منگل، 2 جنوری، 2018

وقت کی تیز رفتاری اور ہماری بے حسی


عَنْ أَنَسٍؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ الله :’’ لَا تَقُوْمُ السَّاعة حَتیّٰ یَتَقَارَبَ الزَّمَانُ، فَتَکُوْنُ السَّنة کَالشهرِ، وَالشهرُ کَالْجُمُعةِ، وَتَکُوْنُ الجُمُعةُ کَالْیَوْمِ، وَیَکُوْنُ الْیَوْمُ کَالسَّاعةِ، وَتَکُوْنُ السَّاعةُ کَالضَّرْمةِ بِالنَّارِ‘‘۔(رواہ الترمذي، مشکوۃ/ص : ۴۷۰/ باب أشراطِ الساعۃ/الفصل الثانی)  
ترجمہ  :   حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے، رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ قیامت قائم نہ ہوگی، یہاں تک کہ زمانہ قریب ہو جائے گا، پس سال مہینہ کی طرح ،اور مہینہ جمعہ(ہفتہ)کی طرح، اور جمعہ (ہفتہ) دن کی طرح ،اور دن ایک ساعت (گھنٹہ ) کی طرح ہوگا، اور گھنٹہ (بھی اتنا مختصرہوگا ) جیسا کہ آگ کا شعلہ (گھاس کے تنکے پر جلدی سے جل کر) سلگ جاتا ہے‘‘۔

وقت کا صحیح استعمال باعث برکت ہے  : وقت اﷲ پاک کی ایک گرانقدر نعمت ہے، اگر اسے غفلت میں ضائع نہ کیا جائے تو  وقت میں خوب برکت بھی ہے ۔اسی لیے حضرت عمرؓ  اپنی دعائوں میں فرماتے کہ ’’یا اﷲ! اوقاتِ زندگی میں برکت عطا فرما، اور اسے صحیح مصرف میں لگانے کی توفیق عطا فرما‘‘ ۔اسلام میں وقت کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایاجاسکتاہے کہ حق تعالیٰ کی جانب  سے بہت سے اسلامی اعمال کو اوقات کے ساتھ خاص کیاگیا، حضور صلی اللہ علیہ و سلم  نے منجانب اللہ ہمارے لیے خصوصی احکام مقرر کرنے کے ساتھ ان کی ادائیگی کے اوقات بھی مقرر فرمائے۔ چنانچہ نمازکے بارے میں ارشاد ہے:
 { إِنَّ الصَّلوٰۃَ کَانَتْ عَلٰی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰاباً مَّوْقُوْتاً} (النساء : ۱۰۳)    
نماز مومنین پر مقررہ اوقات میں فرض کی گئی ۔
اسی طرح روزہ، زکوٰۃ، صدقۂ فطر، قربانی، حج ، حیض و نفاس کے احکام ،رضاعت اورطلاق ووفات کی عدت وغیرہ اسلامی احکام کے اوقات مقرر ہیں۔ظاہر ہے کہ جب ایک مسلمان ان متعینہ اعمال کو مقررہ اوقات میں انجام دینے کا عادی ہوگاتو ہر کام بروقت انجام دینا اس کی طبیعت بن جائے گی، جس کے نتیجہ میںوقت کا صحیح استعمال ہوگا۔پھراگر وقت کو صحیح جگہ خرچ کیا جائے تو اس میں برکت ہوتی ہے، اور پھر آدمی تھوڑے وقت میں ایسے عظیم عظیم کارنامے انجام دیتا ہے کہ بعض اوقات اتنے وقت میں سینکڑوں  آدمی مل کر بھی نہیں دے پاتے، اسلاف کے کارنامے اس کی روشن مثالیں ہیں۔اور حقیقت یہ ہے کہ اگر وقت کو غفلت میں برباد کر دیاجائے تو وقت سے برکت ہٹا لی جاتی ہے، اس کے بعد آدمی تنگی ٔوقت کا شکوہ کر کے بعض اوقات بہت سے کاموں سے محروم ہو جاتا ہے، بالخصوص جب کہ وقت کم اور کام زیادہ ہو، دورِ حاضر میں عموماً لوگو ںکی یہ شکایت ہے کہ ’’جی !کام بہت ہے، لیکن وقت کم ہے‘‘ یہ شکایت تنگی ٔوقت کے باعث کی جاتی ہے، جب کہ یہ وقت کو ضائع کرنے کے نتیجہ میں اس سے برکت ہٹالیے جانے کی نحوست ہے۔
قرب قیامت کی ایک علامت  :اورحدیث بالا میں تنگی ٔوقت کو علامت قیامت بتلایاگیا، فرمایا: ’’َلَا تَقُوْمُ السَّاعةُ حَتّٰی یَتَقَارَبَ الزَّمَانُ‘‘۔ قیامت اس وقت تک نہ آئے گی یہاں تک کہ زمانہ جلد از جلد نہ گذرنے لگے، یعنی زمانہ اور وقت سمٹ کر قریب ہوجائے، محدثینؒ نے اس کے مختلف مطالب بیان فرمائے ہیں:        
(۱)       اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ دنیا اور آخرت کا زمانہ ایک دوسرے سے قریب ہوجائے گا۔
(۲)      دوسرا مطلب یہ ہے کہ شراور فساد کے لیے زمانہ والے ایک دوسرے سے قریب ہوجائیں گے۔  
             جیساکہ آج کل واٹس ایپ(Whatsaap) اور اس جیسی دوسری انٹرنیٹ کی سائٹوں نے لوگوں  
              کو ایک دوسرے سے قریب کر دیا ہے۔         
(۳)      بعضوں نے کہا کہ اس سے لوگوں کی عمروں میں کمی کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی اہل زمانہ کی
            عمریں قربِ قیامت سے قبل کم ہوجائیں گی ۔    
(۴)      اوربعضوں نے فرمایا کہ اس سے زمانہ کی قلت مراد ہے۔ مطلب یہ ہے کہ قربِ قیامت سے قبل زمانہ بھی قریب ہو جائے گا، جس کا اثر یہ ہوگا کہ لوگوں کو عموماً وقت کے گذرنے کا احساس بھی نہ ہوگا، کہ سال مہینہ کی طرح، مہینہ ہفتہ کی طرح ،ہفتہ دن کی طرح، اور دن گھنٹہ کی طرح گذر جائے گا، آج ایسا ہی ہے ،کہاں سال ختم ہو گیا؟ کب مہینہ گذر گیا؟ اور کیسے ہفتہ ہوگیا؟ کچھ پتہ نہیں۔  
؎غافل! تجھے گھڑیال یہ دیتی ہے منادی خالق نے گھڑی عمر کی ایک اور گھٹا دی تنگی ٔوقت کے اسباب  : علامہ تورپشتی ؒ نے تنگی ٔوقت کی دو وجہیں بیان فرمائی ہیں:     
۱-        وقت میں قلت برکت نہ ہونے کے سبب ہوگی۔(اور بے برکتی ضیاعِ وقت یعنی وقت کا صحیح استعمال نہ کرنے سے ہوگی، جیسا کہ عرض کیاگیا)۔           
۲-        یا پھر اس کی وجہ یہ ہوگی کہ اُس وقت لوگ عام طور پردنیوی حالات و تفکرات میں اس طرح گھرے ہوئے ہوں گے کہ ضیاعِ وقت کا ادراک واحساس تک ختم ہو جائے گاکہ کب صبح ہوئی اور کب شام؟ کس طرح ہوئی؟ جائز طریقہ سے یا ناجائز طریقہ سے؟ ایک عمومی مدہوشی و بے حسی طاری ہوگی،اسی کو فرمایا:
{اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُہُمْ وَہُمْ فِیْ غَفْلَۃٍ مُعْرِضُوْنَ} (الأنبیاء : ۱)    
 لوگوں کے حساب (قیامت) کا وقت قریب آگیا، او روہ پھر بھی غفلت میں ہیں اعراض کیے ہوئے۔        
 اگرچہ علامہ خطابی ؒ نے فرمایا کہ حدیث پاک میں وقت کی جس تیزرفتاری کا ذکر ہے اس کا حقیقی ظہور خروجِ دجال کے وقت حضرت امام مہدى    اور حضرت عیسٰی ؑ کے عہد میں ہوگا ۔ ( مرقاۃ شرحِ مشکوۃ /ص: ۱۶۹/جلد : ۱۰)           .
مگر اِس زمانہ میں وقت کی بے برکتی کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کی ابتدا ہوچکی ہے، آج ہماری بے حسی اور وقت میں بے برکتی دونوں ہمارے سامنے ہیں۔
عمومی بے حسی  :بے حسی و مدہوشی کا تو یہ حال ہے کہ آئے دن بڑے بڑے حادثات و سانحات پیش آتے ہیں، کہیں زلزلہ، کہیں سیلاب، کہیں طوفان، کہیں ہوائی جہاز ٹوٹا، کہیں ریل حادثہ ہوا، کہیں بس ہوئی بے بس، کہیں قومی فساد میں سینکڑوں مارے گئے، غرض چاروں طرف تباہی اور جانی ومالی بربادی کی خبریں،یہ سب کچھ ہم لوگ روزانہ پڑھتے اور سنتے رہتے ہیں، مگر اس سے ہمارے دلوں میں کوئی جنبش تک پیدا نہیں ہوتی، بس اخبارات پڑھے اور ڈال دیے ردی کی ٹوکری میں، گویا اتنے عظیم عظیم واقعات صرف پڑھنے اور سننے کے لیے ہیں! یہ کتنی بڑی بے حسی ہے؟ اگر یہی حال رہا تو کہیں ایسا نہ ہو کہ پکارنے والا پکار اٹھے :اے موجِ حوادث! ان کو بھی دو چار تھپیڑے ہلکے سے کچھ لوگ ابھی تک ساحل پر طوفان کا نظارہ کرتے ہیں اورچشمِ تاریخ کے ابرو کے اشارے دیکھو!کس روش پہ یہ ہیں؟ حالات کے دھارے دیکھو! بے برکتی وبے حسی لازم  ملزوم ہیں  : ساری اسلامی تعلیمات اور انسانی ہمدردی بے حسی کی نذر ہوگئی۔ ’’إِنَّاﷲِ وإنا إلیہ راجعون‘‘ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان حالات کو پڑھ سن کر، کم از کم دو جملے دعا کے کہہ لیتے کہ ’’یا اﷲ! آپ کی مخلوق تباہ ہو رہی ہے، آپ کے علاوہ کوئی بچانے والا نہیں، ہم سب پر رحم فرما، اور اپنے غضب وغصہ سے بچا‘‘۔            ’’اَللهم لَا تَقْتُلْنَا بِغَضَبِکَ وَلَا تهلِکْنَا بِعَذَابِکَ وَعَافِنَا قَبْلَ ذٰلِکَ‘‘۔ (مشکوٰۃ/ص:۳۳۱) اگر ہم سے اتنا بھی نہیں ہوتا تو کیا یہ بے حسی نہیں ہے؟ واقعہ یہ ہے کہ آج جو وقت میں بے برکتی ہو رہی  ہے، یہ ہماری بے حسی کا ثمر ہ اور نتیجہ ہے، جو قیامت کی ایک نشانی ہے، اور یاد رکھیے کہ بے برکتی وبے حسی
 لاز وم  ملزوم ہیں۔ وقت کو تیز رفتاری کے ساتھ قیمتی کیسے بنا سکتے ہیں؟           
صاحبو! بس ذرا بے حسی دور ہو جائے تووقت کو تیز رفتاری کے ساتھ بھی قیمتی اور بابرکت بنایا جا سکتا ہے، اور دنیا سے آخرت کے لیے، تندرستی سے بیماری کے لیے، جوانی سے بڑھاپے کے لیے اور زندگی سے موت کے بعد کے لیے  بہت کچھ نفع حاصل کیا جا سکتا ہے، کیوںکہ وقت میں بڑی عجیب خاصیت یہ بھی ہے کہ   :وقت میںتنگی و فراخی دونوں ہیں، جیسے ربڑکھینچنے سے بڑھتی ہے، چھوڑنے سے جاتی ہے سکڑ             عاجز کے ناقص خیال میں وقت کو کارآمدو قیمتی بنانے کے لیے دو چیزیں ضروری ہیں:  پہلی چزنظام الاوقات اور دوسری چیز احتساب الاوقات۔    
۱-        نظام الاوقاتTime Table )) (بنانے کا مطلب یہ ہے کہ  زندگی کے تمام اوقات میں کاموں کی ترتیب بنانا، اور ہر کام کے لیے ایک وقت اور ہر وقت کے لیے ایک کام متعین کرنا،یہ سنت ہے، اور اس سے دو فائد ے حاصل ہوں گے:
(۱) کام کے وقت تردد سے وقت ضائع نہ ہوگا۔
 (۲) ہر کام اپنے وقت پر دل جمعی کے ساتھ کیا جاسکے گا۔
ایک واقعہ  : تاریخ میں جتنی عملی اور عظیم شخصیات گذری ہیں ان کی پابندیٔ نظام الاوقات ضرب المثل ہے۔ شیخ الاسلام علامہ مفتی محمدتقی عثمانیؔ مدظلہٗ نے اپنے مواعظ میں ایک واقعہ نقل فرمایا ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن زیاد بن ا نعم ؒایک بہت بڑے محدث گذرے ہیں،ان کے زمانہ میں ایک شخص کے دل میں یہ عجیب و غریب سوال پیدا ہوا کہ میں مختلف علماء و محدثین سے سوال کروں کہ اگر آپ کو یہ پتہ چل جائے کہ کل ہماری موت آنے والی ہے، تو آپ اپنی زندگی کے اُس آخری دن کو کس طرح اور کن کاموں میں گذاریں گے؟ سوال کا مقصد یہ تھا کہ سوال کے جواب میں علماء، فقہا اور محدثین بہترین کاموں کا ذکر فرمائیں گے، اور اس طرح مجھے بہترین کاموں کا پتہ چل جائے گا، اور میں اپنی بقیہ زندگی میں ان کا اہتمام کروں گا، اس خیال سے اس شخص نے بہت سے اکابر سے یہ سوال کیا، اب سوال کے جواب میں کسی نے کچھ کہا، کسی نے کچھ، لیکن وہ جب حضرت عبدالرحمن ؒ کی خدمت میں گیا اور یہ سوال کیاتو جواب میں حضرت نے فرمایا: ’’میں تو وہی کام کروں گا جو روزانہ کرتا ہوں‘‘ اس لیے کہ میں نے شروع سے اپنا نظام الاوقات بنالیا ہے، اور اس خیا ل کو سامنے رکھ کر کہ شاید یہ دن میری زندگی کا آخری دن ہو، میرے بنائے ہوئے نظام الاوقات میں اتنی گنجائش ہی نہیں کہ کسی اور عمل کا اضافہ کر سکوں، لہٰذا جو عمل روزانہ کرتا ہوں آخر ی دن بھی وہی کروں گا۔‘‘( اصلاحی خطبات/ ص: ۲۵۲/جلد :۷،  مرنے سے پہلے موت کی تیاری).
 اکابر کی کامیابی کا راز  :
اکابر کی کامیابی کاراز یہ بھی ہے کہ انہوں نے نظام الاوقات بنائے، جو وقت کو تیزرفتاری کے ساتھ قیمتی بنانے کے لیے نہایت ہی ضروری ہے، لہٰذا ہم بھی اپنے آپ کو کسی نہ کسی جائز و مباح کام میں اتنا مشغول رکھیں کہ غلط اور گناہ کے کام کے لیے فرصت ہی نہ رہے۔         
۲- دوسری چیز ’’احتساب الاوقات‘‘۔  یعنی صبح بیدارہونے سے رات کو سونے تک کیا کھویا؟ کیا پایا ؟ کتنا فائدہ ہوا؟ کتنا نقصان ہوا؟ اس کے پرکھنے کی کسوٹی احتساب ہے ۔ ان تمام باتوں پر ہمیں اپنی ذاتی  عدالت میں غور کرنا چاہیے، جہاں ہم خود ہی جج ہیں، خود ہی وکیل ہیں او رخود ہی مجرم ہیں،اگر وقت کی کچھ اہمیت ہے تو انسان احتساب سے بھی نشانِ منزل پاکر مستقبل کے لیے اپنے اندر عملی جذبہ پیدا کر سکتا ہے۔ اور رہی یہ بات کہ ماضی پر حسرت اور مافات پر ندامت سے مزید وقت ضائع ہوتا ہے، تو خوب سمجھ لو! یہ اس وقت ہے جب کہ حسرت وندامت سے نیا حوصلہ و جذبہ اور عزم و ارادہ پیدانہ ہوتا ہو۔غرض وقت کو تیز رفتاری کے ساتھ قیمتی بنانے کے لیے نظام الاوقات اور احتساب  الاوقات دونوں باتیں ضروری ہیں۔گذرگیاجو عہد عشرت، نہ کر تو ناداں اس کی حسرتقدر اس کی سمجھ غنیمت، جو پیشِ نگاہ اب ہے وقت   اس نکتہ کو نہ بھولوکہ درحقیقت بڑا آدمی وہ ہے جو زندگی کے ہر دن کواپنا آخری دن سمجھ کر اپنے اوقات کو بڑے کارناموں میں خرچ کرے، او روقت کے ایک ایک لمحہ کی قدر کرے۔ اﷲ پاک ہمیں اپنا وقت صحیح جگہ لگانے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین۔
 وَ آخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔یَا رَبِّ صَلِّ وَ سَلِّمْ دَائِماً أَبَدًاعَلٰی حَبِیْبِکَ خَیْرِالْخَلْقِ کُلِّھِمْ
بحوالہ گلدستہ حدیث بتغیر یسیر  :   اکبر حسین اورکزئی

٭…٭…٭

کوئی تبصرے نہیں: