں ، اور دنیا سے زیادہ آخرت کی فکر پیدا ہو جائے، نیز اعمالِ صالحہ کی رغبت اور معاصی سے نفرت پیدا ہو جائے۔اللہ تعالیٰ اپنے کرم سے ہمیں توشۂ آخرت، یعنی ایمانِ کامل، اعمالِ صالحہ، تقویٰ اور فکر ِ عقبیٰ کی دولت سے مالامال فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ کُلَّمَا ذَکَرَہُ الذَّاکِرُوْنَ، وَ کُلَّمَا غَفَلَ عَنْ ذِکْرِہِ الْغَافِلُوْنَ.

                 بحوالہ گلدستہ حدیث  بتغیر یسیر  :   اکبر حسین اورکزئی 

پیر، 15 جنوری، 2018

حقوقِ مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم

عَنْ أَبِیْ  هریْرَۃ ؓ أَنَّ رَسُوْلَ الله قَالَ: ’’کُلُّ أُمَّتِیْ یَدْخُلُوْنَ الجَنة، إِلاَّ مَنْ أَبٰی، قِیْلَ: ’’وَمَنْ يأَبٰی؟‘‘ قَالَ : ’’مَنْ أَطَاعَنِیْ دَخَلَ الْجَنة، ومَنْ عَصَانِیْ فَقَدْ أَبٰی۔‘‘ (رواہ البخاری،  مشکوٰۃ/ ص:۲۷/ باب الاعتصام بالکتاب والسنة/ الفصل الأول)
ترجمہ :   حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم  نے ارشاد فرمایاکہ ’’میری تمام امت جنت میں داخل ہوگی؛ مگر وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوگا جس نے میرا انکار کیا، پوچھاگیا: ’’اے اللہ کے رسول! انکارکرنے والا کون ہے؟‘‘ فرمایا:’’جس نے میری اطاعت کی وہ (امتی) جنت میں داخل ہوگا، اورجس نے میری نافرمانی کی اس نے میرا  انکار کیا۔‘‘
حقوقِ مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم  کی اہمیت: اللہ رب العزت نے ہمیں بلا کسی استحقاق کے محض اپنی عنایت سے جس عظیم الشان اورجلیل المرتبت نبی صلی اللہ علیہ و سلم  کی امت میں پیدافرمایااس کا شکر اور تقاضا یہ ہے کہ اس نبی کے جو حقوق ایک امتی ہونے کی حیثیت سے ہم پر عائد ہوتے ہیں ، ہم اُنہیں جانیں اوراُنہیں اداکرنے کا پورا اہتمام کریں ،  حقوقِ مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم  کی اتنی زیادہ اہمیت ہے کہ اُنہیں جانے اوراداکیے بغیر نہ ہمارے ایمان واعمال میں کمال پیداہوسکتاہے اورنہ ہم رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم  کی ہدایات و تعلیمات سے کما حقہ فائدہ اٹھاکر دارین کی سرخ روئی حاصل کرسکتے ہیں ۔ حقوقِ مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم  کی اسی عظمت واہمیت کے پیش نظر علمائِ امت نے قرآن وحدیث کی روشنی میں انہیں بالتفصیل بیان کیا، جن میں سے چار حقوق کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔
پہلا حق تصدیق رسالت:امت محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر حقوقِ مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم  میں سے پہلا حق تصدیق رسالت ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت اور رسالت پر ایمان لایاجائے، جس طرح اللہ رب العزت کی ربوبیت والوہیت اوراسلام کی حقانیت پر ایمان لانا ضروری ہے، اسی طرح رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم  کی نبوت و رسالت پر بھی ایمان لانا ضرور ی ہے، قرآنِ کریم میں مختلف مقامات پر ہمیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم  پر کامل اورمکمل ایمان لانے کی تاکید کی گئی ہے، چنانچہ ایک جگہ ارشاد فرمایا:            {یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ} (النساء : ۱۳۶)اے حسنِ ازل سے پیمانہ ٔوفا باندھنے والو! اے اپنے معبود کی الوہیت اورربوبیت کا اقرار کرنے والو! اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم  پر ایمان لاکر اپنی وفا داری کا ثبوت پیش کرو۔ ایک اورمقام پر فرمایا :      { إِنَّا أَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا لِتُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ وَتُعَزِّرُوْہُ وَتُوَقِّرُوْہُ وَتُسَبِّحُوْہُ بُکْرَۃً وأَصِیْلاً} (الفتح : ۸-۹)میرے محبوب! ہم نے آپ کو (دین حق کی) گواہی دینے والا اور(اہل ایمان کے لیے جنت کی)خوشخبری دینے والا اور (بے ایمان کے لیے جہنم سے) ڈرانے والا بناکر بھیجاہے، تاکہ (اے ایمان والو!)تم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم  پر (کامل اور مکمل) ایمان لاؤ  اور اس کی مدد کرو اور اس کو بزرگ سمجھو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرو۔  یہ پہلا حق ہے جو ان آیات میں بیان کیا گیا، اُسے اداکیے بغیر تو کلمہ بھی مکمل نہ ہوگا، دیکھئے نا! اگرکوئی شخص ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کا تواقرار کرے؛ لیکن ’’محمد رسول اللہ‘‘ پر ایمان نہ لائے، تو نہ اس کا کلمہ مکمل ہے، نہ ایمان معتبرہے، کلمہ اورایمان کی تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی الوہیت و ربوبیت کے ساتھ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  کی نبوت اورسالت پر بھی ایمان لایاجائے، اورآپ صلی اللہ علیہ و سلم  پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کو اللہ تعالیٰ کا سچا اورآخری رسول مان کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کی دی ہوئی ہدایات کے صحیح اور سچاہونے کا یقین رکھے، کیوں کہ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کی ذات پر ایمان لانا ضروری ہے، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کی ہدایات اور تعلیمات پر ایمان لانا بھی ضروری ہے،اس سلسلہ میں ہمارا یقین یہ ہو کہ ہماری آنکھ غلط دیکھ سکتی ہے، کان غلط سن سکتے ہیں ، زبان غلط چکھ سکتی ہے، ہاتھ چھونے اور محسوس کرنے میں غلطی کرسکتے ہیں ؛ لیکن جو ہدایات و تعلیمات صحیح اور مستند طریقہ پر رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم  سے ثابت ہیں وہ کبھی غلط نہیں ہوسکتیں ۔صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا ایمان و یقین ایسا ہی تھا، چنانچہ اس سلسلہ میں ایک واقعہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے تین صاحب زادوں میں حضرت قاسم اور حضرت عبداللہ (جن کو طاہر و طیب بھی کہا جاتا ہے) تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے تھے، لیکن تیسرے صاحب زادے حضرت ابراہیم حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی ام ولد حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا سے تھے، جب حضرت ابراہیم کا بھی انتقال ہو گیا تو حضرت ماریہ بہت زیادہ رنجیدہ ہوئیں ، حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مرتبہ ان کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ کیوں اتنی حزین و غمگین ہو؟ ہمارا بیٹا تو جنت کے باغوں میں ٹہل رہا ہے، آؤ! میں تم کو جنت میں ٹہلتا ہوا دکھلا دوں ، اس پر حضرت ماریہ نے عرض کیا: نہیں ، مجھے نہیں دیکھنا، مجھے اب صبر آگیا، بعد میں کسی نے اس کی وجہ دریافت کی، تو فرمایا: اگر میں دیکھ لیتی تو ایمان بالغیب نہ رہتا، کیوں کہ میرا ایمان و یقین یہ ہے کہ آنکھوں کا دیکھا ہوا غلط ہو سکتا ہے، لیکن حضور صلی اللہ علیہ و سلم  کا فرمان غلط نہیں ہوسکتا۔ (خطباتِ منو ّر:۳/۱۶۲)       ہمارا بھی ایمان و یقین ایسا ہی ہونا چاہیے، مثلاًآپ صلی اللہ علیہ و سلم  کی ہدایات وتعلیمات ہیں کہ سچ میں نجات اورجھوٹ میں ہلاکت ہے، وغیرہ، اب حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں ؛ مگر ان ہدایات و تعلیمات کے سچا ہونے پر ہمارا یقین ہو، اوراسی کے مطابق عمل بھی ہو، تو زندگی میں ایک صالح انقلاب پیداہوگا،اوریہ ایمانِ کا مل کی علامت ہونے کے ساتھ ایمان واعمال میں حلاوت کا سبب بھی ہے۔   حدیث ِ پاک میں وارد ہے:
عَنِ العَبَّاسِ بْنِ عَبْدِالمُطَّلِبِؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ الله : ’’ ذَاقَ طَعْمَ الإِیْمَانِ مَنْ رَضِيَ بِالله رَبًّا وَ بِالإِسْلاَمِ دِیْنًا وَ بِمُحَمَّدٍ رَسُوْلاً۔‘‘ (مسلم،   مشکوٰۃ المصابیح / ص:۱۲)  
ترجمہ :    جس نے دل سے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت، اسلام کی حقانیت اورحضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت کو کما حقہ مان لیا، اس نے ایمان کی حلاوت کو پالیا۔     اس کے برخلاف جس شخص کا آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان مکمل نہیں ؛بلکہ کھوکھلا ہے، دوسرے لفظوں یوں کہیے کہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات پر ایمان ہے؛ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بات پر ایمان نہیں ، یاکمزورایمان ہے، تو وہ یہی سوچے گاکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ہدایات و تعلیمات جو بھی ہوں ؛ مگر لذت حرام میں ، کثرت سود میں اور نفع جھوٹ میں ہے،  (نعوذ باللّٰہ من ذلک)  ظاہر ہے کہ ایساشخص آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کی ہدایات و تعلیمات سے کیسے فائدہ اٹھاسکتاہے؟ جس کا آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کی ذات اورہدایات پر مکمل ایمان نہیں ۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم  پر ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالیٰ کا سچا و آخری رسول مان کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کی تمام ہی ہدایات کے صحیح ہونے کا مکمل یقین رکھیں اور ان کے مطابق ساری زندگی عمل کریں ، امت محمدیہ پر حقوقِ مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم  میں سے پہلا حق یہی ہے۔
دوسراحق عظمت:دوسرا حق امت ِمحمدیہ پرحقوقِ مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم  میں سے جو آیت کریمہ میں بیان ہوا وہ یہ ہے کہ ہمارے سینوں میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بے پناہ توقیر اور عظمت ہو، کیوں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم  پر کامل اورمکمل ایمان لاناضروری ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ کے دین کی نصرت اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم  کی عظمت بھی ضروری ہے، چنانچہ فرمایا:{ لِتُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ تُعَزِّرُوْہُ وَ تُوَقِّرُوْہُ} (الفتح : ۹)     ایمان کے ساتھ عظمت اس لیے بھی ضروری ہے کہ نبی اورامتی کاتعلق محض قانونی نہیں ؛ بلکہ ایمانی و روحانی بھی ہے، اور اس تعلق میں نمایاں پہلو تعظیم و توقیر کاہے، اسی کے پیش نظر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی:{ یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَيِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ وَاتَّقُوْا اللّٰہَ إِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَرْفَعُوْا أَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْہَرُوْا لَہُ بِالْقَوْلِ کَجَہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُکُمْ وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ}(الحجرات : ۱-۲)   ان آیات میں بطورِ خاص اہل ایمان کو دو آداب تلقین فرمائے گئے ہیں :
(۱)       اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم  سے قول وعمل میں سبقت نہ کرو۔ یہی عظمت کا تقاضا ہے۔
(۲)      اور دوسرا ادب یہ تلقین کیاگیاکہ اپنی آواز کو پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم  کی آواز سے پست رکھو کہ یہ ادب و عظمت کے خلاف ہے، ان آداب و آیات کے نازل ہونے کے بعد حضرات صحابہ ؓ  کا حال یہ تھا کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ و سلم  کی خدمت میں نہایت ادب و احترام کے ساتھ باوضو حاضر ہوتے، اورمجلس نبوی میں اس طرح سکون سے بیٹھتے جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہوں ، مجلس نبوی کی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے صحابی ٔرسول صلی اللہ علیہ و سلم  حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہما  فرماتے ہیں : ’’کَأَنَّ عَلٰی رُؤُوْسِنَا الطَّیْرَ۔‘‘(ابن ماجہ، مشکوٰۃ/ص:۱۴۹/ باب دفن المیت)            ’’گویا ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے تھے۔‘‘ یعنی انتہائی سکون اور خاموشی کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔       اگر حضرات صحابہ کسی بات پرحضور صلی اللہ علیہ و سلم  کی خفگی و ناراضگی محسوس کرتے تو فوراً کہتے: ’’میں اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم  کے غصہ سے پناہ مانگتاہوں ۔‘‘ (مجھے سب کچھ منظور ہے؛ مگر اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم  کی ناراضگی ہرگز گوارانہیں )   ’’ أَعُوْذُ بِالله مِنْ غَضَبِ الله وَ غَضَبِ رَسُوْله۔‘‘ (مشکوٰۃ / ص:۳۲)       حتی کہ جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم  سے بات کرنے کی نوبت آتی تو آواز بھی اتنی پست ہوتی کہ صرف حضوراکرم صلی اللہ علیہ و سلم  ہی ا ن کی بات سن سکیں ، اورانداز بھی ایساگویارازکی باتیں کی جارہی ہیں ۔(تفسیر انورالبیان ص۱۶۷) واقعہ یہ ہے کہ حضرات صحابہ ؓ کے دل میں رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم  کی جو عظمت تھی اوران کے عمل سے ادب و احترام کا جو اظہار ہوتاتھا،انسانی تاریخ میں کہیں اس کی کوئی مثال نہیں مل سکتی، اوراس بات کا اعتراف بہت پہلے رئیس مکہ عروہ بن مسعود ثقفی (جو بعد میں مسلمان ہو گئے، انہوں )نے کیا، جب انہوں نے صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرات صحابہؓ کے دلوں میں عظمت ِرسول صلی اللہ علیہ و سلم  کابے پناہ جذبہ دیکھا، تو اسے مکہ واپس جاکر اپنی قوم کے سامنے اس طرح بیان کیا:         ’’ أَيْ قَوْمِ ! لَقَدْ وَفَدْتُ عَلَی المُلُوْکِ، وَ وَفَدْتُ عَلیٰ قَیْصَرَ وَ کِسْریٰ وَ النَّجَاشِيِّ، وَالله ! إِنْ رَأَیْتُ مَلِکًا قَطُّ یُعَظِّمُہٗ أَصْحَابه مَا یُعَظِّمُ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ مُحَمَّدًا، وَالله ! إِنْ تَنَخَّمَ نُخَامة إِلاَّ وَقَعَتْ فِیْ کَفِّ رَجُلٍ مِّنهم، فَدَلَکَ بِها وَجْھَہٗ وَ جِلْدَہٗ، وَ إِذَا أَمَرَھُمْ ابْتَدَرُوْا أَمْرَہٗ، وَ إِذَا تَوَضَّأَ کَادُوْا یَقْتَتِلُوْنَ عَلٰی وَضُوْئِ ہٖ، وَ إِذَا تَکَلَّمَ خَفَضُوْا أَصْوَاتَھُمْ عِنْدَہٗ، وَ مَا یُحِدُّوْنَ إِلَیْہِ النَّظَرَ تَعْظِیْمًا لَہٗ۔‘‘(بخاری/ص:۳۷۹ / المجلد الأول/ باب الشروط فی الجھاد والمصالحۃ)    ترجمہ  :    اے لوگو!(اللہ کی قسم) میں بادشاہوں اورقیصر وکسری و نجاشی کے درباروں میں گیاہوں ؛ مگربخدا  !میں نے کبھی کہیں کسی بھی بادشاہ کو ایسانہیں دیکھا کہ اس کے درباری اس کی اتنی تعظیم کرتے ہوں جتنی کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم  کے صحابہ اُن کی کرتے ہیں ، حد یہ ہے کہ آپ کا تھوک بھی ان کے ہاتھ پر ہی گرتاہے، جسے وہ اپنے چہرے اور بدن پر مل لیاکرتے ہیں ، جب ان کو کوئی حکم دیتے ہیں تو وہ اس کو بجالانے میں جلدی کرتے ہیں ، جب آپ وضو کرتے ہیں تو آپ کے مستعمل پانی کو لینے میں ایک دوسرے پر سبقت کرتے ہیں ، جب آپ گفتگو فرماتے ہیں تو عظمت کے پیش نظر آپ کے سامنے اپنی آواز کو پست کرلیتے ہیں ، وہ آپ کی طرف تیز نظر سے دیکھتے تک نہیں ۔            غرض، حضرات صحابہؓ کے مقدس دلو ں میں رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم  کی بے پناہ عظمت تھی، اور جیسے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی حیاتِ مبارکہ میں حضرات صحابہؓ  آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کی توقیر و تعظیم کرتے تھے ایسے ہی ہمارے لیے آج بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی توقیر و تعظیم ضروری ہے۔
عظمت ِرسول صلی اللہ علیہ و سلم کا تقاضا : آج عظمت ِرسول صلی اللہ علیہ و سلم کا تقاضہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پہنچائے ہوئے تمام احکام  اور ارشاد فرمودہ کلام (جو صحیح اورمستند طریقوں سے ثابت ہواس) کی عظمت ہمارے سینوں میں ہو، اورجس طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کی موجودگی میں حکم تھا کہ {لاَ تَرْفَعُوْا أَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ}  آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کے سامنے اپنی آواز بلند نہ کرو، کہ یہ عظمت اورادب کے خلاف ہے، اسی طرح آج آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کے روضۂ اقدس کے پاس آواز بلند کرنا،حتٰی کہ بلند آواز سے صلوٰۃ وسلام پیش کرناعظمت و ادب کے خلاف ہے۔                        
      ؎  لے سانس بھی آہستہ کہ یہ دربار ہے نبی کا           ٭            خطرہ ہے بہت سخت یہاں بے ادبی کا 
نیز جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کلام فرماتے تھے تو اسے ادب و عظمت سے سننا واجب تھا، اسی طرح آج بھی جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کا کلام یعنی حدیث وغیرہ سنائی اور بیان کی جائے تو ادب و عظمت کے ساتھ اسے بھی سننا ضروری ہے، اس موقع پر شور و شغب کرنااور بلا کسی عذر کے چلے جانا خلافِ ادب بلکہ محرومی ہے۔   
الحمد للہ ! ہمارے علماء نے اس کا بہت اہتمام کیا،چنانچہ امام مالکؒ جیسے جلیل القدر محدث وفقیہ کاحال یہ تھا کہ جب حدیث کادرس دینا ہوتاتو غسل کر کے تشریف لاتے، اچھے کپڑے زیب تن فرماتے، عمدہ خوشبو لگاتے، اوربہت ہی وقار اوراحترام کے ساتھ حدیث کا درس دیتے۔ ایک مرتبہ دورانِ درسِ حدیث ایک بچھو کپڑے میں گھس گیا، بچھو نے پشت میں کئی ڈنک مارے، تکلیف کی شدت سے آپ کے چہرہ کارنگ متغیر ہوگیا؛ لیکن در سِ حدیث کاسلسلہ منقطع نہیں فرمایا، آپؒ نے اسے عظمت ِحدیث کے خلاف سمجھا، درس ختم ہونے کے بعد جب کرتہ کے اندر دیکھا تو بچھو  اور  اس کاڈنک نظر آیا۔(الدیباج ا     لمذہب /ص:۱۹، از :’’پیام سیرت‘‘  /ص:۲۵۹)        گویاان کے یہاں بچھو کے کاٹنے کی تکلیف تو معمولی چیز تھی؛ مگرکلامِ مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم  کی عظمت بڑی اہم بات تھی۔
ایک نصیحت آموز واقعہ  : اسی طرح جمعیت علمائِ ہند کے صدر اور متحدہ ہندوستان کے مفتی ٔ اعظم حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحبؒ  کا ایک بڑا نصیحت آموز واقعہ ہے کہ آپؒ جامعہ امینیہ دہلی میں دورۂ حدیث شریف پڑھاتے تھے، وہاں ایک سال دورہ میں مولوی عبدالحق نامی طالب علم نے ایک خواب دیکھا، درسِ حدیث کی مسند پر مفتی صاحب کی جگہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم تشریف فرما ہیں ، ریش مبارک سفید ہے اور مسلم شریف کی ایک حدیث پر محدثانہ کلام فرما رہے ہیں ، صبح طالب علم نے اجازت لے کر حضرت سے جب خواب بیان کیا تو سنتے ہی مفتی صاحب اپنی مسند سے کھڑے ہو گئے اور فرمایا: مولوی عبدالحق! قبلہ رُخ کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر کہو کہ واقعی تم نے اس طرح خواب دیکھا ہے، جب انہوں نے حکم کے مطابق کیا تو فوراً مفتی صاحب مسند سے ہٹ کر سامنے بیٹھ گئے اور فرمایا: ’’مولوی عبدالحق! خواب تو سچا ہے، مگر تمہارا ایمان کمزور ہے، لہٰذا اس کی فکر کرو، کیوں کہ تم نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی داڑھی سفید دیکھی ہے، حالاں کہ وہ سیاہ تھی۔‘‘ اس کے بعد مفتی صاحبؒ ادب اور عظمت کی وجہ سے اس مسند پر نہ بیٹھے، معاملہ اگرچہ خواب کا تھا، لیکن بات ادب و عظمت کے اعلیٰ مقام کی تھی۔ (کرنیں : ۷۹)    
صاحبو! حضور صلی اللہ علیہ و سلم  کی یہ تعظیم بھی تقویٰ کی اہم علامت ہے، کیوں کہ قرآنِ کریم میں شعائر اللہ کی تعظیم کو دل کے تقویٰ کی علامت قراردیاگیا، چنانچہ فرمایا:{وَمَنْ یُعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللّٰہِ فَإِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ} (الحج : ۳۲) اللہ تعالیٰ کے شعائر کی تعظیم دل کے تقویٰ کی نشانی ہے۔ اب یہ شعائر اللہ کیا ہیں ؟ تو اس سلسلہ میں مختلف اقوال منقول ہیں ، اتنی بات ضرور ہے کہ ہر وہ چیز جو ہدایت و عبادت کاذریعہ ہے وہ  شعائر اللہ میں داخل ہے، منجملہ ان کے چارچیزیں نہایت اہم ہیں ۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ حجۃ اللہ البالغہ میں فرماتے ہیں چار چیزیں اعظم شعائر اللہ سے ہیں یعنی اللہ کے شعائر میں چار چیزو ں کو خاص اہمیت حاصل ہے:            ۱-کلام اللہ۲-حضرت محمد رسول اللہ ۳-کعبۃاللہ۴-نماز۔ان کی تعظیم وہی کرے گا جس کا دل تقویٰ سے مالا مال ہوگا۔(گلدستۂ تفاسیر / ج:۶/ ص:۵۵۲)      معلوم ہواکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم  کی عظمت دل کے تقویٰ کی زبردست علامت ہے، اگر پہلے حق کی ادائیگی کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوسکتا، تو اس حق کی ادائیگی کے بغیرتقویٰ مکمل نہیں ہوسکتا۔
تیسرا حق محبت  :اس کے بعد امت محمدیہ (علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) پرحقوقِ مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم  میں سے تیسرا اہم حق  یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم  سے ایسی محبت کی جائے جو اپنی ذات، اہل و عیال، مال و منال اور سب سے بڑھ کر ہو، قرآن پاک میں اس حق کو اس طرح بیان فرمایا :   { قُلْ إِنْ کَانَ اٰبَاؤُکُمْ وأَبْنَاؤُکُمْ وإِخْوَانُکُمْ وأَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوْہَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَہَا أَحَبَّ إِلَیْکُمْ مِنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ وَجِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِہِ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَأْتِيَ اللّٰہُ بِأَمْرِہِ وَاللّٰہُ لَا یَہْدِیْ الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ} (التوبۃ:۲۴)   میرے محبوب! اپنی امت کو بتلادیجیے کہ تمہارے دل میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم  سے زیادہ محبت کسی اورکی نہیں ہونی چاہیے۔ امام قرطبیؒ فرماتے ہیں کہ ’’یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت کی فرضیت پر دلالت کرتی ہے،‘‘  اور فرمایا: ’’یہ محبت ہر عزیزاور پیاری چیز کی محبت پر مقدم ہے ۔‘‘(تفسیر قرطبی/ ج:۸/ص:۹۵،از:’’نبی الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم  سے محبت اور اس کی علامتیں ‘‘  ص:۲۲) اس لیے کہ محبت کے چاروں اسباب جمال، کمال، اتصال اور نوال کامل اورمکمل طور پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذاتِ اقدس میں موجود تھے، لہٰذا اس کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بعد سب سے زیادہ محبت آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے کی جائے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم  سے ایسی محبت کی جائے جیسے حضرات صحابہؓ نے کر کے دکھلائی۔ واقعہ یہ ہے کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم  سے شرعی، طبعی، عقلی، اختیاری اور غیر اختیاری غرض ہر طرح سے سب سے زیادہ اور سب سے سچی محبت رکھنے والے بلا مبالغہ حضراتِ صحابہؓ  ہی تھے،ان کی محبت میں فدائیت اورفنائیت تھی، اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم  سے زیادہ انہیں کوئی محبوب نہ تھا، شاعر کہتاہے:آپ  کی جس میں ہو نہ محبت دل ہے وہ ایمان سے خالیحبِ نبی ہے سب سے مقدم صلی اللّٰہ علیہ و سلم        حضراتِ صحابہ ؓ کے مقدس قلوب حضوراقدس  صلی اللہ علیہ و سلم  کی محبت سے کس قدر لبریز تھے اس کا اندازہ ان کی سیرت سے لگایاجاسکتاہے، ان کے حالات میں عجیب واقعات ملتے ہیں ۔
محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کے محبین کا حسین تذکرہ  : اگر اس موقعہ پر محمد عربی   صلی اللہ علیہ و سلم  کے محبین کا بطورِ نمونہ حسین تذکرہ کیا جائے تو سر فہرست سیدنا صدیق اکبرؓ  کانام نمایاں ہوگا، ابتدائِ اسلام کا ایک مثالی واقعہ یہ ہے کہ آپؓ  کو دین حق کے خاطر ظلم و ستم کا نشانہ بنایاگیا، آپؓ کے چہرے پر پھٹے ہوئے جوتوں سے مسلسل ضربیں لگائی گئیں اورسینہ پر سوار ہو کر اس قدر ماراگیاکہ چہرے کے اعضاء اورخد وخال کی تمیز مشکل ہوگئی، قبیلہ کے لوگ آپؓ  کو اس حال میں ایک کپڑے میں ڈال کر گھر لائے،   بے ہوشی طاری تھی، موت کااندیشہ تھا، مگر شام کے وقت جب انہیں ہوش آیا، تو اپنی فکرنہ کی، سب سے پہلے یہی پوچھا: ’’میرے محبوب صلی اللہ علیہ و سلم کاکیاحال ہے؟ ‘‘جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کی خیریت کی خبر سنائی گئی تب بھی اطمینان نہ ہوا، کہا: ’’ فَإِنَّ لِله عَلَيَّ أَنْ لاَ أَذُوْقَ طَعَامًا، وَ لاَ أَشْرَبَ شَرَابًا، أَوْ آتِيَ رَسُوْلَ الله ﷺ۔‘‘ (البداية و النهاية/ج:۲/ص:۲۹۰) اللہ کی قسم! میں اس وقت تک کھانے پانی کو ہاتھ نہ لگاؤں گا جب تک حضوراکرم صلی اللہ علیہ و سلم  کے دیدار سے اپنی آنکھوں کو روشن نہ کرلوں ۔     ایسے ہی محبین میں حضرت عبداللہ بن عبداللہ بن ابیؓ بھی تھے، آپؓ تونہایت مخلص صحابی تھے؛ مگر آپؓ  کا والد منافق تھا، اور آپؓ پر اپنے والد کامنافق ہونا بھی ظاہر ہوگیاتھا، ایک مرتبہ مدینہ طیبہ میں یہ افواہ پھیلی کہ حضورِاکرم صلی اللہ علیہ و سلم  عبداللہ بن ابی کے نفاق کی وجہ سے اس کے قتل کاحکم دینے والے ہیں ،یہ سن کر حضرت عبداللہ ؓ خود حاضر خدمت ہوئے اورعرض کیاکہ ’’حضور ! سننے میں آیا ہے کہ آپ میرے والد کے قتل کا حکم دینے والے ہیں ، اگرآپ کا یہ منشا ہو تو میں خود اپنے والد کا سر قلم کر کے ابھی خدمت اقدس میں پیش کرتاہوں ۔‘‘اسی طرح اس سلسلہ میں اس خاتون کاحیرت انگیز واقعہ بھی قابل ذکر ہے جس کو غزوۂ اُحد کے موقع پر باپ، بھائی اورپھرشوہر کی شہادت کی خبر دی جاتی رہی؛ مگر وہ ان سب کو نظر انداز کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  کی خیریت پوچھتی رہیں ، بالآخر جب انہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خیریت سنائی گئی، تو اب زیارت کے لیے بے چین ہوگئیں ، پھر زیارت کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کو سلامت پایا،توکہنے لگیں :
’’کُلُّ مُصِیْبة بَعْدَکَ جَلَلٌ۔‘‘(البدایۃ والنہایۃ/ج:۳/ص:۱۸۹)    میرے محبوب ! آپ کے سلامت ہوتے ہوئے ہر مصیبت ہیچ ہے،     یقینا ان حضرات صحابہؓ کے نزدیک اپنی ذات سے، باپ سے اور اہل و عیال سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم  محبوب تھے،  ہمیں حضور صلی اللہ علیہ و سلم  سے محبت کاطریقہ و سلیقہ حضرات صحابہ ؓ سے ہی سیکھنا چاہیے، پھر انہوں نے محبت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کے مرتبہ ومقام کا بھی لحاظ رکھا، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کی پسندو ناپسند کا بھی، لہٰذا ان د ونوں پہلوؤں کالحاظ رکھنا ہمارے لیے بھی ضروری ہے، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ حضورِاکرم صلی اللہ علیہ و سلم  ہماری محبت کے ہرگزمحتاج نہیں ، ہم گنہگار آپ صلی اللہ علیہ و سلم  سے محبت کریں یانہ کریں ، اس سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کی عظمت و رفعت میں کوئی فرق آنے والا نہیں ، کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم  تو حبیب اللہ ہیں ، اوراسی پر بس نہیں ؛ بلکہ اللہ تعالیٰ نے توآپ صلی اللہ علیہ و سلم  کے سچے محبوب کو اپنا محبوب بنانے کا فیصلہ فرمالیاہے:  { قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ} (آل عمران : ۳۱) اے میرے محبوب! آپ فرمادیجیے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہو تو میرا اتباع کرو، اللہ تعالیٰ تمہیں بھی اپنا محبوب بنا لیں گے۔‘‘   اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو تو ہماری محبت کی ضرورت نہیں ؛ البتہ ہمیں حصولِ ثمرات اور دارین کی نجات کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم  سے محبت کی بہت ہی زیادہ ضرورت ہے۔
حب ِنبوی کے ثمرات و فوائد  : چنانچہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ و سلم  کی محبت کے ثمرات و فوائد میں سے ایک اہم ثمرہ وفائدہ دنیامیں ایمان کی حلاوت ہے، اوردوسرے آخرت میں حضورِاکرم صلی اللہ علیہ و سلم  کی معیت ہے، حدیث ِپاک میں ہے :
 عَنْ أَنَسٍؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ الله : ’’ ثَلاَثٌ مَنْ کُنَّ فِیه وجَدَ بِهنَّ حَلَاوَۃ الإِیْمَانِ، مَن کَانَ الله وَرَسُوْلُہٗ أَحَبَّ إِلَیه مِمَّا سِوا َهما، وَمَنْ أَحَبَّ عَبْداً لاَ یُحِبه إِلاَّ لِله، وَمَنْ یَّکْره أَنْ یَعُوْدَ فِیْ الْکُفْرِ بَعْدَ أَنْ أَنْقَذَہٗ الله مِنه، کَما یَکْره أَنْ یُّلْقٰی فِیْ النَّارِ۔‘‘ (متفق علیہ، مشکوٰۃ / ص: ۱۲)         
ایمان کی حلاوت اورمٹھاس اس خوش نصیب نے حاصل کرلی جس میں تین خصلتیں موجود ہوں :
۱-        اوّل یہ کہ اس کے دل میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم  کی محبت سب سے زیادہ ہو۔           
۲-      دوم یہ کہ جس کسی سے بھی محبت کرے صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی غرض سے محبت کرے۔    
۳-       سوم یہ کہ جس خوش نصیب کو اللہ تعالیٰ نے کفر کے اندھیرے سے بچا کر نورِ ایمانی سے منور فرمایا وہ اسلام چھوڑنے کو اسی طرح ناپسند کرے جس طرح آگ میں ڈالے جانے کوناپسند کرتا ہے۔
یہاں ایمان کی حلاوت کے حصول کے جو اسباب بیان فرمائے ان میں پہلا ہی سبب اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم  کی سچی محبت ہے، اس محبت کے نتیجہ میں عبادات و اعمال میں ایک طرح کی حلاوت نصیب ہوگی، حتیٰ کہ پھر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی رضا مندی کے خاطر ہر طرح کی مشقتیں برداشت کرنابھی آسان ہوجائے گا۔آج اگرہمیں عبادات و اعمال میں مزہ نہیں آتا تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم  سے ہماری محبت میں کچھ خامی ہے، اسی لیے کہا ہے  :محمد کی محبت دین حق کی شرطِ اول ہے اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہےجو لوگ محمد کے وفادار نہیں ہیں  اللہ کی رحمت کے وہ حق دارنہیں ہیں حاصل ہے جنہیں عشق محمد کا خزانہ کونین کی دولت کے وہ طلبگار نہیں ہیں      حب ِنبوی کادوسرااہم ثمرہ اورفائدہ آخرت میں یہ ہوگاکہ اس کے نتیجہ میں رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم  کی معیت نصیب ہوگی۔ حدیث ِپاک میں واردہے کہ ایک صحابی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے : ’’یارسول اللہ ! قیامت کب آنے والی ہے؟‘‘  آپ نے فرمایا: ’’تم نے اس کے لیے کیا تیاری کی ہے؟‘‘  عرض کیا :’’إِنِّیْ أُحِبُّ الله وَ رَسُوْله ۔‘‘میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم  سے محبت رکھتا ہوں ، اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :’’انْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ۔‘‘ (متفق علیه، مشکوٰۃ/ص:۴۲۶/ باب الحب فی الله ومن الله) جس کی محبت تمہارے دل میں ہے تمہیں قیامت میں اس کی معیت ملے گی۔         پتہ چلا کہ دل میں اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت ہے توکل قیامت میں ان ہی کی معیت نصیب ہوگی، اور ظاہر ہے کہ اس سے بڑی دولت اورکیاہوسکتی ہے۔ (رزقنا الله تعالیٰ إیاہ)           لیکن یادرکھو کہ حب رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی سب سے بڑی علامت آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کا اتباع و اطاعت ہے، اس کے بغیر محبت دراصل منافقت ہےنہ کر دعویٰ محبت کا، اطاعت گرنہیں تجھ میں سند تیری محبت کی، یہی معلوم ہوتی ہے.
چوتھا حق اطاعت  :اسی لیے علماء نے فرمایا کہ امت محمدیہ پر حقوقِ مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم  میں سے چوتھا حق آپ کی اطاعت و اتباع کرناہے،  یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دیے ہوئے تمام احکام کو قبول کرنا اوران کے مطابق زندگی کے ہرشعبہ میں عمل کرنا،اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کے نقش قدم پر چلنا، اس حق کو بھی قرآنِ کریم میں کئی مواقع پر بیان کیاگیا، ایک مقام پر فرمایا        
{وَ مَا اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ ق وَ مَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا} (الحشر : ۷)اس آیت کریمہ میں اسی حق کوبیان کیا گیاہے،اب یہاں اطاعت و اتباع کافرق بھی سمجھ لیناچاہیے، کہ اطاعت کامطلب ہے دیے ہوئے حکم کی تعمیل کرنا، مگر اتباع کا مطلب پیروی کرنا، خواہ اس کام کا باقاعدہ حکم دیاگیاہو یانہ دیاگیاہو۔اس لیے عاجز کا خیالِ ناقص یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کی اطاعت محبت کی علامت ہے، تواتباع انتہائی محبت یعنی عشق کی علامت ہے،اس کے بغیر محبت کادعویٰ محض دکھلاوا بلکہ منافقت ہے، وہی محبت معتبر ہے جس کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کی کامل اطاعت اور مکمل اتباع بھی ہو، اورحضور  پاک صلی اللہ علیہ و سلم  سے ایسی محبت جو اطاعت و اتباع کے ساتھ ہو اس کا ایک بہت بڑافائدہ تویہ ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی محبت نصیب ہوتی ہے، دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ گناہوں کی معافی اورمغفرت ملتی ہے، اورتیسرا عظیم فائدہ یہ ہے کہ یہ اطاعت حصولِ جنت کا سبب ہے، قرآنِ پاک میں فرمایا:
{ قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَحِیْمٌ} (آل عمران:۳۱) محبوبم! کہہ دیجیے! کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو اوراس کی محبت حاصل کرناچاہتے ہو تویہ بہت بڑی بات ہے جو تمہارے بس میں نہیں ؛ البتہ اگر تم میری اطاعت اوراتباع کرلو، تو اس کے نتیجہ میں خود رب العالمین تم سے محبت کرنے لگے گا،پھر تمہارے گناہوں کو بھی معاف کردے گا، کہ وہ بڑاہی غفورو رحیم ہے۔       
آیت کریمہ میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ و سلم  کے اتباع پر دو عظیم فوائد یعنی اللہ تعالیٰ کی محبت اورگناہوں کی مغفرت بیان فرمائے گئے۔ دوسرے مقام پر حضوراکرم صلی اللہ علیہ و سلم  کی اطاعت پر جنت کی بشارت آئی ہے۔جس کی تفصیل روایتوں میں اس طرح ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم  کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبانؓ  کو بھی دیگر صحابہؓ کی طرح حضور صلی اللہ علیہ و سلم  سے بہت ہی زیادہ محبت تھی، ایک مرتبہ خدمت اقدس میں حاضرہو کر عرض کرنے لگے :’’یارسول اللہ ! آپ مجھے میری جان اور اہل و عیال سے بھی بہت ہی زیادہ عزیز ہیں ، سچی بات یہ ہے کہ گھر بیٹھے جب آپ کی یاد آتی ہے تومجھے اس وقت تک چین نہیں آتا جب تک حاضر خدمت ہو کر دیدار سے مشرف نہ ہوجاؤں ، لیکن جب میں اپنی اورآپ کی موت کا تصور کرتاہوں تواس خیال سے فکر مند ہوجاتاہوں کہ آپ تو جنت کے سب سے ا علیٰ مقام پر ہوں گے، اور مجھے اپنے بارے میں کچھ معلوم نہیں ، پھر اگرجنت میں اللہ کے فضل سے داخل کربھی دیاگیا، تو آپ کے اورمیرے مقام میں بہت فرق ہوگا، لہٰذا وہاں آپ کادیدار نہ ہوسکے گا، اورجس جنت میں آپ کی زیارت نہ ہو، وہ جنت بھی کس کام کی!‘‘  اس موقع پر یہ آیت کریمہ لے کر حضرت جبرئیل امین علیہ السلام تشریف لائے: { وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓـئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ أَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَآئِ وَالصّٰلِحِیْنَ} (النساء : ۶۹) اس آیت میں اطاعت کرنے والو ں کے لیے جنت کی بشارت آئی ہے۔  (معالم التنزیل:۱/۴۵۰ ، از : تفسیر انوارالبیان :۱/۶۴۷)    
مذکورہ حدیث میں بھی اسی کی وضاحت ہے، فرمایا: ’’کُلُّ أُمَّتِیْ یَدْخُلُوْنَ الجَنة إِلاَّ مَنْ أَبٰی‘‘ میری تمام امت (اجابت) جنت میں داخل ہوگی؛ مگر وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوگاجس نے انکار کیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال کیاگیاکہ وہ کون آدمی ہے جس نے انکار کیا؟ فرمایا :’’مَنْ أَطَاعَنِیْ دَخَلَ الجَنة‘‘ جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگا،اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے دراصل میراانکار کیا۔معلوم ہواکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت و اتباع اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم  سے محبت، مغفرت، اوردخولِ جنت کاذریعہ ہے، اور اِن چیزوں کا حصول آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کے حقوق کو اداکیے بغیر ممکن نہیں ، اس لیے دارین کی سرخروئی حاصل کرنے کے لیے حقوقِ مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کو مکمل طور پر اداکرنا لازم اورضروری ہے۔اللہ تعالیٰ توفیق مرحمت فرمائیں ۔ آمین یا رب العالمین

( اَللهم صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ کُلَّمَا ذَکَرَهُ الذَّاکِرُوْنَ، وَ کُلَّمَا غَفَلَ عَنْ ذِکْرِہ الْغَافِلُوْنَ)          
بحوالہ گلدستہ حدیث   بتغیر یسیر :  اکبر حسین اورکزئی 
                                                            ٭…٭…٭