منگل، 2 جنوری، 2018

فتنوں کے احوال اور احکام


عَنْ أَبِیْ هرَیْرَۃ رَضِيَالله عَنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ الله : ’’بَادِرُوْا بِالأَعْمَالِ فِتَناً کَقِطَعِ اللَّیْلِ الْمُظْلِمِ، یُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَ یُمْسِیْ کَافِراً، وَّ یُمْسِیْ مُؤْمِناً وَیُصْبِحُ کَافِراً، یَبِیْعُ دِیْنه بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْیاَ‘‘ ۔(رواہ مسلم و الترمذی، مشکوۃ/ص:۴۶۲، کتاب الفتن/الفصل الأول)    
ترجمہ  :   حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ رحمت عالم  صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ’’نیک اعمال میں جلدی کر لو، فتنوں کے آنے سے پہلے پہلے (کیوںکہ آنے والے فتنے) اندھیری رات کے مانند ہوں گے، (اُس وقت آدمی) صبح مؤمن ہوگااور شام کو کافر،اور اگرشام کو مؤمن ہوگا تو صبح کافر، دنیا کے معمولی نفع کے عوض آدمی اپنے دین کو بیچ دے گا۔

فتنہ کے معنیٰ اور مفہوم  : اللہ رب العزت نے اس دنیا کو آزمائش کے لیے بنایاہے، اس لیے دنیاکو دارالفتن یعنی فتنوں اور آزمائشوںکا گھر کہاجاتاہے۔ لفظ’’فتنہ‘‘ کے کئی معانی آتے ہیں، مثلاً آزمائش، کسی پر فریفتہ ہونا، گمراہ ہونا، گناہ ، ذلت ، عذاب و غیرہ، اس کے ایک معنی ہیں: ’’سونے یا چاندی کو آگ میں پگھلا کر اس کا کھرا کھوٹا معلوم کرنا‘‘ (مصباح اللغات /ص:۶۱۸) تاکہ اس کے خالص ہونے نہ ہونے کی حقیقت سامنے آجائے،اِس فتنہ کے لفظ کو اِس معنی کے اعتبار سے آزمائش و امتحان کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے، کیوںکہ ا س سے بھی انسان کی اندرونی کیفیت کا پتہ چلتا ہے، اسی کو قرآن میں یوں فرمایا:          {وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ} (العنکبوت : ۳)   
تحقیق کہ ہم نے ان سب کی آزمائش کی ہے جو ان سے پہلے گذرچکے ہیں، لہٰذا (اگرچہ اللہ تعالیٰ کو شروع ہی سے سب کچھ معلوم ہے، مگر اپنے اس ازلی علم کی بنیاد پر جزا وسزا کافیصلہ کرنے کے بجائے لوگوں پر حجت قائم کرنے کے لیے) ضرور معلوم کر کے رہے گا کہ کون لوگ ہیں جنہو ں نے سچائی سے کام لیاہے، او روہ یہ بھی معلوم کر کے رہے گا کہ کون لوگ جھوٹے ہیں۔ 
یوں تو دنیا کی ساری زندگی آزمائش کے لیے ہے، لیکن یہ آزمائش اور فتنے آخری زمانے میں بڑھ جائیں گے چنانچہ حدیث مذکور میں ’’فتنہ‘‘ کا لفظ جس مفہوم میں مستعمل ہوا اُس کا خلاصہ یہ ہے کہ  دنیا کے آخری دور میں گمراہی و بے دینی عام ہو جائے گی اور ایسی خطرناک صورتِ حال پیدا ہوجائے گی جس میں ایمان و کفر کا امتیاز، حق و باطل کا فرق اور صحیح و غلط کی تمیز مشکل ہو جائے گی اور دین کے معاملہ میںآدمی شک اور تذبذب کا شکار ہوجائے گا، ایسے دور کو  دورِ فتن کہا جائے گا۔دورِ فتن کا حال او راس کی وجہ  :
 حدیث بالا میں دورِ فتن سے قبل عمل میں جلدی کرنے کی ترغیب دی ہے، فرمایا: ’’بَادِرُوْا بِالأَعْمَالِ فِتَناً‘‘ اندھیری رات کے مانند تاریک فتنوں کا زمانہ آنے سے پہلے آج اگر موقع ہے نیک اعمال کاتو اس سے فائدہ اٹھالو، اور زیادہ سے زیادہ نیک کام کر لو، کیوںکہ جب فتنوں کا دور شروع ہوگا تو معاملہ نہایت دشوار ہوجائے گا کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے؟ اُس زمانہ میں طاعت خدا وندی کی طرف توجہ کم ہوگی، اور اعمالِ شرعیہ کو بکمالہٖ ادا کرنامشکل ہو جائے گا، کیوںکہ حالات پرسکون نہ ہونے کی وجہ سے دل میں ہر وقت فکر و بے اطمینانی کی کیفیت رہے گی، پھر دورِ فتن کی مذکورہ صورتِ حال کی بھی چندوجودہات بیان کی گئی ہیں، مثلاً:
(۱) مسلمانو ںکا آپسی عصبیت کی وجہ سے اختلاف۔
(۲) مسلمانوں کے امراء وحکام کا ظلم و زیادتی  والا معاملہ کرنا۔
(۳) مسلمانوں کا علم دین سے دور ہونا اور احکامِ شریعت کی خلاف ورزی کرنا۔
نیز اتباعِ شہوت و غفلت ، ان وجوہات کے سبب پرفتن حالات پیدا ہوں گے۔دورِ فتن میں ضعیف الایمان لوگوں کا حال   حضور  صلی اللہ علیہ و سلم نے دورِ فتن کی آگاہی دیتے ہوئے ارشاد فرمایاکہ حالات ایسے خطرناک اور اتنے شدید و پر فتن ہوں گے کہ عام آدمی کا ایمان و اعمال پر یاکمالِ ایمان اور کمالِ اعمال پرباقی رہنا مشکل ہو جائے گا۔  ’’یُصْبِحُ الرَّجلُ مُؤْمِناً وَیُمْسِیْ کَافِراً‘‘  صبح تومو من ہوگا، مگر شام تک فتنوں میں ایسا مبتلا ہوجائے گا کہ ایمان سے ہاتھ دھوبیٹھے گا ، اور شام کو تو مومن ہوگا، مگر فتنوں میں ملوث ہو کر صبح تک کافر ہو جائے گا۔ یاکفرانِ نعمت میںمبتلا ہوجائے گا۔ یاکافروں کے مشابہ ہوجائے گا۔ یاکافروں کے اعمال پر عمل پیراہوجائے گا۔ کیونکہ چاروں طرف سے ایمان و اعمال کو مٹانے کی کوشش ہوگی، پھربعض ضعیف الایمان لوگوں کی حالت یہ ہوگی کہ دنیا کے معمولی نفع کے عوض دین بیچ دیں گے، ان ہی جیسوں کے لیے قرآن کہتاہے:   
{ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَعْبُدُ اللّٰہَ عَلٰی حَرْفٍ فَإِنْ أَصَابَہٗ خَیْرُنِ اطْمَأَنَّ بِہٖ وَإِنْ أَصَابَتْہُ فِتْنَۃُنِ انْقَلَبَ عَلٰی وَجْہِہٖ خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃَ ذٰلِکَ ہُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ} (الحج : ۱۱)     
اور لوگوں میں وہ شخص بھی ہے جو ایک کنارے پر رہ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتاہے، چناںچہ اگر اسے (دنیامیں) کوئی فائدہ پہنچ گیاتو وہ مطمئن ہوجاتاہے، اور اگراسے کوئی آزمائش پیش آگئی تو وہ منہ موڑکر(پھر کفر کی طرف) چل دیتاہے، ایسے شخص نے دنیا بھی کھوئی او رآخرت بھی، یہی تو کھلا ہوا گھاٹا ہے۔           
ایسامحسوس ہوتاہے کہ قرآن وحدیث میں دورِ فتن کے جو آثارو احوال بتلائے ہیں اب وہ نظر آ رہے ہیں، لوگوں میں آج حرص و ہوس اتنی عام ہے کہ دین و ایمان کا سودا کرنے کو تیارہیں۔
حرص وہوس کی منڈی میں٭ہرچیز کا سودا ہوتا ہےملائوں کے سجدے بکتے ہیں٭پنڈت کے بھجن بک جاتے ہیں .
ایک نہایت عبرت ناک واقعہ    : صاحبو! افسوس صرف اسی پر نہیں ہے کہ جو عمربھر کفر وشرک پر رہا اور مرا،بلکہ افسوس تو اس پرہے جو عمر بھر ایمان پر رہا، مگر اخیر میں حرص وہوس کی وجہ سے ایمان سے ہاتھ دھوبیٹھا اور کفر پر مرا۔(العیاذ باللہ العظیم) ابھی پچھلے دنوں یونان میں ایک نہایت عبرت ناک واقعہ پیش آیا، وہاں کی ایک کمپنیCompany) (میں بنگلہ دیش کا ایک مسلم نوجوان کام کر رہا تھا، اس کی دوستی اپنے ساتھ کام کرنے والی ایک عیسائی (christian) لڑکی سے ہوگئی، اور دیکھتے ہی دیکھتے معاملہ عشق تک جا پہنچا، نوجوان کا نام مظہر الاسلام تھا، اس نے اپنی معشوقہ سے شادی کا مطالبہ رکھا، تو اس نے صاف کہہ دیاکہ یہ اسی وقت ممکن ہے جب کہ تم اپنا مذہب تبدیل کر کے عیسائی بن جائو، چناںچہ مظہر الاسلام فورا ًراضی ہو گیا، یہ ہے ،
’’یَبِیْعُ دِیْنه بِعَرَضٍ مِّنَ الدُّنْیَا‘‘ کی ایک مثال ہے ،جب نوجوان کے والدین اور دوست واحباب کو پتہ چلا تو انہوں نے اس کو سمجھانے کی ہر ممکن کوشش کی مگر؟  عشق آمد عقل او آوارہ شد٭صبح آمد شمع او بیچارہ شد .      
عشق کی وجہ سے عقل ختم ہوجاتی ہے، جیسے صبح سے اندھیرا ختم ہوجاتاہے۔
اس لیے کہتے ہیں نا!مریض عشق پر لعنت خدا کی٭مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی.نوجوان اپنے فیصلہ پر اٹل رہااور مرتد ہو کر کسی چرچChurch) (میں جا کر شادی کر لی، جب بنگلہ دیش اس کے والدین کو اطلاع ملی تو انہوں نے ہمیشہ کے لیے اس سے رشتہ منقطع کر لیا، دوسری طرف نوجوان کی شادی کے بعد کچھ دن تو بڑی خوشی کے ساتھ گذرے، تین ماہ کے بعد ایک دن دونوں میاں بیوی کار میں کہیں جا رہے تھے، اچانک بریک فیل ہونے کے سبب کار ہوگئی بے کار، کسی درخت سے ٹکرائی اور نوجوان موقع پر ہی ہلاک ہوگیا، اس طرح وہ{خَسِرَ الدُّنْیاَ وَ الآخِرَۃَ} کا مصداق بنا۔
نہ خدا ہی ملا، نہ وصالِ صنم٭نہ اِدھر کے رہے، نہ اُدھر کے صنم(مستفاد از: صوت القرآن ٹائٹل ص: ۱/ دسمبر/ء  ۲۰۰۵).
کیوں کہ قرآن نے کہا:  
{ إِنَّ الَّذِیْنْ اشْتَرَوُا الْکُفْرَ بِالإِیْمَانِ لَنْ یَّضُـرُّوْا اللّٰہَ شَیْئاً وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ} (آل عمران : ۱۷۷)       
کفر کو ایمان کے بدلے خریدنے والے ہرگز ہرگز اللہ تعالیٰ کوکوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے، خود ان ہی کے لیے درد ناک عذاب ہے۔
یہ تو بطورِ مثال ایک واقعہ تھا، ایسے واقعات تو آئے دن نہ جانے کتنے پیش آتے ہوں گے؟ اللہ ہی بہتر جانے۔
دورِ  پُرفتن میں فتنۂ ارتداد کا استئصال اورایمان پر استقامت کی دعا
صاحبو! عجیب بات یہ ہے کہ پہلے غیرمسلم چاہتے تھے کہ ہم مسلمان ہوجائیں،اب بعض مسلمان چاہتے ہیں کہ ہم غیر وں جیسے ہوجائیں۔آج ظاہر میں تو ہم  میں سے بعض لوگ غیروں سے نفرت کرتے ہیں، مگر ان کی تہذیب سے محبت کرتے ہیں، جب کہ مسلمانوں سے بظاہر محبت کرتے ہیں، مگر اسلامی تہذیب سے نفرت کرتے ہیں، یہ عمومی حال اس فتنے کے دور کاہوگیا ہے۔ (الا ماشاء اللہ)           علماءٗ فرماتے ہیں كہ:’’یہ حقیقت ہے کہ کچھ مدت تک یہ بات ناقابل قیاس سمجھی جاتی تھی کہ مسلمان بھی دین حق سے منحرف ہو کر کوئی اور مذہب قبول کرلیں،لیکن جہالت، پسماندگی، غربت  یاغفلت و ناواقفی کی وجہ سے اب صورتِ حال خاصی بدل چکی ہے، بعض کم فہم،ناواقف اورغافل مسلمان ارتداد کے چنگل میں مبتلا نظر آنے لگے،اسباب جو بھی ہوں، لیکن بدقسمتی سے فتنۂ ارتداد کی کالی گھٹائیں مسلمانوں کی طرف بڑھ رہی ہیں، ان حالات میں دینی تحریکوں، جماعتوں، تنظیموں اور  اداروں کا اولین فریضہ ہے کہ وہ اس کے سد ِباب کے لیے باہم سرجوڑ کر بیٹھیں اورمسلمانوں میںشعور پیداکریں، اس کے لیے باقاعدہ علماء کو تیار کیاجائے اور ائمہ کے تربیتی اجتماعات رکھے جائیں۔‘‘عاجز کا ناقص خیال ہے کہ اگرہم نے ایسے فتنوں سے آنکھیں بندکر لیں، اور خدانخواستہ ایک دفعہ مسلم معاشرے میں فتنۂ ارتداد کو گھسنے کا موقع مل گیا تو پھر یہ جڑ پکڑتا جائے گا، او ربعد میں اس کا تدارک دشوار ہوجائے گا۔ضرورت ہے کہ ہم خوابِ غفلت سے بیدار ہوں، اوراللہ تعالیٰ نے ہمیں جس دین حق کا امین بنایاہے اس کی حفاظت و اشاعت کے لیے کمر بستہ ہوجائیں، اسی کے ساتھ اپنے لیے اور اپنی نسلوں کے لیے ایسے موقع پر ایمان و ہدایت پر استقامت کے لیے
 یہ دعا بکثرت مانگتے رہیں :   
{ رَبَّنَا لَاتُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ إِذْ ہَدَیْتَنَا وَہَبْ لَنَا مِن لَّدُنْکَ رَحْمَۃً إِنَّکَ أَنْتَ الْوَہَّابُ} (آل عمران : ۸)  
پروردگار! ہدایت دینے کے بعدہمارے دل ٹیڑھے نہ کردے، اور ہمیں خصوصی رحمت دے، یقینا تو بڑی عطا والا ہے۔
نیز یہ دعا بھی مانگیں:    ’’ اَللهم إِنِّیْ أَعُوْذُبِکَ مِنَ الْفِتَنِ مَا ظَهرَ مِنها وَمَابَطَنَ۔‘‘ (کنز العمال:۲/۲۶۴)        
دورِ فتن میں اس دعاکا اہتمام کرلیا تو ایمان پر استقامت نصیب ہوگی۔ (ان شاء اللہ)
الٰہی! خیر ہو کہ فتنۂ آخر زماں آیارہے ایمان ودیں باقی کہ وقت امتحاں آیا .      علماء نے لکھا ہے کہ آدمی فتنہ میں مبتلا ہونے کے اندیشہ کے وقت اللہ تعالیٰ سے سلامتی ٔ ایمان کے ساتھ دنیا سے اُٹھائے جانے کی دعا بھی کر سکتا ہے، چنانچہ حضرت عمرؓ نے اپنے اخیری دور میں یہ دعا فرمائی  :   ’’ اَللهم کَبِرَتْ سِنِّیْ، وَ ضَعُفَتْ قُوَّتِیْ، وَ انْتَشَرَتْ رَعِیَّتِیْ، فَاقْبِضْنِیْ إِلَیْکَ غَیْرَ مُضَیِّعٍ وَّ لاَ مُفَرِّطٍ۔‘‘ (المؤطا للإمام مالکؒ / باب ما جاء فی الرجم)     
ترجمہ  :    ’’اے اللہ! میری عمر بڑھ گئی ہے، میری قوت ختم ہو گئی ہے، اور میری رعیت پھیل گئی ہے، اس لیے مجھے کسی چیز کے ضائع کرنے سے اور کسی قسم کی زیادتی سرزد ہونے سے پہلے اُٹھا لیجیے۔
دورِ فتن کے لیے دو احکام  :بہر حال دورِفتن کی جو علامتیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہیںان کا ظہور تقریباً ہو چکا ہے، ایسی صورت میںدعائِ مذکور کے اہتمام کے علاوہ علامہ مفتی محمدتقی عثمانیؔ مدظلہٗ کے بقول ہمیں دو کام کرنے ہیں،جن کاایک حدیث پاک میں تذکرہ ملتاہے۔
 ۱- ’’تَلْزَمُ جَمَاعة الْمُسْلِمِیْنَ وَ إِمَامهم‘‘ پہلا اور ابتدائی کام(جو عزیمت  یعنی اصل او رمستقل حکم ہے ) مسلمانوں کی بڑی جماعت اور ان کے  امام کو لازم پکڑنا،اور لوگوں کی رشد و ہدایت کے لیے برابر فکر مند رہنا، ان سے کنارہ کشی اور خلوت نشینی اختیار نہ کرنا۔         لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت والی جماعت ہو، لیکن ان کا کوئی  امام نہ ہو تو پھر کیا کرنا چاہیے؟        
۲-  ایسی صورت میں دوسرا حکم یہ ہے کہ کسی جماعت کے بارے میں یقینی طور پر حق و باطل کا پتہ نہ چلے، اور العیاذ باللہ العظیم حالات اس درجہ نزاکت اختیار کرلیں کہ مخلوق کے ساتھ تعلق رکھنے کی صورت میں جان و ایمان کا خطرہ ہو، اورنوبت یہاں تک پہنچ جائے کہ     { إِنَّہُمْ إِِنْ یَّظْہَرُوْا عَلَیْکُمْ یَرْجُمُوْکُمْ أَوْ یُعِیْدُوْکُمْ فِیْ مِلَّتِہِمْ وَلَنْ تُفْلِحُوْا إِذًا أَبَدًا}  (الکہف :۲۰) جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ کافر اور اہل باطل تم پر غلبہ پا لیں گے، تو تمہیں سنگسار کر دیں گے (جانی نقصان پہنچائیں گے) یا پھر تمہیں اپنی ملت (ومذہب) میں لوٹالیں گے، (دینی نقصان پہنچائیں گے) اور پھر تم کبھی بھی کامیاب نہ ہو سکوگے۔  تو اس صورت میں اس کے سوا کوئی راستہ نہیں (بلکہ اُس وقت رخصت ہے، لیکن یاد رکھو کہ رخصت کی حیثیت مستقل حکم کی نہیں ہوتی، بلکہ کسی عارض کی بنا پر جو وقتی حکم دیاجاتاہے شرعی اصطلاح میں اسے رخصت کہتے ہیں، جیسے پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کی اجازت وغیرہ) کہ ہر جماعت سے علیٰحدگی اختیار کرکے اپنے ایمان و اعمال کی حفاظت اور اپنی اصلاح کی فکر میں آدمی اپنے گھرکو لازم
 پکڑے ،اور بلا دینی و دنیوی ضرورت کے گھر سے باہر نہ نکلے، حدیث میں فرمایا:
’’اَلْقَاعِدُ فِیها خَیْرٌ مِنَ الْقَائِمِ وَ الْقَائِمُ فِیها خَیْرٌ مِنْ الْمَاشِی، وَالْمَاشِیْ فِیهاخَیْرٌ مِّنَ السَّاعِیْ‘‘۔ (مشکوٰۃ/ص:۴۶۲)    اُس زمانہ میں (گھر میں) بیٹھنے والا کھڑے  سے اچھاہوگا، اور کھڑاچلنے والے سے بہتر ہوگا، ان میں چلنے والا دوڑنے والے سے افضل ہوگا۔
گویا وہ وقت اجتماعی کام کے بجائے انفرادی کام کا ہوگا، اس لیے  حق و باطل کے اشتباہ کے وقت  اپنی اصلاح اور اپنے  ایمان کو بچانے کی فکر کرناہی عافیت کا راستہ ہے، اسی لیے فرمایا:
{ یٰٓأَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْکُمْ أَنْفُسَکُمْ لَا یَضُرُّکُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اھْتَدَیْتُمْ}(المائدۃ : ۱۰۵)    
اے ایمان والو ! اپنی ذات کی خبر لو ! اپنی اصلاح کی فکر کرو ! اگر تم ہدایت پر آگئے اور تم نے دعوت الی الخیر کا فریضہ انجام دے دیاتو پھر جو لوگ گمراہی کی طرف جا رہے ہیں ان کی گمراہی تمہیں نقصان نہیں پہنچا ئے گی۔(مستفاد از:  ذکروفکر/ ص :  ۲۳۹)       
بہر حال دورِ فتن کے لیے دعا کے علاوہ یہ دواحکام کتاب و سنت میں ملتے ہیں ، دعا بھی کریں کہ حق تعالیٰ ہمیں تمام ظاہری و باطنی اوردینی ودنیوی فتنوں سے محفوظ رکھے، آمین۔
 وَ آخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔یَا رَبِّ صَلِّ وَ سَلِّمْ دَائِماً أَبَدًاعَلٰی حَبِیْبِکَ خَیْرِالْخَلْقِ کُلهم .
من گلدستہ حدیث بتغیر یسیر :  اکبر حسین اورکزئی

٭…٭…٭

کوئی تبصرے نہیں: