پیر، 15 جنوری، 2018

حقوقِ مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم

عَنْ أَبِیْ  هریْرَۃ ؓ أَنَّ رَسُوْلَ الله قَالَ: ’’کُلُّ أُمَّتِیْ یَدْخُلُوْنَ الجَنة، إِلاَّ مَنْ أَبٰی، قِیْلَ: ’’وَمَنْ يأَبٰی؟‘‘ قَالَ : ’’مَنْ أَطَاعَنِیْ دَخَلَ الْجَنة، ومَنْ عَصَانِیْ فَقَدْ أَبٰی۔‘‘ (رواہ البخاری،  مشکوٰۃ/ ص:۲۷/ باب الاعتصام بالکتاب والسنة/ الفصل الأول)
ترجمہ :   حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم  نے ارشاد فرمایاکہ ’’میری تمام امت جنت میں داخل ہوگی؛ مگر وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوگا جس نے میرا انکار کیا، پوچھاگیا: ’’اے اللہ کے رسول! انکارکرنے والا کون ہے؟‘‘ فرمایا:’’جس نے میری اطاعت کی وہ (امتی) جنت میں داخل ہوگا، اورجس نے میری نافرمانی کی اس نے میرا  انکار کیا۔‘‘
حقوقِ مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم  کی اہمیت: اللہ رب العزت نے ہمیں بلا کسی استحقاق کے محض اپنی عنایت سے جس عظیم الشان اورجلیل المرتبت نبی صلی اللہ علیہ و سلم  کی امت میں پیدافرمایااس کا شکر اور تقاضا یہ ہے کہ اس نبی کے جو حقوق ایک امتی ہونے کی حیثیت سے ہم پر عائد ہوتے ہیں ، ہم اُنہیں جانیں اوراُنہیں اداکرنے کا پورا اہتمام کریں ،  حقوقِ مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم  کی اتنی زیادہ اہمیت ہے کہ اُنہیں جانے اوراداکیے بغیر نہ ہمارے ایمان واعمال میں کمال پیداہوسکتاہے اورنہ ہم رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم  کی ہدایات و تعلیمات سے کما حقہ فائدہ اٹھاکر دارین کی سرخ روئی حاصل کرسکتے ہیں ۔ حقوقِ مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم  کی اسی عظمت واہمیت کے پیش نظر علمائِ امت نے قرآن وحدیث کی روشنی میں انہیں بالتفصیل بیان کیا، جن میں سے چار حقوق کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔
پہلا حق تصدیق رسالت:امت محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر حقوقِ مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم  میں سے پہلا حق تصدیق رسالت ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت اور رسالت پر ایمان لایاجائے، جس طرح اللہ رب العزت کی ربوبیت والوہیت اوراسلام کی حقانیت پر ایمان لانا ضروری ہے، اسی طرح رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم  کی نبوت و رسالت پر بھی ایمان لانا ضرور ی ہے، قرآنِ کریم میں مختلف مقامات پر ہمیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم  پر کامل اورمکمل ایمان لانے کی تاکید کی گئی ہے، چنانچہ ایک جگہ ارشاد فرمایا:            {یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ} (النساء : ۱۳۶)اے حسنِ ازل سے پیمانہ ٔوفا باندھنے والو! اے اپنے معبود کی الوہیت اورربوبیت کا اقرار کرنے والو! اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم  پر ایمان لاکر اپنی وفا داری کا ثبوت پیش کرو۔ ایک اورمقام پر فرمایا :      { إِنَّا أَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا لِتُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ وَتُعَزِّرُوْہُ وَتُوَقِّرُوْہُ وَتُسَبِّحُوْہُ بُکْرَۃً وأَصِیْلاً} (الفتح : ۸-۹)میرے محبوب! ہم نے آپ کو (دین حق کی) گواہی دینے والا اور(اہل ایمان کے لیے جنت کی)خوشخبری دینے والا اور (بے ایمان کے لیے جہنم سے) ڈرانے والا بناکر بھیجاہے، تاکہ (اے ایمان والو!)تم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم  پر (کامل اور مکمل) ایمان لاؤ  اور اس کی مدد کرو اور اس کو بزرگ سمجھو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرو۔  یہ پہلا حق ہے جو ان آیات میں بیان کیا گیا، اُسے اداکیے بغیر تو کلمہ بھی مکمل نہ ہوگا، دیکھئے نا! اگرکوئی شخص ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کا تواقرار کرے؛ لیکن ’’محمد رسول اللہ‘‘ پر ایمان نہ لائے، تو نہ اس کا کلمہ مکمل ہے، نہ ایمان معتبرہے، کلمہ اورایمان کی تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی الوہیت و ربوبیت کے ساتھ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  کی نبوت اورسالت پر بھی ایمان لایاجائے، اورآپ صلی اللہ علیہ و سلم  پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کو اللہ تعالیٰ کا سچا اورآخری رسول مان کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کی دی ہوئی ہدایات کے صحیح اور سچاہونے کا یقین رکھے، کیوں کہ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کی ذات پر ایمان لانا ضروری ہے، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کی ہدایات اور تعلیمات پر ایمان لانا بھی ضروری ہے،اس سلسلہ میں ہمارا یقین یہ ہو کہ ہماری آنکھ غلط دیکھ سکتی ہے، کان غلط سن سکتے ہیں ، زبان غلط چکھ سکتی ہے، ہاتھ چھونے اور محسوس کرنے میں غلطی کرسکتے ہیں ؛ لیکن جو ہدایات و تعلیمات صحیح اور مستند طریقہ پر رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم  سے ثابت ہیں وہ کبھی غلط نہیں ہوسکتیں ۔صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا ایمان و یقین ایسا ہی تھا، چنانچہ اس سلسلہ میں ایک واقعہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے تین صاحب زادوں میں حضرت قاسم اور حضرت عبداللہ (جن کو طاہر و طیب بھی کہا جاتا ہے) تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے تھے، لیکن تیسرے صاحب زادے حضرت ابراہیم حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی ام ولد حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا سے تھے، جب حضرت ابراہیم کا بھی انتقال ہو گیا تو حضرت ماریہ بہت زیادہ رنجیدہ ہوئیں ، حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مرتبہ ان کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ کیوں اتنی حزین و غمگین ہو؟ ہمارا بیٹا تو جنت کے باغوں میں ٹہل رہا ہے، آؤ! میں تم کو جنت میں ٹہلتا ہوا دکھلا دوں ، اس پر حضرت ماریہ نے عرض کیا: نہیں ، مجھے نہیں دیکھنا، مجھے اب صبر آگیا، بعد میں کسی نے اس کی وجہ دریافت کی، تو فرمایا: اگر میں دیکھ لیتی تو ایمان بالغیب نہ رہتا، کیوں کہ میرا ایمان و یقین یہ ہے کہ آنکھوں کا دیکھا ہوا غلط ہو سکتا ہے، لیکن حضور صلی اللہ علیہ و سلم  کا فرمان غلط نہیں ہوسکتا۔ (خطباتِ منو ّر:۳/۱۶۲)       ہمارا بھی ایمان و یقین ایسا ہی ہونا چاہیے، مثلاًآپ صلی اللہ علیہ و سلم  کی ہدایات وتعلیمات ہیں کہ سچ میں نجات اورجھوٹ میں ہلاکت ہے، وغیرہ، اب حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں ؛ مگر ان ہدایات و تعلیمات کے سچا ہونے پر ہمارا یقین ہو، اوراسی کے مطابق عمل بھی ہو، تو زندگی میں ایک صالح انقلاب پیداہوگا،اوریہ ایمانِ کا مل کی علامت ہونے کے ساتھ ایمان واعمال میں حلاوت کا سبب بھی ہے۔   حدیث ِ پاک میں وارد ہے:
عَنِ العَبَّاسِ بْنِ عَبْدِالمُطَّلِبِؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ الله : ’’ ذَاقَ طَعْمَ الإِیْمَانِ مَنْ رَضِيَ بِالله رَبًّا وَ بِالإِسْلاَمِ دِیْنًا وَ بِمُحَمَّدٍ رَسُوْلاً۔‘‘ (مسلم،   مشکوٰۃ المصابیح / ص:۱۲)  
ترجمہ :    جس نے دل سے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت، اسلام کی حقانیت اورحضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت کو کما حقہ مان لیا، اس نے ایمان کی حلاوت کو پالیا۔     اس کے برخلاف جس شخص کا آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان مکمل نہیں ؛بلکہ کھوکھلا ہے، دوسرے لفظوں یوں کہیے کہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات پر ایمان ہے؛ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بات پر ایمان نہیں ، یاکمزورایمان ہے، تو وہ یہی سوچے گاکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ہدایات و تعلیمات جو بھی ہوں ؛ مگر لذت حرام میں ، کثرت سود میں اور نفع جھوٹ میں ہے،  (نعوذ باللّٰہ من ذلک)  ظاہر ہے کہ ایساشخص آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کی ہدایات و تعلیمات سے کیسے فائدہ اٹھاسکتاہے؟ جس کا آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کی ذات اورہدایات پر مکمل ایمان نہیں ۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم  پر ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالیٰ کا سچا و آخری رسول مان کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کی تمام ہی ہدایات کے صحیح ہونے کا مکمل یقین رکھیں اور ان کے مطابق ساری زندگی عمل کریں ، امت محمدیہ پر حقوقِ مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم  میں سے پہلا حق یہی ہے۔
دوسراحق عظمت:دوسرا حق امت ِمحمدیہ پرحقوقِ مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم  میں سے جو آیت کریمہ میں بیان ہوا وہ یہ ہے کہ ہمارے سینوں میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بے پناہ توقیر اور عظمت ہو، کیوں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم  پر کامل اورمکمل ایمان لاناضروری ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ کے دین کی نصرت اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم  کی عظمت بھی ضروری ہے، چنانچہ فرمایا:{ لِتُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ تُعَزِّرُوْہُ وَ تُوَقِّرُوْہُ} (الفتح : ۹)     ایمان کے ساتھ عظمت اس لیے بھی ضروری ہے کہ نبی اورامتی کاتعلق محض قانونی نہیں ؛ بلکہ ایمانی و روحانی بھی ہے، اور اس تعلق میں نمایاں پہلو تعظیم و توقیر کاہے، اسی کے پیش نظر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی:{ یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَيِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ وَاتَّقُوْا اللّٰہَ إِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَرْفَعُوْا أَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْہَرُوْا لَہُ بِالْقَوْلِ کَجَہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُکُمْ وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ}(الحجرات : ۱-۲)   ان آیات میں بطورِ خاص اہل ایمان کو دو آداب تلقین فرمائے گئے ہیں :
(۱)       اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم  سے قول وعمل میں سبقت نہ کرو۔ یہی عظمت کا تقاضا ہے۔
(۲)      اور دوسرا ادب یہ تلقین کیاگیاکہ اپنی آواز کو پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم  کی آواز سے پست رکھو کہ یہ ادب و عظمت کے خلاف ہے، ان آداب و آیات کے نازل ہونے کے بعد حضرات صحابہ ؓ  کا حال یہ تھا کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ و سلم  کی خدمت میں نہایت ادب و احترام کے ساتھ باوضو حاضر ہوتے، اورمجلس نبوی میں اس طرح سکون سے بیٹھتے جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہوں ، مجلس نبوی کی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے صحابی ٔرسول صلی اللہ علیہ و سلم  حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہما  فرماتے ہیں : ’’کَأَنَّ عَلٰی رُؤُوْسِنَا الطَّیْرَ۔‘‘(ابن ماجہ، مشکوٰۃ/ص:۱۴۹/ باب دفن المیت)            ’’گویا ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے تھے۔‘‘ یعنی انتہائی سکون اور خاموشی کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔       اگر حضرات صحابہ کسی بات پرحضور صلی اللہ علیہ و سلم  کی خفگی و ناراضگی محسوس کرتے تو فوراً کہتے: ’’میں اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم  کے غصہ سے پناہ مانگتاہوں ۔‘‘ (مجھے سب کچھ منظور ہے؛ مگر اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم  کی ناراضگی ہرگز گوارانہیں )   ’’ أَعُوْذُ بِالله مِنْ غَضَبِ الله وَ غَضَبِ رَسُوْله۔‘‘ (مشکوٰۃ / ص:۳۲)       حتی کہ جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم  سے بات کرنے کی نوبت آتی تو آواز بھی اتنی پست ہوتی کہ صرف حضوراکرم صلی اللہ علیہ و سلم  ہی ا ن کی بات سن سکیں ، اورانداز بھی ایساگویارازکی باتیں کی جارہی ہیں ۔(تفسیر انورالبیان ص۱۶۷) واقعہ یہ ہے کہ حضرات صحابہ ؓ کے دل میں رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم  کی جو عظمت تھی اوران کے عمل سے ادب و احترام کا جو اظہار ہوتاتھا،انسانی تاریخ میں کہیں اس کی کوئی مثال نہیں مل سکتی، اوراس بات کا اعتراف بہت پہلے رئیس مکہ عروہ بن مسعود ثقفی (جو بعد میں مسلمان ہو گئے، انہوں )نے کیا، جب انہوں نے صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرات صحابہؓ کے دلوں میں عظمت ِرسول صلی اللہ علیہ و سلم  کابے پناہ جذبہ دیکھا، تو اسے مکہ واپس جاکر اپنی قوم کے سامنے اس طرح بیان کیا:         ’’ أَيْ قَوْمِ ! لَقَدْ وَفَدْتُ عَلَی المُلُوْکِ، وَ وَفَدْتُ عَلیٰ قَیْصَرَ وَ کِسْریٰ وَ النَّجَاشِيِّ، وَالله ! إِنْ رَأَیْتُ مَلِکًا قَطُّ یُعَظِّمُہٗ أَصْحَابه مَا یُعَظِّمُ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ مُحَمَّدًا، وَالله ! إِنْ تَنَخَّمَ نُخَامة إِلاَّ وَقَعَتْ فِیْ کَفِّ رَجُلٍ مِّنهم، فَدَلَکَ بِها وَجْھَہٗ وَ جِلْدَہٗ، وَ إِذَا أَمَرَھُمْ ابْتَدَرُوْا أَمْرَہٗ، وَ إِذَا تَوَضَّأَ کَادُوْا یَقْتَتِلُوْنَ عَلٰی وَضُوْئِ ہٖ، وَ إِذَا تَکَلَّمَ خَفَضُوْا أَصْوَاتَھُمْ عِنْدَہٗ، وَ مَا یُحِدُّوْنَ إِلَیْہِ النَّظَرَ تَعْظِیْمًا لَہٗ۔‘‘(بخاری/ص:۳۷۹ / المجلد الأول/ باب الشروط فی الجھاد والمصالحۃ)    ترجمہ  :    اے لوگو!(اللہ کی قسم) میں بادشاہوں اورقیصر وکسری و نجاشی کے درباروں میں گیاہوں ؛ مگربخدا  !میں نے کبھی کہیں کسی بھی بادشاہ کو ایسانہیں دیکھا کہ اس کے درباری اس کی اتنی تعظیم کرتے ہوں جتنی کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم  کے صحابہ اُن کی کرتے ہیں ، حد یہ ہے کہ آپ کا تھوک بھی ان کے ہاتھ پر ہی گرتاہے، جسے وہ اپنے چہرے اور بدن پر مل لیاکرتے ہیں ، جب ان کو کوئی حکم دیتے ہیں تو وہ اس کو بجالانے میں جلدی کرتے ہیں ، جب آپ وضو کرتے ہیں تو آپ کے مستعمل پانی کو لینے میں ایک دوسرے پر سبقت کرتے ہیں ، جب آپ گفتگو فرماتے ہیں تو عظمت کے پیش نظر آپ کے سامنے اپنی آواز کو پست کرلیتے ہیں ، وہ آپ کی طرف تیز نظر سے دیکھتے تک نہیں ۔            غرض، حضرات صحابہؓ کے مقدس دلو ں میں رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم  کی بے پناہ عظمت تھی، اور جیسے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی حیاتِ مبارکہ میں حضرات صحابہؓ  آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کی توقیر و تعظیم کرتے تھے ایسے ہی ہمارے لیے آج بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی توقیر و تعظیم ضروری ہے۔
عظمت ِرسول صلی اللہ علیہ و سلم کا تقاضا : آج عظمت ِرسول صلی اللہ علیہ و سلم کا تقاضہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پہنچائے ہوئے تمام احکام  اور ارشاد فرمودہ کلام (جو صحیح اورمستند طریقوں سے ثابت ہواس) کی عظمت ہمارے سینوں میں ہو، اورجس طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کی موجودگی میں حکم تھا کہ {لاَ تَرْفَعُوْا أَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ}  آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کے سامنے اپنی آواز بلند نہ کرو، کہ یہ عظمت اورادب کے خلاف ہے، اسی طرح آج آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کے روضۂ اقدس کے پاس آواز بلند کرنا،حتٰی کہ بلند آواز سے صلوٰۃ وسلام پیش کرناعظمت و ادب کے خلاف ہے۔                        
      ؎  لے سانس بھی آہستہ کہ یہ دربار ہے نبی کا           ٭            خطرہ ہے بہت سخت یہاں بے ادبی کا 
نیز جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کلام فرماتے تھے تو اسے ادب و عظمت سے سننا واجب تھا، اسی طرح آج بھی جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کا کلام یعنی حدیث وغیرہ سنائی اور بیان کی جائے تو ادب و عظمت کے ساتھ اسے بھی سننا ضروری ہے، اس موقع پر شور و شغب کرنااور بلا کسی عذر کے چلے جانا خلافِ ادب بلکہ محرومی ہے۔   
الحمد للہ ! ہمارے علماء نے اس کا بہت اہتمام کیا،چنانچہ امام مالکؒ جیسے جلیل القدر محدث وفقیہ کاحال یہ تھا کہ جب حدیث کادرس دینا ہوتاتو غسل کر کے تشریف لاتے، اچھے کپڑے زیب تن فرماتے، عمدہ خوشبو لگاتے، اوربہت ہی وقار اوراحترام کے ساتھ حدیث کا درس دیتے۔ ایک مرتبہ دورانِ درسِ حدیث ایک بچھو کپڑے میں گھس گیا، بچھو نے پشت میں کئی ڈنک مارے، تکلیف کی شدت سے آپ کے چہرہ کارنگ متغیر ہوگیا؛ لیکن در سِ حدیث کاسلسلہ منقطع نہیں فرمایا، آپؒ نے اسے عظمت ِحدیث کے خلاف سمجھا، درس ختم ہونے کے بعد جب کرتہ کے اندر دیکھا تو بچھو  اور  اس کاڈنک نظر آیا۔(الدیباج ا     لمذہب /ص:۱۹، از :’’پیام سیرت‘‘  /ص:۲۵۹)        گویاان کے یہاں بچھو کے کاٹنے کی تکلیف تو معمولی چیز تھی؛ مگرکلامِ مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم  کی عظمت بڑی اہم بات تھی۔
ایک نصیحت آموز واقعہ  : اسی طرح جمعیت علمائِ ہند کے صدر اور متحدہ ہندوستان کے مفتی ٔ اعظم حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحبؒ  کا ایک بڑا نصیحت آموز واقعہ ہے کہ آپؒ جامعہ امینیہ دہلی میں دورۂ حدیث شریف پڑھاتے تھے، وہاں ایک سال دورہ میں مولوی عبدالحق نامی طالب علم نے ایک خواب دیکھا، درسِ حدیث کی مسند پر مفتی صاحب کی جگہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم تشریف فرما ہیں ، ریش مبارک سفید ہے اور مسلم شریف کی ایک حدیث پر محدثانہ کلام فرما رہے ہیں ، صبح طالب علم نے اجازت لے کر حضرت سے جب خواب بیان کیا تو سنتے ہی مفتی صاحب اپنی مسند سے کھڑے ہو گئے اور فرمایا: مولوی عبدالحق! قبلہ رُخ کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر کہو کہ واقعی تم نے اس طرح خواب دیکھا ہے، جب انہوں نے حکم کے مطابق کیا تو فوراً مفتی صاحب مسند سے ہٹ کر سامنے بیٹھ گئے اور فرمایا: ’’مولوی عبدالحق! خواب تو سچا ہے، مگر تمہارا ایمان کمزور ہے، لہٰذا اس کی فکر کرو، کیوں کہ تم نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی داڑھی سفید دیکھی ہے، حالاں کہ وہ سیاہ تھی۔‘‘ اس کے بعد مفتی صاحبؒ ادب اور عظمت کی وجہ سے اس مسند پر نہ بیٹھے، معاملہ اگرچہ خواب کا تھا، لیکن بات ادب و عظمت کے اعلیٰ مقام کی تھی۔ (کرنیں : ۷۹)    
صاحبو! حضور صلی اللہ علیہ و سلم  کی یہ تعظیم بھی تقویٰ کی اہم علامت ہے، کیوں کہ قرآنِ کریم میں شعائر اللہ کی تعظیم کو دل کے تقویٰ کی علامت قراردیاگیا، چنانچہ فرمایا:{وَمَنْ یُعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللّٰہِ فَإِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ} (الحج : ۳۲) اللہ تعالیٰ کے شعائر کی تعظیم دل کے تقویٰ کی نشانی ہے۔ اب یہ شعائر اللہ کیا ہیں ؟ تو اس سلسلہ میں مختلف اقوال منقول ہیں ، اتنی بات ضرور ہے کہ ہر وہ چیز جو ہدایت و عبادت کاذریعہ ہے وہ  شعائر اللہ میں داخل ہے، منجملہ ان کے چارچیزیں نہایت اہم ہیں ۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ حجۃ اللہ البالغہ میں فرماتے ہیں چار چیزیں اعظم شعائر اللہ سے ہیں یعنی اللہ کے شعائر میں چار چیزو ں کو خاص اہمیت حاصل ہے:            ۱-کلام اللہ۲-حضرت محمد رسول اللہ ۳-کعبۃاللہ۴-نماز۔ان کی تعظیم وہی کرے گا جس کا دل تقویٰ سے مالا مال ہوگا۔(گلدستۂ تفاسیر / ج:۶/ ص:۵۵۲)      معلوم ہواکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم  کی عظمت دل کے تقویٰ کی زبردست علامت ہے، اگر پہلے حق کی ادائیگی کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوسکتا، تو اس حق کی ادائیگی کے بغیرتقویٰ مکمل نہیں ہوسکتا۔
تیسرا حق محبت  :اس کے بعد امت محمدیہ (علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) پرحقوقِ مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم  میں سے تیسرا اہم حق  یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم  سے ایسی محبت کی جائے جو اپنی ذات، اہل و عیال، مال و منال اور سب سے بڑھ کر ہو، قرآن پاک میں اس حق کو اس طرح بیان فرمایا :   { قُلْ إِنْ کَانَ اٰبَاؤُکُمْ وأَبْنَاؤُکُمْ وإِخْوَانُکُمْ وأَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوْہَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَہَا أَحَبَّ إِلَیْکُمْ مِنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ وَجِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِہِ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَأْتِيَ اللّٰہُ بِأَمْرِہِ وَاللّٰہُ لَا یَہْدِیْ الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ} (التوبۃ:۲۴)   میرے محبوب! اپنی امت کو بتلادیجیے کہ تمہارے دل میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم  سے زیادہ محبت کسی اورکی نہیں ہونی چاہیے۔ امام قرطبیؒ فرماتے ہیں کہ ’’یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت کی فرضیت پر دلالت کرتی ہے،‘‘  اور فرمایا: ’’یہ محبت ہر عزیزاور پیاری چیز کی محبت پر مقدم ہے ۔‘‘(تفسیر قرطبی/ ج:۸/ص:۹۵،از:’’نبی الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم  سے محبت اور اس کی علامتیں ‘‘  ص:۲۲) اس لیے کہ محبت کے چاروں اسباب جمال، کمال، اتصال اور نوال کامل اورمکمل طور پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذاتِ اقدس میں موجود تھے، لہٰذا اس کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بعد سب سے زیادہ محبت آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے کی جائے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم  سے ایسی محبت کی جائے جیسے حضرات صحابہؓ نے کر کے دکھلائی۔ واقعہ یہ ہے کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم  سے شرعی، طبعی، عقلی، اختیاری اور غیر اختیاری غرض ہر طرح سے سب سے زیادہ اور سب سے سچی محبت رکھنے والے بلا مبالغہ حضراتِ صحابہؓ  ہی تھے،ان کی محبت میں فدائیت اورفنائیت تھی، اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم  سے زیادہ انہیں کوئی محبوب نہ تھا، شاعر کہتاہے:آپ  کی جس میں ہو نہ محبت دل ہے وہ ایمان سے خالیحبِ نبی ہے سب سے مقدم صلی اللّٰہ علیہ و سلم        حضراتِ صحابہ ؓ کے مقدس قلوب حضوراقدس  صلی اللہ علیہ و سلم  کی محبت سے کس قدر لبریز تھے اس کا اندازہ ان کی سیرت سے لگایاجاسکتاہے، ان کے حالات میں عجیب واقعات ملتے ہیں ۔
محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کے محبین کا حسین تذکرہ  : اگر اس موقعہ پر محمد عربی   صلی اللہ علیہ و سلم  کے محبین کا بطورِ نمونہ حسین تذکرہ کیا جائے تو سر فہرست سیدنا صدیق اکبرؓ  کانام نمایاں ہوگا، ابتدائِ اسلام کا ایک مثالی واقعہ یہ ہے کہ آپؓ  کو دین حق کے خاطر ظلم و ستم کا نشانہ بنایاگیا، آپؓ کے چہرے پر پھٹے ہوئے جوتوں سے مسلسل ضربیں لگائی گئیں اورسینہ پر سوار ہو کر اس قدر ماراگیاکہ چہرے کے اعضاء اورخد وخال کی تمیز مشکل ہوگئی، قبیلہ کے لوگ آپؓ  کو اس حال میں ایک کپڑے میں ڈال کر گھر لائے،   بے ہوشی طاری تھی، موت کااندیشہ تھا، مگر شام کے وقت جب انہیں ہوش آیا، تو اپنی فکرنہ کی، سب سے پہلے یہی پوچھا: ’’میرے محبوب صلی اللہ علیہ و سلم کاکیاحال ہے؟ ‘‘جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کی خیریت کی خبر سنائی گئی تب بھی اطمینان نہ ہوا، کہا: ’’ فَإِنَّ لِله عَلَيَّ أَنْ لاَ أَذُوْقَ طَعَامًا، وَ لاَ أَشْرَبَ شَرَابًا، أَوْ آتِيَ رَسُوْلَ الله ﷺ۔‘‘ (البداية و النهاية/ج:۲/ص:۲۹۰) اللہ کی قسم! میں اس وقت تک کھانے پانی کو ہاتھ نہ لگاؤں گا جب تک حضوراکرم صلی اللہ علیہ و سلم  کے دیدار سے اپنی آنکھوں کو روشن نہ کرلوں ۔     ایسے ہی محبین میں حضرت عبداللہ بن عبداللہ بن ابیؓ بھی تھے، آپؓ تونہایت مخلص صحابی تھے؛ مگر آپؓ  کا والد منافق تھا، اور آپؓ پر اپنے والد کامنافق ہونا بھی ظاہر ہوگیاتھا، ایک مرتبہ مدینہ طیبہ میں یہ افواہ پھیلی کہ حضورِاکرم صلی اللہ علیہ و سلم  عبداللہ بن ابی کے نفاق کی وجہ سے اس کے قتل کاحکم دینے والے ہیں ،یہ سن کر حضرت عبداللہ ؓ خود حاضر خدمت ہوئے اورعرض کیاکہ ’’حضور ! سننے میں آیا ہے کہ آپ میرے والد کے قتل کا حکم دینے والے ہیں ، اگرآپ کا یہ منشا ہو تو میں خود اپنے والد کا سر قلم کر کے ابھی خدمت اقدس میں پیش کرتاہوں ۔‘‘اسی طرح اس سلسلہ میں اس خاتون کاحیرت انگیز واقعہ بھی قابل ذکر ہے جس کو غزوۂ اُحد کے موقع پر باپ، بھائی اورپھرشوہر کی شہادت کی خبر دی جاتی رہی؛ مگر وہ ان سب کو نظر انداز کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  کی خیریت پوچھتی رہیں ، بالآخر جب انہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خیریت سنائی گئی، تو اب زیارت کے لیے بے چین ہوگئیں ، پھر زیارت کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کو سلامت پایا،توکہنے لگیں :
’’کُلُّ مُصِیْبة بَعْدَکَ جَلَلٌ۔‘‘(البدایۃ والنہایۃ/ج:۳/ص:۱۸۹)    میرے محبوب ! آپ کے سلامت ہوتے ہوئے ہر مصیبت ہیچ ہے،     یقینا ان حضرات صحابہؓ کے نزدیک اپنی ذات سے، باپ سے اور اہل و عیال سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم  محبوب تھے،  ہمیں حضور صلی اللہ علیہ و سلم  سے محبت کاطریقہ و سلیقہ حضرات صحابہ ؓ سے ہی سیکھنا چاہیے، پھر انہوں نے محبت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کے مرتبہ ومقام کا بھی لحاظ رکھا، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کی پسندو ناپسند کا بھی، لہٰذا ان د ونوں پہلوؤں کالحاظ رکھنا ہمارے لیے بھی ضروری ہے، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ حضورِاکرم صلی اللہ علیہ و سلم  ہماری محبت کے ہرگزمحتاج نہیں ، ہم گنہگار آپ صلی اللہ علیہ و سلم  سے محبت کریں یانہ کریں ، اس سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کی عظمت و رفعت میں کوئی فرق آنے والا نہیں ، کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم  تو حبیب اللہ ہیں ، اوراسی پر بس نہیں ؛ بلکہ اللہ تعالیٰ نے توآپ صلی اللہ علیہ و سلم  کے سچے محبوب کو اپنا محبوب بنانے کا فیصلہ فرمالیاہے:  { قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ} (آل عمران : ۳۱) اے میرے محبوب! آپ فرمادیجیے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہو تو میرا اتباع کرو، اللہ تعالیٰ تمہیں بھی اپنا محبوب بنا لیں گے۔‘‘   اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو تو ہماری محبت کی ضرورت نہیں ؛ البتہ ہمیں حصولِ ثمرات اور دارین کی نجات کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم  سے محبت کی بہت ہی زیادہ ضرورت ہے۔
حب ِنبوی کے ثمرات و فوائد  : چنانچہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ و سلم  کی محبت کے ثمرات و فوائد میں سے ایک اہم ثمرہ وفائدہ دنیامیں ایمان کی حلاوت ہے، اوردوسرے آخرت میں حضورِاکرم صلی اللہ علیہ و سلم  کی معیت ہے، حدیث ِپاک میں ہے :
 عَنْ أَنَسٍؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ الله : ’’ ثَلاَثٌ مَنْ کُنَّ فِیه وجَدَ بِهنَّ حَلَاوَۃ الإِیْمَانِ، مَن کَانَ الله وَرَسُوْلُہٗ أَحَبَّ إِلَیه مِمَّا سِوا َهما، وَمَنْ أَحَبَّ عَبْداً لاَ یُحِبه إِلاَّ لِله، وَمَنْ یَّکْره أَنْ یَعُوْدَ فِیْ الْکُفْرِ بَعْدَ أَنْ أَنْقَذَہٗ الله مِنه، کَما یَکْره أَنْ یُّلْقٰی فِیْ النَّارِ۔‘‘ (متفق علیہ، مشکوٰۃ / ص: ۱۲)         
ایمان کی حلاوت اورمٹھاس اس خوش نصیب نے حاصل کرلی جس میں تین خصلتیں موجود ہوں :
۱-        اوّل یہ کہ اس کے دل میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم  کی محبت سب سے زیادہ ہو۔           
۲-      دوم یہ کہ جس کسی سے بھی محبت کرے صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی غرض سے محبت کرے۔    
۳-       سوم یہ کہ جس خوش نصیب کو اللہ تعالیٰ نے کفر کے اندھیرے سے بچا کر نورِ ایمانی سے منور فرمایا وہ اسلام چھوڑنے کو اسی طرح ناپسند کرے جس طرح آگ میں ڈالے جانے کوناپسند کرتا ہے۔
یہاں ایمان کی حلاوت کے حصول کے جو اسباب بیان فرمائے ان میں پہلا ہی سبب اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم  کی سچی محبت ہے، اس محبت کے نتیجہ میں عبادات و اعمال میں ایک طرح کی حلاوت نصیب ہوگی، حتیٰ کہ پھر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی رضا مندی کے خاطر ہر طرح کی مشقتیں برداشت کرنابھی آسان ہوجائے گا۔آج اگرہمیں عبادات و اعمال میں مزہ نہیں آتا تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم  سے ہماری محبت میں کچھ خامی ہے، اسی لیے کہا ہے  :محمد کی محبت دین حق کی شرطِ اول ہے اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہےجو لوگ محمد کے وفادار نہیں ہیں  اللہ کی رحمت کے وہ حق دارنہیں ہیں حاصل ہے جنہیں عشق محمد کا خزانہ کونین کی دولت کے وہ طلبگار نہیں ہیں      حب ِنبوی کادوسرااہم ثمرہ اورفائدہ آخرت میں یہ ہوگاکہ اس کے نتیجہ میں رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم  کی معیت نصیب ہوگی۔ حدیث ِپاک میں واردہے کہ ایک صحابی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے : ’’یارسول اللہ ! قیامت کب آنے والی ہے؟‘‘  آپ نے فرمایا: ’’تم نے اس کے لیے کیا تیاری کی ہے؟‘‘  عرض کیا :’’إِنِّیْ أُحِبُّ الله وَ رَسُوْله ۔‘‘میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم  سے محبت رکھتا ہوں ، اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :’’انْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ۔‘‘ (متفق علیه، مشکوٰۃ/ص:۴۲۶/ باب الحب فی الله ومن الله) جس کی محبت تمہارے دل میں ہے تمہیں قیامت میں اس کی معیت ملے گی۔         پتہ چلا کہ دل میں اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت ہے توکل قیامت میں ان ہی کی معیت نصیب ہوگی، اور ظاہر ہے کہ اس سے بڑی دولت اورکیاہوسکتی ہے۔ (رزقنا الله تعالیٰ إیاہ)           لیکن یادرکھو کہ حب رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی سب سے بڑی علامت آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کا اتباع و اطاعت ہے، اس کے بغیر محبت دراصل منافقت ہےنہ کر دعویٰ محبت کا، اطاعت گرنہیں تجھ میں سند تیری محبت کی، یہی معلوم ہوتی ہے.
چوتھا حق اطاعت  :اسی لیے علماء نے فرمایا کہ امت محمدیہ پر حقوقِ مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم  میں سے چوتھا حق آپ کی اطاعت و اتباع کرناہے،  یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دیے ہوئے تمام احکام کو قبول کرنا اوران کے مطابق زندگی کے ہرشعبہ میں عمل کرنا،اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کے نقش قدم پر چلنا، اس حق کو بھی قرآنِ کریم میں کئی مواقع پر بیان کیاگیا، ایک مقام پر فرمایا        
{وَ مَا اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ ق وَ مَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا} (الحشر : ۷)اس آیت کریمہ میں اسی حق کوبیان کیا گیاہے،اب یہاں اطاعت و اتباع کافرق بھی سمجھ لیناچاہیے، کہ اطاعت کامطلب ہے دیے ہوئے حکم کی تعمیل کرنا، مگر اتباع کا مطلب پیروی کرنا، خواہ اس کام کا باقاعدہ حکم دیاگیاہو یانہ دیاگیاہو۔اس لیے عاجز کا خیالِ ناقص یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کی اطاعت محبت کی علامت ہے، تواتباع انتہائی محبت یعنی عشق کی علامت ہے،اس کے بغیر محبت کادعویٰ محض دکھلاوا بلکہ منافقت ہے، وہی محبت معتبر ہے جس کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کی کامل اطاعت اور مکمل اتباع بھی ہو، اورحضور  پاک صلی اللہ علیہ و سلم  سے ایسی محبت جو اطاعت و اتباع کے ساتھ ہو اس کا ایک بہت بڑافائدہ تویہ ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی محبت نصیب ہوتی ہے، دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ گناہوں کی معافی اورمغفرت ملتی ہے، اورتیسرا عظیم فائدہ یہ ہے کہ یہ اطاعت حصولِ جنت کا سبب ہے، قرآنِ پاک میں فرمایا:
{ قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَحِیْمٌ} (آل عمران:۳۱) محبوبم! کہہ دیجیے! کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو اوراس کی محبت حاصل کرناچاہتے ہو تویہ بہت بڑی بات ہے جو تمہارے بس میں نہیں ؛ البتہ اگر تم میری اطاعت اوراتباع کرلو، تو اس کے نتیجہ میں خود رب العالمین تم سے محبت کرنے لگے گا،پھر تمہارے گناہوں کو بھی معاف کردے گا، کہ وہ بڑاہی غفورو رحیم ہے۔       
آیت کریمہ میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ و سلم  کے اتباع پر دو عظیم فوائد یعنی اللہ تعالیٰ کی محبت اورگناہوں کی مغفرت بیان فرمائے گئے۔ دوسرے مقام پر حضوراکرم صلی اللہ علیہ و سلم  کی اطاعت پر جنت کی بشارت آئی ہے۔جس کی تفصیل روایتوں میں اس طرح ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم  کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبانؓ  کو بھی دیگر صحابہؓ کی طرح حضور صلی اللہ علیہ و سلم  سے بہت ہی زیادہ محبت تھی، ایک مرتبہ خدمت اقدس میں حاضرہو کر عرض کرنے لگے :’’یارسول اللہ ! آپ مجھے میری جان اور اہل و عیال سے بھی بہت ہی زیادہ عزیز ہیں ، سچی بات یہ ہے کہ گھر بیٹھے جب آپ کی یاد آتی ہے تومجھے اس وقت تک چین نہیں آتا جب تک حاضر خدمت ہو کر دیدار سے مشرف نہ ہوجاؤں ، لیکن جب میں اپنی اورآپ کی موت کا تصور کرتاہوں تواس خیال سے فکر مند ہوجاتاہوں کہ آپ تو جنت کے سب سے ا علیٰ مقام پر ہوں گے، اور مجھے اپنے بارے میں کچھ معلوم نہیں ، پھر اگرجنت میں اللہ کے فضل سے داخل کربھی دیاگیا، تو آپ کے اورمیرے مقام میں بہت فرق ہوگا، لہٰذا وہاں آپ کادیدار نہ ہوسکے گا، اورجس جنت میں آپ کی زیارت نہ ہو، وہ جنت بھی کس کام کی!‘‘  اس موقع پر یہ آیت کریمہ لے کر حضرت جبرئیل امین علیہ السلام تشریف لائے: { وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓـئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ أَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَآئِ وَالصّٰلِحِیْنَ} (النساء : ۶۹) اس آیت میں اطاعت کرنے والو ں کے لیے جنت کی بشارت آئی ہے۔  (معالم التنزیل:۱/۴۵۰ ، از : تفسیر انوارالبیان :۱/۶۴۷)    
مذکورہ حدیث میں بھی اسی کی وضاحت ہے، فرمایا: ’’کُلُّ أُمَّتِیْ یَدْخُلُوْنَ الجَنة إِلاَّ مَنْ أَبٰی‘‘ میری تمام امت (اجابت) جنت میں داخل ہوگی؛ مگر وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوگاجس نے انکار کیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال کیاگیاکہ وہ کون آدمی ہے جس نے انکار کیا؟ فرمایا :’’مَنْ أَطَاعَنِیْ دَخَلَ الجَنة‘‘ جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگا،اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے دراصل میراانکار کیا۔معلوم ہواکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت و اتباع اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم  سے محبت، مغفرت، اوردخولِ جنت کاذریعہ ہے، اور اِن چیزوں کا حصول آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کے حقوق کو اداکیے بغیر ممکن نہیں ، اس لیے دارین کی سرخروئی حاصل کرنے کے لیے حقوقِ مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کو مکمل طور پر اداکرنا لازم اورضروری ہے۔اللہ تعالیٰ توفیق مرحمت فرمائیں ۔ آمین یا رب العالمین

( اَللهم صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ کُلَّمَا ذَکَرَهُ الذَّاکِرُوْنَ، وَ کُلَّمَا غَفَلَ عَنْ ذِکْرِہ الْغَافِلُوْنَ)          
بحوالہ گلدستہ حدیث   بتغیر یسیر :  اکبر حسین اورکزئی 
                                                            ٭…٭…٭

کوئی تبصرے نہیں: