جمعرات، 4 جنوری، 2018

شرحِ صدر اور اس کی علامتیں


عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍؓ  قَالَ:’’ تَلاَ رَسُوْلُ الله: { فَمَنْ یُّرِدِ الله أَنْ یهديه یَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلْإِسْلَامِ}  فَقَالَ رَسُوْلُ الله: ’’إِنَّ النُّوْرَ إِذَا دَخَلَ الصَّدْرَ اِنْفَسَحَ، فَقِیْلَ: ’’یَا رَسُوْلَ الله! هل لِتِلْکَ مِنْ عَلَمٍ یُعْرَفُ بِه ؟ قَالَ: ’’ نَعَمْ، التَّجَافِیْ عَنْ دَارِ الْغُرُوْرِ، وَالإِنَابةُ إِلٰی دَارِالْخُلُوْدِ، وَالْاِسْتِعْدَادُ لِلْمَوْتِ قَبْلَ نَزُوْلهِ‘‘۔(رواہ البیهقی فی شعب الإیمان، مشکوۃ/ص: ۴۴۶/کتاب الرقائق/الفصل الثالث)
ترجمہ  :   حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ  فرماتے ہیں، رحمت عالم   صلی اللہ علیہ و سلم  نے آیت کریمہ ’’فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ…الخ‘‘ تلاوت فرمائی، (جس کا مطلب یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ جب کسی کو خاص ہدایت دینے کا ارادہ  فرماتے ہیں تو اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتے ہیں) پھر حضور   صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’بلا شبہ جب نور(ایمان) سینہ میں داخل ہوجاتا ہے توسینہ (فراخ اور) کشادہ ہو جاتا ہے، (صحابہؓ  میں سے) کسی نے عرض کیا: ’’یا رسول اﷲ! کیا اس کی کوئی علامت ہے جس سے وہ پہچانا جا سکے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’جی ہاں ،تین علامتیں حسب ذیل ہیں:
            ۱-          دار الغروریعنی دھوکہ کے گھر دنیا سے دور رہنا ۔        
            ۲-       دار الخلود یعنی ہمیشگی کے گھر مراد آخرت کی طرف رجوع کرنا ۔  
            ۳-       اور موت کے آنے سے قبل اس کی تیاری کرنا۔

شرحِ صدر کی اہمیت  : اس دنیا میں رائج تمام مذاہب وادیان میں دین اسلام کو یہ مقام حاصل ہے کہ وہ کائنات کے خالق و مالک کے نزدیک مقبول و پسندیدہ دین ہے، اسلام ہی انسان کا اصل رہبرہے، اور اسی پر اس کی نجات کا دارومداربھی ہے، مگر اس حقیقت کو وہی سمجھ سکتا ہے جسے شرحِ صدر نصیب ہو جائے، جس کے سینہ میں اسلام وایمان کا نور داخل ہو جائے، لیکن اﷲ پاک یہ انعام ہر ایک کو نہیں دیتے، بلکہ جس کے ساتھ محبت ہوتی ہے، جسے ہدایت سے مالامال کرنا چاہتے ہیں اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتے ہیں، اور پھر جیسے ہر چیز کو پہچاننے کا ایک خاص معیار ہے،اسی طرح جس کے سینہ میں نورِ ایمانی داخل ہو گیا، جسے شرحِ صدر نصیب ہو گیا، اس کے پہچاننے کا بھی ایک خاص معیار ہے۔شرحِ صدر کی علامات  :    حدیث مذکور میں فرمایا: ’’إِنَّ النَّوُرَ إِذَا دَخَلَ الصَّدْرَ اِنْفَسَحَ‘‘جب نورِ ایمان کسی کے سینہ میں داخل ہو جاتا ہے تو اس کا سینہ کھل جاتا ہے، فراخ اور کشادہ ہو جاتا ہے، پھر وہ اسلام کے تمام احکام کو قبول کرتاہے او ران کی ادائیگی میں پیش آنے والی دشواری و تلخی بھی اسے شیریں معلوم ہوتی ہے،کسی نے عرض کیا:’’ حضور ! اس کے پہچاننے کی کوئی خاص علامت بھی ہے؟‘‘ تو فرمایا: ہاں، تین علامتیں ہیں، وہ جس میں پائی جائیں تو سمجھ لو کہ نورِ ایمان اس کے سینہ میں داخل ہو گیا، اس کا دل نورانی ہو گیا، اور جس میں یہ تین علامتیں نہ پائی جائیں وہ دل نورانی نہیں ظلمانی ہے، اور دل نورانی ہوتا ہے ایمان اورنیکیو ں کے نور سے، جب کہ کفر ومعصیت کی ظلمت سے دل ظلمانی ہو جاتا ہے۔
دارالغرور سے دور رہنا   :  بہر حال شرح صدر کی پہلی علامت یہ ہے: ’’اَلتَّجَافِیْ عَنْ دَارِ الْغُرُوْرِ‘‘ دارِغرور (دھوکہ کے گھر ) سے دور رہنا، اس سے مراد دنیا کی حرام لذت او رزیب وزینت ہے، قرآنِ کریم نے حیاتِ دنیوی کو دھوکہ سے تعبیر فرماکراس پر آگاہ کیا ہے  :  {یٰٓأَیُّھَا النَّاسُ إِنَّ وَعْدَ اﷲِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّکُمُ الْحَیٰوۃ الدُّنْیَا} (فاطر : ۵)
او لوگو ! کان کھول کر سن لو ! بلا شبہ اﷲجل شانہ کا وعدہ حق ہے، لہٰذاکہیں ایسا نہ ہو کہ دنیا کی زندگی اور اس کی زیب و زینت تمہیں دھوکہ میں ڈال دے۔ 
مطلب یہ ہے کہ تم کہیں دارلغرورکی حرام لذتوں میں مشغول ہو کر یوم الموعود سے غافل نہ ہوجانا۔مولانا  رومؒ  فرماتے ہیں  :
زاں لقب شد خاک را  دار الغرورکو کشد مارا سپس یوم العبور .
اللہ تعالیٰ نے دنیا کو دارالغرور کالقب اس لیے دیاکہ آج جو دنیااوراس کی چمک دمک اس وقت ہمارے سامنے ہے،کل موت کے وقت یہ ساری چیزیں ہماراساتھ چھوڑ دیں گی۔ اسی لیے علماء نے دنیا کی زندگی اور اس کے مال و متاع کی مثال سراب(چمکتی ریت)  سے دی ہے،جس طرح سخت دھوپ میں ریگستانی ریت کو چمکتا ہوا دیکھ کر پیاسا اس کی طرف بڑھتا ہے، مگر جب قریب جاکر حقیقت معلوم کرتا ہے تو اُسے اپنے دھوکہ میں مبتلا ہونے کا احساس ہوتا ہے، بالکل اسی طرح دنیادار اس کی ظاہری چمک دمک کو دیکھ کر دھوکہ میں مبتلا ہوجاتے ہیں، پھر جب اس کی حقیقت کھلتی ہے تو بعض اوقات اکثر زندگی گذر چکی ہوتی ہے، یا کبھی اتنا وقت گذر چکا ہوتاہے کہ جس میں سوائے حسرت کے کچھ ہاتھ نہیں آتا، اس لیے قبل از وقت یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب دنیا دارالغرورہے تو اس سے محبت کرنا بھی فضول ہے، اور بے وقوف ہیں وہ لوگ جو اس کے حصول میں اللہ تعالیٰ ہی کوبھول گئے۔ العیاذباﷲ العظیم۔
ایک عبرت ناک واقعہ  : روایت میں ایک نہایت عبرت ناک واقعہ منقول ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص کا انتقال ہو گیا، وراثت کے معاملہ میں اس کے دو بیٹوں کے مابین دیوار کی تقسیم میں جھگڑا ہو گیا، جب معاملہ آگے بڑھ رہا تھا تو اچانک انہوں نے اس دیوار سے جس کے بارے میں جھگڑا ہو رہاتھا ایک آواز سنی، اُس عجیب و غریب غیبی آواز میں انہوں نے سناکہ  ’’تم دونوں جھگڑا مت کرو،میری حقیقت جان لو! میں ایک مدت تک اس دنیا میں بادشاہ رہا، پھر میرا انتقال ہو گیا، تو میرے بدن کے اجزاء مٹی کے ساتھ گھل مل گئے، اُس مٹی سے کمہا رنے مجھے گھڑے کی ٹھیکری بنادیا، اور ایک طویل مدت تک ٹھیکری کی صورت میں رہنے کے بعد مجھے توڑ دیا گیا، اس کے بعد ایک لمبی مدت تک ٹھیکری کے ٹکڑوں کی صورت میں رہنے کے بعد میں دوبارہ مٹی اور ریت کی صورت میں تبدیل ہوگیا، بعد میں لوگوں نے میرے اجزائِ  بدن کی مٹی سے اینٹیں بنا ڈالیں، اور آج تم مجھے اینٹوں کی شکل میں دیکھ رہے ہو،لہٰذا ایسی مذموم دنیا پر مت جھگڑو‘‘ ۔(از گلستان قناعت ص ۴۹۲، و بکھرے موتی ص ۳۶ جلد۲ ) .
کسی نے سچ کہاہے   :غرور تھا، نمود تھی، ہٹو بچو کی تھی صداآج تم سے کیا کہوں؟  لحد کا بھی نہیں پتہ تخت آرا تھا جو کل، وہ آج زیر خاک ہےعالم فانی کا یہ منظر، کتنا عبرت ناک ہے      آہ!
صاحبو! یہ دنیا کتنی پر فریب ہے؟ مگر اس کے باوجود دنیادار اس سے کتنے قریب ہیں ؟خوش نصیب وہ ہے جو اس کے دھوکے سے دور  رہے، ’’اللّٰھم اجعلنا منھم‘‘ آمین۔آخرت کی طرف رغبت  :          شرحِ صدر کی دوسری علامت ہے: ’’وَالإِنَابَۃُ إِلٰی دَارِالْخُلُوْدِ‘‘ دارالخلود  یعنی آخرت اور اس کے اعمال کی طرف رغبت، جس کی یہ کیفیت ہو جاتی ہے بس وہ ہر وقت آخرت کی تیاری اور اس کو سنوارنے کی فکر میں رہتا ہے، وہ ہر وقت آخرت کے نفع نقصان کو مد نظر رکھتا ہے، اپنا وقت اور اپنی دولت آخرت کی بہتری و بہبود ی کے لیے صرف کرتا ہے، وہ دنیا پر آخرت کو ترجیح دیتا ہے، نہ کہ آخرت کو دنیا پر۔
موت سے قبل اس کی تیاری  : شرحِ صدر کی  تیسری علامت حدیث میں یہ بیان فرمائی گئی: ’’وَ الْاِسْتِعْدَادُ لِلْمَوْتِ قَبْلَ نُزُوْلِہٖ‘‘مرنے سے قبل موت کی تیاری کرنا، یہ انسان کی دانائی اور عقلمندی کی بہت بڑی علامت ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کو اللہ تعالیٰ کے حکم کا مطیع بنائے اور مرنے کے بعد کی تیاری کر لے۔ (ترمذی، مشکوۃ /ص:۴۵۱).
موت سے قبل اس کی تیاری کی تین علامتیں  :    ملا علی قاری ؒ نے موت سے قبل مرنے کی تیاری کے لیے تین علامتیں ذکر فرمائی ہیں:      
۱-         توبہ کرنا ،یعنی تمام گناہوں (خواہ وہ حقوق العباد سے متعلق ہو ں یا حقوق اﷲ ) سے سچی پکی توبہ کر لینا ۔         
۲-        عبادتِ خداوندی میں کوشش کرنا (اور ہر وقت اس کے لیے اپنے آپ کو تیار رکھنا)۔     
۳-       اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی طاقت کو اس کی اطاعت میں خرچ کرنا۔
موت کی تیاری ہر وقت ضروری ہے  :  بہر حال موت سے قبل اس کی تیاری نہایت ضروری ہے، صوفیہ وصلحاء  نے اس کا خوب اہتمام کیا تھا، وہ اس سے ذرہ برابرغافل نہ رہے، علماء حضرات فرماتے ہیں کہ :’’موت کی تیاری ہر وقت ضروری ہے، کیوں کہ وہ کسی بھی وقت آسکتی ہے۔‘‘  
بقولِ شاعر: آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں  سامان سو برس کا، پل کی خبر نہیں         
موت کے لیے نہ کوئی بیماری ضروری ہے نہ بڑھاپا، بغیر بیماری اور بڑھاپے کے بھی موت آسکتی ہے، اس کا کوئی زمانہ اور وقت متعین نہیں، وہ کسی بھی وقت آسکتی ہے، اسی لیے عقلمندی یہی ہے کہ بندہ ہر وقت اس کی تیاری رکھے۔         حضرت لقمان علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’میں نے چار ہزار انبیاء علیہم السلام سے ملاقات کی، توچار باتیں ان میں مشترک پائیں، دو یاد رکھنے کی، اوردو بھلانے کی۔       یاد رکھنے والی چیزوںمیں سے ایک اللہ کی یادہے اوردوسری موت کی یادہے۔ اوربھلا نے والی دوچیزوں میں سے ایک نیکی کر کے بھول جانا، اور دوسری چیز احسان کر کے بھول جانا۔‘‘          حضرت رابعہ بصریہ ؒ کے متعلق آتا ہے کہ وہ ہمہ وقت عبادت میں مشغول رہتی تھیں، سوتی بہت کم تھیں، کسی نے وجہ دریافت کی، تو فرمایا:’’ ڈر لگتا ہے کہ کہیں سونے کی حالت میں موت واقع ہو جائے اور کلمہ نصیب نہ ہو، میں چاہتی ہوں کہ موت اس طرح آئے کہ اُس کے لیے پہلے سے تیار اور بیدار رہوں۔‘‘         
حضرت سفیان ثوریؒ فرماتے تھے کہ’’اگر ملک الموت آجائیں تو فوراً چل دوں،تھوڑی دیر بھی مہلت نہ مانگوں اتنا تیار بیٹھاہوں۔‘‘  الغرض شرحِ صدر کی تیسری علامت یہ ہے کہ موت سے قبل مرنے کی تیاری کی جائے۔   
اگرکسی خوش نصیب میں یہ علامات پائی جائیں تو سمجھ لیجئے اسے شرحِ صدر کی نعمت میسر ہوگئی۔
 اﷲ پاک ہم سب کو شرحِ صدر کی دولت سے مالا مال فرمائیں، آمین۔ وَ آخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔یَا رَبِّ صَلِّ وَ سَلِّمْ دَائِماً أَبَدًاعَلٰی حَبِیْبِکَ خَیْرِالْخَلْقِ کُلهم .
بحوالہ گلدستہ حدیث     بتغیر یسیر   :    اکبر حسین اورکزئی

٭…٭…٭

2 تبصرے:

Unknown کہا...

جزاک اللہ بہت عمدہ 😘

Unknown کہا...

عمدہ 💗