اتوار، 7 جنوری، 2018

حسن اخلاق


عَنْ عَبْدِ الله بْنِ عَمْرٍوؓ قاَلَ : قاَلَ رَسُوْلُ الله : ’’إِنَّ مِنْ خِیاَرِکُمْ أَحْسَنَکُمْ أَخْلاَقاً۔‘‘ (متفق علیہ، مشکوٰۃ / ص: ۴۳۱/ باب الرفق و الحیاء وحسن الخلق/ الفصل الأول).
ترجمہ  :   حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رحمتِ عالم   صلی اللہ علیہ و سلم  نے ارشاد فرمایا: ’’بلا شبہ تم میں سب سے بہترین اشخاص میں سے  وہ ہے جو تم میں اخلاق کے اعتبار سے اچھا ہو‘‘۔

حسنِ اخلاق کی ترغیب و تلقین   :  حسنِ اخلاق دین اسلام کی جامع تعلیمات اور نافع ہدایات کا خلاصہ و لب لباب ہے،اور کمالِ ایمانی کا لازمی نتیجہ و ثمرہ ہے، یہ وہ وصف ہے کہ اگر وہ اخلاص و ایمان کے ساتھ ہو تو اس سے متصف ایک مسلمان ہی نہیں بلکہ ہر انسان اپنے خالق کی خوشنودی اور مخلوق میں ہر دل عزیزی،بلکہ دونوں جہاں کی دائمی کامیابی حاصل کر سکتا ہے،یہی وجہ ہے کہ قرآن و حدیث میں جابجا ایمان و اعمال کے بعد اخلاق کی ترغیب اورتلقین و تاکید آئی ہے، ایک مقام پر فرمایا: { قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی} (الأعلیٰ :۱۴) کامیاب اور بامرا د ہو گیا وہ شخص جس نے اپنا تزکیہ کر لیا۔ اپنے اخلاق درست کر لیے، یعنی جو حسن اخلاق سے متصف ہو گیا ۔اور حدیث مذکور میں گویا اس مضمون کو یوں بیان فرمایا: ’’إِنَّ مِنْ خِیَا رِ کُمْ أَحْسَنَکُمْ أَخْلاَقاً‘‘بلا شبہ تم میں سب سے بہترین شخصوں میں سے  خالق ومخلوق کے نزدیک (دارین میں) وہی ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں، جو حسن اخلاق سے متصف ہو ۔ اس لیے اخلاق کی ترغیب دیتے ہوئے قرآن نے ایک اور مقام پر فرمایا: { وَلاَتَنْسَوُا الْفَضْلَ بَیْنَـکُمْ} ( البقرۃ:۲۳۷)تم آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ احسان اوراخلاق کامعاملہ کرو، اس اخلاقی درس کو ہرگز نہ بھولو،ہر جگہ اورہروقت اسے یاد رکھو۔گویا اسی مضمون کو ایک  حدیث میں اس طرح بیان فرمایا:          
عَنْ أَبِیْ ذَرٍّ رَضِيَ الله عَنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ الله: ’’اِتَّقِ الله حَیْثُ مَا کُنْتَ، وَأَتْبِعِ السَّیِّئة الْحَسَنة، تَمْحها، وَخَالِقِ النَّاسَ بِخُلُقٍ حَسَنٍ۔‘‘(ترمذی/مشکوٰۃ/ص:۴۳۲)     
حضرت ابو ذر رضی اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  ﷺ نے فرمایا  اللہ سے ڈرو جہاں کہیں بھی ہو، درائی کے پیچھے نیکی کرو  ہ اسے میٹادیگی ، لوگوں کے ساتھ بہترین اخلاق سے پیش اؤ ۔ ترمذی 
عاجز کے خیالِ ناقص میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا حق بھی یہی ہے جس کا حکم دیا گیا، فرمایا:
{ یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ}  (آل عمران : ۱۰۲)                                                                                            
          اے ایمان والو  !  (دل میں) اللہ کا ایسا ہی خوف رکھو جیسا خوف  اس کا حق ہے۔ 
مطلب یہ ہے کہ تمہارا اللہ سے ڈرنا کسی خاص وقت، خاص جگہ اور خاص حالت پر موقوف نہ ہو،بلکہ سفرو حضر، خوشی وغمی،
خلوت اور جلوت ہر حال میں اللہ تعالیٰ ہی سے ڈرو،  تب ہی گناہ سے بچنا اور نیکی کرنا آسان ہوگا، پھر بھی اگر کوئی گناہ اوربرائی ہو جا ئے تو حدیث میں  دوسرا حکم یہ ہے کہ گناہ اور بدی کے بعد نیکی کا اہتمام کرلو، ان شاء اللہ یہ نیکی اس بدی کا کفارہ بن جائے گی، ارشادِ باری ہے: { إِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّئَاتِ} (ہود:۱۱۴)     یقیناً نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ 
لہٰذا کبھی گناہ ہو جائے تو فوراً توبہ، صدقہ اور نیکی کا اہتمام کرو۔         
اسی کے ساتھ حدیث میں تیسرا حکم یہ ہے کہ لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق کا برتاؤ کرو۔قرآنِ پاک نے اسے یوں فرمایا :          
{ خُذِ الْعَفْوَ وَ اْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ أَعْرِضْ عَنِ الْجٰھِلِیْنَ} ( الأعراف : ۱۹۹)  درگذر کا رویہ اپناؤ اور (لوگوں کو) نیکی کا حکم کرو، اور جاہلوں کی طرف دھیان نہ دو۔معلوم ہواکہ تقویٰ اور طاعات وحسنات کے ذریعہ گناہو ں کی تطہیرکے بعد بھی کامیابی او ررضائے الٰہی کے لیے حسن اخلاق کا معاملہ کرنے کی ضرورت ہے، اس سے بھی حسن اخلاق کی اہمیت ثاہت ہوئی۔
اخلاق کی حقیقت  : اب سوال یہ ہے کہ حسن اخلاق کی حقیقت کیاہے؟ تو اس سلسلہ میں علماء نے فرمایا کہ اخلاقِ مصطفوی کا نام حسن اخلاق ہے، دوسرے لفظوںمیں قرآن و حدیث میںجن بھلائیوں کاحکم دیاگیا ہے انہیں اختیار کرنااور جن برائیوں سے منع کیاگیا ہے ان سے اجتناب کرنے کا نام حسن اخلاق ہے، اور حضرت عبداللہ بن مبارکؒ نے کتاب و سنت کی روشنی میں حسن اخلاق کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:      ’’ بَسْطُ اَلْوَجه، وَبَذْلُ المَعْرُوْفِ، وَکَفُّ الأَذٰی۔‘‘ (مفتاح الأسرار شرحِ مشکوٰۃ الاٰثار/ص:۲۱۳)
یعنی تین چیزوں کا نام اخلاق ہے:        
(۱)       ملاقات کے وقت دوست ہویا دشمن، اپنا ہو یا پرایا، ہر ایک سے (بشرطیکہ محرم ہو) کشادہ روئی،خندہ پیشانی اور خوش دلی سے پیش آنا ۔      
(۲)      بخشش اور سخاوت کرنا،مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا مال، وقت، صلاحیت اور علم وغیرہ بندگانِ خدا کے نفع اور ضرورت وہدایت کے لیے اپنی بساط کی حد تک خرچ کرنا، سب جانتے ہیں کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتاہے،اسی طرح انسان اپنے اخلاق سے اچھا برا جانا جاتا ہے۔ پھر جس درخت کا پھل عمدہ او راچھا ہوتاہے اس نفع بخش درخت کو پسند کیاجاتاہے،بلکہ اس کی حفاظت کی جاتی ہے اسی طرح جس انسان کے اخلاق عمدہ اور اچھے ہوتے ہیں اسے بھی پسند کیاجاتاہے اور اس کی بھی حفاظت کی جاتی ہے، ارشاد ہے:          {وَأَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِیْ الأَرْضِ} (الرعد : ۱۷)   یعنی جو شخص انسانیت کے لیے اپنے ایمان، اعمال اور اخلاق کے اعتبار سے نفع بخش ہوتاہے اسے زمین میں جماؤ دیتے ہیں۔ پھردنیا سے جانے کے بعد بھی اس کا ذکر خیر زندہ رہتاہے۔غرض حسن اخلاق کی حقیقت یہی ہے کہ آدمی ہر اعتبار سے نفع بخش بنے اوراپنی ذات سے بلا کسی وجہ کے کسی کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچائے۔
 (۳)     ایذا رسانی سے باز رہے ۔      حضرت حکیم الامت تھانویؒ فرماتے ہیں: ’’ہم نے اخلاق کا نام چاپلوسی، خوشامد اور میٹھی باتیں کرنا سمجھ لیاہے،خواہ دل میں کچھ ہو،اس طرح  حقیقت میں اخلاق کو نفاق سے بدل دیا ہے، و رنہ اخلاق کی حقیقت یہ ہے کہ ہم سے کسی کو کسی قسم کی ایذا ظاہری یاباطنی، حضور یاغیبت میں نہ پہنچے، حتیٰ کہ ہمارے بعض اکابرکے یہاں خلافت کا اصل معیار ہی بے ضرر ہوناتھا‘‘۔            ظاہر ہے کہ یہ تین چیزیں بھی ان اخلاق اور اوصاف میں سے ہیں کہ اگر کوئی شخص  غلط اغراض سے بے لوث ہو، اورایمان و اخلاص کے ساتھ ان اخلاق سے بھی متصف ہوتووہ   خالق ومخلوق میں محبوبیت اورمقبولیت حاصل کر لیتا ہے،اور پھر دونوں جہاں کی کامیابی حاصل کر لیتاہے ۔ایک شعر ہے  :حسن اخلاق  ملک  خدا  کا  تاج ہےہے جس کے سر پہ، ہر جگہ اس کا راج ہے صاحبو! تلوار،ٹینک،توپ اور طاقت کے زور سے تو صرف میدان اور ملک جیتے جاتے ہیں،لیکن اخلاق اور کردار کے زور سے دل جیتے جاتے ہیں، بلا شبہ تلوار بھی مردِ مومن کا زیورِ نا گزیر ہے، مگر جو بات کردار میں ہے وہ تلوار میں کہاں ؟اخلاق میں جو قوت ہے وہ کسی اسلحہ میں کہاں ؟تاریخ کی شہادت ہے کہ از آدمؑ تا ایں دم جو چیز دشمنوں کے لیے شمشیر بے نیام سے زیادہ مؤثر ثابت ہو ئی اور جس نے سالوں کی عداوتوں کو محبتوں سے بدل دیا وہ حسن اخلاق ہی ہے۔ ایک اورشعر ہے   :
حسنِ اخلاق سے ہو جاتاہے ہر کو ئی خلیق  **** حسنِ اخلاق سے ہو جاتاہے بیگانہ بھی خلیل
حسنِ اخلاق کے  حیرت انگیز واقعات  :   اس سلسلہ میں خیر القرون میں حضراتِ صحابہؓ کے علاوہ صلحاء اور ماضی قریب کے اکابر کے بھی  بہت سے حیرت انگیز واقعات ہیں، مثلاً: 
۱-        حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ فرماتے ہیں کہ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی    ؒ جب آخری حج سے تشریف لارہے تھے تو ہم لوگ اسٹیشن پر شرفِ زیارت کے لیے گئے،اس وقت حضرت کے متوسلین میں سے ایک شخص محمد عارف جھنگ سے دیوبند تک ساتھ گئے،ان کا بیان ہے کہ ٹرین میں ایک ہندو جنٹلمین بھی تھا، جس کو قضائِ حاجت کے لیے جانا تھا،لیکن جا کر الٹے پاؤں بادلِ ناخواستہ واپس آیا،حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ سمجھ گئے، فورا ً لوٹا لے کر پاخانہ گئے،اور اچھی طرح اسے صاف کر کے واپس آگئے،پھر اس ہندو دوست سے فرمانے لگے:’’آپ قضائِ حاجت کے لیے جانا چاہتے تھے تو جائیے!بیت الخلاء بالکل صاف ہے ‘‘ قصہ مختصر وہ اٹھا اور جاکر دیکھا تو پاخانہ بالکل صاف تھا،بہت متأثر ہوااور قضائِ حاجت کے بعد بھر پور عقیدت سے عرض کرنے لگا: ’’یہ حضور کی بندہ نوازی ہے، جو سمجھ سے باہر ہے ‘‘ اس واقعہ کو دیکھ کر ٹرین میں سوار خواجہ نظام الدین تونسوی مرحوم نے ایک ساتھی سے پوچھاکہ ’’یہ کھدر پوش کون ہے؟‘‘ جواب ملاکہ ’’یہ مولانا حسین احمد مدنی ہیں‘‘ تو خوا جہ صاحب فوراً حضرت مدنی     ؒسے لپٹ گئے اور رونے لگے، حضرت مدنی    ؒ نے پوچھا کہ ’’کیا بات ہے؟‘‘  تو کہا:’’سیاسی اختلاف کی وجہ سے میں نے آپ کے خلاف فتوے دیے اور برابھلا کہا،آج آپ کے اعلیٰ کرداراور اخلاق کو دیکھ کر تائب نہ ہوتا تو شاید مر کرسیدھا جہنم میں جاتا۔‘‘ اس پر حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:’’میرے بھائی!میں نے تو حضور   صلی اللہ علیہ و سلم  کی سنت پر عمل کیا ہے،اور وہ سنت یہ ہے کہ حضور  صلی اللہ علیہ و سلم  کے یہاںایک یہودی مہمان نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کے بستر مبارک پر رات کھا کر پاخانہ کر دیااور صبح اٹھ کر جلدی چلا گیا،اور اپنی تلوار وہیں بھول گیا،جب اپنی بھولی ہوئی تلوار لینے آیا تو کیا دیکھتا ہے کہ حضور  صلی اللہ علیہ و سلم  بنفس نفیس اپنے دستِ مبارک سے بستر دھو رہے ہیں، حضور  صلی اللہ علیہ و سلم  کے اِن  اعلیٰ اخلاق کو دیکھ کر وہ یہودی مسلمان ہو گیا۔‘‘            (ماہنامہ الرشید،مدنی و اقبال نمبر :ص/۱۷۲/ ازکتابوں کی درسگاہ میں :ص: ۱۳۷)        
علماء کہتے ہیں ، کہ حسنِ اخلاق دعوتی میدان میں نہایت ہی مؤثر پیغام رکھتا ہے، اس کی حیثیت ایک سائلینٹ میسیج (خاموش پیغام) کی ہے،آج ہم مسلمان اسلام کی تعلیم و تاکید کے مطابق حسنِ اخلاق اختیار کر لیں تو یقینا غیر مسلم ہمارے اخلاق کو دیکھ کر اسلام قبول کر لیں،اس لیے کہ جو قوم ہر کنکر کو شنکر مان کر اس کے سامنے جھکتی ہے وہ حسنِ اخلاق کے سامنے کیوںنہ جھکے گی ؟وہ حسنِ اخلاق سے کیسے متأثر نہ ہوگی ؟لہٰذا  ضرورت ہے ایمان کے بعد اخلاص کے ساتھ اخلاق سے پیش آنے کی، عاجزنے ذرا سی ترمیم کرتے ہوئے کہا ہے:خلقِ نبی کا اب تو نمونہ دکھایئےاغیار کو بھی اخلاص سے گلے  لگایئے  .         
۲-حضرت شاہ عطاء اللہ بخاری ؒ ایک مرتبہ خیر المدارس جالندھر کے جلسے میں تشریف لے گئے،کھانے کے وقت جب دستر خوان پر بیٹھے تو ایک نوجوان بھنگی کو دیکھا، شاہ جی نے فرمایا: ’’آؤ بھائی! کھانا کھالو ‘‘اس نے عرض کیا:’’جی! میں تو بھنگی ہوں‘‘ شاہ جی نے درد بھرے لہجہ میں فرمایا: ’’تو کیا ہوا؟انسان تو ہو،اور بھوک تو لگتی ہے ‘‘یہ کہہ کر خود اٹھے اور اس کے ہا تھ دھلا کر ساتھ بٹھا لیا،وہ بیچارہ تھر تھر کانپتا تھا،اور کہتا تھا کہ ’’جی میں تو بھنگی ہوں ‘‘تو شاہ جی نے خود ہی لقمہ توڑا اور شوربے میں بھگو کر اس کے منہ میں دے دیا،اس کا کچھ حجاب دور ہوا، تو شاہ جی ؒنے ایک آلو اس کے منہ میں ڈالا اس نے آدھا آلو دانتوں سے کاٹ لیا تو باقی آدھا حضرت نے خود کھالیا،اسی طرح اس نے پانی پیا تو اس کا بچا ہوا پانی خود پی گئے،وقت گذر گیا،وہ کھانے سے فارغ ہو کر غائب ہو گیا،عصر کے وقت وہ اپنی نوجوان بیوی کو جس کی گود میں بچہ تھا لے کر آیا اور کہا: ’’شاہ جی ! اللہ کے لیے ہمیں کلمہ پڑھا کر مسلمان کر لیجئے‘‘ اور اس طرح اخلاق سے متأثر ہو کر میاں بیوی دونوں مسلمان ہو گئے ۔(بخاری کی باتیں/ص:۲۹،از کتابوں کی درسگاہ میں /ص:۱۰۷)
سچ ہی کہا ہے  :              علم و عمل کی دنیا میں اس طرح گذارا کرتے ہیں
                              اخلاق سے مارا کرتے ہیں، احسان سے جیتا کرتے ہیں  
حسنِ اخلاق پر اخروی انعامات   : صاحبو !در اصل ایمان وہ ہے جو دل میں داخل ہو کر اخلاق کی صورت میں ظاہر ہو، کیوں کہ اسلام کے شجرۂِ طیبہ کا ثمرۂ شیریں حسنِ اخلاق ہی ہے،دنیائے کفر اگر اس کا مزہ چکھ لے تو اس کے سایہ تلے آنے میں اُسے دیر نہ لگے۔         حضرت مفکر ملت مولاناعبداللہ صاحب کاپودروی مدظلہٗ فرماتے ہیں: ’’خلوص، محبت، بے لوث خدمت او رایثا رکے ذریعہ آج بھی ایک مسلمان ہندوؤں کے درمیان مقبول او رمعزز بن سکتاہے، اور اسی میںان بے شمار مسائل کاحل پوشیدہ ہے جنہیں مسلمانوں کی جماعتیں حل کرنے سے قاصر ہیں‘‘۔اس لیے کہ حسن اخلاق ہی کادوسرانام ’’سیرت‘‘ ہے، تو جس طرح خوبصورت انسان آنکھوں کو بھاتاہے، اسی طرح نیک سیرت انسان دل کو بھاتاہے، اس سے ہر انسان محبت کرنے لگتاہے۔           
غرض! حسنِ اخلاق اگر اغراض سے خالی ہو،اور ایمان و اخلاص کے ساتھ ہو تو اس کا نقد انعام دنیا میں تو یہ ملتا ہے کہ اسے اس سے محبوبیت،مقبولیت اور عزت نصیب ہوتی ہے،اسی  کے ساتھ وہ خلیق قیامت اورآخرت کے بے شمار فضائل کا حقدار بن جاتا ہے، چناںچہ احادیثِ مبارکہ میں حسنِ اخلاق کے دینی واخروی انعامات بیان کیے گئے ہیں،مثلاً ایک حدیث میں ہے کہ ’’جب قیامت کے دن میزانِ عدل قائم کی جائے گی تو اس میں جتنے اعمال تولے جائیں گے،ان میں حسنِ اخلاق کا وزن سب سے زیادہ ہوگا ۔
عَنْ أَبِیْ الدَّرْدَاءؓ عَنِ النَّبِيِّ قَالَ: ’’إِنَّ أَثْقَلَ شَيْئٍ یُوْضَعُ فِیْ مِیْزَانِ الْمُؤْمِنِ یَوْمَ الْقِیاَمة خُلُقٌ حَسَنٌ۔ ‘‘ (رواہ
الترمذی، مشکوٰۃ/ص:۴۳۱)       سب سے زیادہ وزنی چیز جو مومن کے ترازو میں رکھی جائے گی وہ عمدہ اخلاق ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ حسن اخلاق سے میزان کا وزن بڑھ جائے گا۔ 
نیز حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ کمالِ ایمان کی نشانی کثرتِ عبادت نہیں،بلکہ حسن اخلاق ہے:         
’’أَکْمَلُ الْمُؤْمِنِیْنَ إِیْمَانًا أَحْسَنهم خُلُقًا۔‘‘ (أبوداود/ص:۶۴۳/ ج:۲، مشکوٰۃ/ص:۴۳۲)      
یعنی جو شخص جس قدر حسن اخلاق کا حامل ہوگا وہ اسی قدر ایمان میں کامل ہوگا، پھر اس کی بدولت صاحب ِ اخلاق کثرتِ عبادات والوں کے درجات حاصل کرلیتاہے۔          چناںچہ حدیث میں مروی ہے کہ قیامت کے دن قائم اللیل اور صائم النہار یعنی دن میں روزہ رکھنے والا اور رات بھر نمازیں پڑھنے والا اپنے اس عمل سے جو مرتبہ اور مقام پائے گا خلیق (حسنِ اخلاق والے)کو وہی مرتبہ اور درجہ حسنِ اخلاق کی بدولت حاصل ہوگا:
عَنْ عَائِشة قَالَتْ: ’’سَمِعْتُ رَسُوْلَ الله یَقُوْلُ: ’’إِنَّ الْمُؤْمِنَ لَیُدْرِکُ بِحُسْنِ خُلُقه دَرَجة قَائِمِ اللَّیْلِ وَصَائِمِ النهار ۔‘‘ (أبوداود، مشکوٰۃ/ص: ۴۳۱)     
مومن اچھے اخلاق کی وجہ سے رات کو قیام کرنے اور دن کو روزہ رکھنے والے کا درجہ پالیتاہے۔       
ایک اور حدیث میں ہے کہ ’’حسنِ اخلاق سے متصف ہونے والے کے لیے جنت کے نہایت اعلیٰ درجہ میں ایک بہترین محل بنایا جائے گا ۔‘‘’’وَمَنْ حَسَّنَ خُلُقه بُنِيَ له فِیْ أَعْلاها۔ ‘‘ ( مشکوٰۃ/ص:۴۱۲ )
جس نے اپنے اخلاق کو درست کرلیا اس کے لیے جنت کے بالائی حصہ میں گھر بنایاجائے گا۔         
بلکہ اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ جنت حسنِ اخلاق والوں کی سوسائٹی ہے، اور وہاں ان کا خوب اکرام ہوگا،جیساکہ منقول ہے کہ ام المومنین سیدہ ام ِسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک مرتبہ رحمتِ عالم  صلی اللہ علیہ و سلم سے ایک عجیب و غریب سوال کیاکہ ’’حضور! کسی عورت کے یکے بعد دیگرے ایک سے زائد شوہر ہو ں، اور وہ سب کے سب یکے بعد دیگرے انتقال کر جائیں، تو یہ عورت جنت میں کس شوہر کے ساتھ ہوگی ؟‘‘ فرمایا :’’یا تو  آخری شوہر کے ساتھ ہوگی، یاپھراسے اختیار دیا جائے گا کہ ان میں جسے چاہے پسند کر لے،یا ان میں جس کے اخلاق اچھے ہوں گے اسی کے ساتھ ہوگی، وہ کہے گی: ’’الٰہی! اس کے اخلاق میرے ساتھ بہت اچھے رہے، لہٰذا میں اس کے ساتھ رہوںگی۔‘‘ (ابن کثیر/ ص:ج:۳/ سورۂ واقعہ).
حسنِ اخلاق کو اختیار کر نا دین و دانش کا تقاضا ہے   : قرآن وحدیث کے ان حقائق سے معلوم ہواکہ جس خوش نصیب کو ایمان و اخلاق کی دولت نصیب ہوگی اسے یقیناًدونوں جہاں میں مقبولیت اور عزت نصیب ہوگی،اور جو اس سے محروم رہا وہ دونوں جہاں کی خیر سے محروم رہے گا۔العیاذباللہ العظیم۔  ضرورت ہے کہ ہم حسن اخلاق سے متصف ہوجائیں، اس کے لیے بزرگوں سے صحیح تعلق قائم کریں، اور اس طرح اپنے اخلاق کی اصلاح کرکے اپنے دل کو روشن کر لیں، ایک بزرگ نے فرمایا :’’روشن دل وہ ہے جس میں خَلْق ( مخلوق کی محبت) نہ ہو،اور سیاہ دل وہ ہے جس میں خُلُق (اخلاق)نہ ہو۔‘‘     شیخ الاولیاء سند الاصفیاء سیدناعبدالقادر جیلانی  ؒ کاقول ہے کہ ’’کُنْ مَعَ الْحَقِّ بِلَا خَلْقٍ، وَمَعَ الْخَلْقِ بِلانَفْسٍ۔‘‘(از : رحمة للعالمین/ج:۳/ص:۳۲۵)
یعنی  اللہ تعالیٰ کے ساتھ تمہارا معاملہ یہ ہوناچاہیے کہ اس میں مخلوق کاذراتعلق نہ ہو، او رمخلوق کے ساتھ معاملہ ایساہوناچاہیے کہ اس میںنفس کا ذراحصہ نہ ہو۔       غرض خوش اخلاقی دینداری ہے تو بداخلاقی بے دینی ہے، جو نیکی کو اس طرح خراب کر دیتی ہے جیسے سرکہ شہد کو،اور اچھے اخلاق بدی کو اس طرح پگھلا دیتے ہیں جیسے پانی نمک کو،لہٰذا بد اخلاقی سے اجتناب کرنا اور حسنِ اخلاق کو اختیار کرنا عقل و نقل اور دین و دانش کا تقاضا ہے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں حسنِ اخلاق سے متصف فرمائے ۔آمین ۔
جَزَی الله عَنَّا مُحَمَّداً صَلّٰی الله عَلَیه وَسَلَّمَ بِمَا هوَ أَهله ۔
............................

بحوالہ گلدستہ حدیث بتغیر یسیر : اکبر حسین اورکزئی

کوئی تبصرے نہیں: