اتوار، 31 دسمبر، 2017

گمراہ علماء دجال سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔


عن اباذر رضی الله عنه قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَغَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُنِي عَلَى أُمَّتِي  قَالَهَا ثَلَاثًا. قَالَ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَا هَذَا الَّذِي غَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُكَ عَلَى أُمَّتِكَ قَالَ أَئِمَّةً مُضِلِّينَ . ( مسند امام احمد 20335، 21334 اور 21335]
"ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں ایک دن اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ تھا اور میں نے آپ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :"مجھے میری امت کے لئے دجال سے بھی زیادہ خدشہ (ایک اور چیز کا) ہے"آپ نے اس بات کو تین مرتبہ دہرایا ۔ میں نے کہا ! اے اللہ کے رسول ﷺ ، وہ کیا چیز ہے جس کا آپ دجال کے علاوہ اپنی امت پر خوف کر تے ہیں ؟ تو فرمایا "گمراہ  ائمہ"
( مسند امام احمد 20335، 21334 اور 21335] ۔ شیخ شعيب ارناوط اسے صحیح لغیرہ کہا (مستند شواہد کی وجہ سے) اپنےتحقیق مسند (1999 ء 35:21, 296-97 ) میں) -

------------------------------------------------------------------------------------------------
ف : کیا آپنے کبھی سوچا ہے کہ وہ رسول ﷺ جو دن رات اپنی امّت کو دجال کے فتنے سے خبردار کرتا رہے ، وہ گمراہ علماء کے فتنے کے بارے میں زیادہ فکر مند کیوں تھے؟
تو وضاحت کے لیے ایک مثال ملاحظہ ہوں:
تصور کریں کہ آپ اپنے بیٹے کو پہلی منزل سے نہ کودنے کو مسلسل خبردار کر رہیں ہیں ، لیکن ایک دن آپ اسکو بتاتے ہو کہ بیٹا مجھے پہلی منزل سے زیادہ تمہارے دوسرے منزل سے کودنے کا ڈر ہے- اصل میں اس بات اس کا مطلب یہ ہوگا کہ دوسری منزل سے کودنے کا خطرہ پہلی منزل سے بھی زیادہ ہے ۔ اس طرح گمراہ علماء دجال کے برابر خطرناک یا اس سے بھی بڑھکر ہیں۔
ابن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:
"كيف أنتم إذا لبستكم فتنة يهرم فيها الكبير, ويربو فيها الصغير, ويتخذها الناس سنة, إذا ترك منها شيء" قيل: تركت السنة؟ قالوا: ومتى ذاك؟ قال: "إذا ذهبت علماؤكم, وكثرت قُراؤكم, وقَلَّت فقهاؤكم, وكَثُرت أمراؤكم, وقلَّتْ أمناؤكم, والتُمِسَتِ الدنيا بعمل الآخرة, وتُفُقهَ لغير الدين . رواه الدرامي
 کیا حال ہوگا تمہارا جب تم کو فتنہ (آفت یعنی بدعت) اسطرح گھیر لے گی کہ ایک جوان اسکے ساتھ (یعنی اس کو کرتے کرتے) بوڑھا ہوجائےگا، اور بچوں کی تربیت اسی پر ہوگی، اور لوگ اس بطور سنّت لیں گے- توجب کبھی بھی اس (بدعت) کا کچھ حصہ لوگ چھوڑ دینگے، تو کہا جائے گا: " کیا تم نے سنّت کو چھوڑ دیا؟ انہوں (صحابہ) نے پوچھا: " ایسا کب ہوگا؟" آپﷺ نے فرمایا: جب تمہارے علماء فوت ہو گئے ہونگے ، قرآت کرنے والے کثرت میں ہونگے ، تمہارے فقہاء چند ایک ہونگے، تمہارے سردار کثرت میں ہونگے، ایسے لوگ کم ہونگے جن پر اعتبار کیا جا سکے، آخرت کے کام صرف لوگ دنیوی زندگی کے حصول کے لئے کرینگے، اور حصول علم کی وجہ دین کی بجاۓ کچھ اور ہوگا-
[ دارمی (٦٤/١) نے اسے دو اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے ، پہلی سند صحیح جبکہ دوسری حسن ہے- اسے حاکم ( ٥١٤/4) اور دوسروں نی بھی روایت کیا ہے]
اس حدیث کے بارے میں شیخ البانی رحم الله کہتے ہیں:
قلت:
وهذا الحديث من أعلام نبوته صلى الله عليه وسلم وصدق رسالته, فإن كل فقرةمن فقراته, قد تحقق في العصر الحاضر, ومن ذلك كثرة البدع وافتتانالناس بهاحتى اتخذوها سنة, وجعلوها ديناً يُتَّبع, فإذا أعرض عنها أهل السنة حقيقة, إلى السنة الثابتة عنه صلى الله عليه وسلم قيل: تُركت السنة .( قيام الرمضان )
میں کہتا ہوں : یہ حدیث رسول الله ﷺ کی نبوت و رسالت کی ایک نشانی ہے، کیوں کہ اسکا ایک ایک جز موجودہ دور میں وقوع پذیر ہو چکا ہے- اہل بدعت سے بدعات کے پھیلاؤ جاری ہیں ، اور لوگوں کے لئے یہ ایک امتحان ہے جس سے انکوں آزمایا جا رہا ہے- ان بدعات کو لوگوں نے بطور سنّت اپنا لیا اور دین کا حصہ بنا دیا ہے- پس جب اہل سنہ ان بدعات سے اس سنّت جو رسول الله ﷺ سے ثابت ہے ، کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں، تو کہا جائے گا: کیا سنّت کو رد کر دیا گیا ہے؟   [ قیام الرمضان :ص5-4، شیخ البانی رحم الله ]
رسول الله ﷺ کے ہر قول میں لازماً کچھ سیکھنے کےلئے اور غور و فکر کرنے کے لئے ہو گا- اسکی مزید وضاحت اگے اس مکالے میں ہوگی-
نقصان،جو جاہل اور عام لوگ اسلام اور مسلمانوں کو پہنچاتے ہیں۔
اس حدیث سے اور ایک فائدہ، حصول علم کی اہمیت معلوم ہوتا ہے، کہ کوئی شخص بُرائی کے چنگل سے نہیں بچ سکتا جب تک وہ اچھے بُرے کے درمیان فرق نہ جان لے ۔ اگر آپ نہیں جانتے تاریکی کیا ہے تو آپکو ہر طرف روشنی ہی روشنی لگے گی – یہ تا ہم آپکو ایک بےقوف یا دوسرے الفظ میں جاہل بنا دیگا۔ اس طرح ہم (مسلمانوں) کو علم حاصل کرنا چاہیے ، اور عمررضی اللہ عنہ نے اس بارے میں پہلے سے ہم کو خبردار کردیا۔

عَنِ الْمُسْتَظِلِّ بْنِ الْحُصَيْنِ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ:" قَدْ عَلِمْتُ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ مَتَى تَهْلِكُ الْعَرَبُ: إِذَا وَلِي أَمْرَهُمْ مَنْ لَمْ يَصْحَبِ الرَّسُولَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يُعَالِجْ أَمْرَ الْجَاهِلِيَّةِ۔
المُصتضل بن حُسین سے روائیت ہے میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا :
میں جانتا ہوں اور کعبہ کی رب کی قسم، کہ کب عرب (مطلب کے اسلام) ناش ہو جائے گا : جب صحابہ کرام اُنکےامورکے والی نہیں ہونگے وہ لوگ جنہیں علم نہیں کہ جہالت کیا چیز ہے "۔
[مصنف ابن أبي شيبہ 6/410،طبقات ابن سعد6/129، مستدرك الحاكم، 4/475، الشعب-الإيمان 6/69، أبو نعيم ھلیه7/243، الحارس بن مسكين بدايہو نہایا]11/650
قال ابن تيمية قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إنَّمَا تُنْقَضُ عُرَى الْإِسْلَامِ عُرْوَةً عُرْوَةً إذَا نَشَأَ فِي الْإِسْلَامِ مَنْ لَمْ يَعْرِفْ الْجَاهِلِيَّةَ
ابن تیمیہ فرماتے ہیں ہے :
عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : بے شک اسلام کی بنیادیں ایک کے بعد ایک تباہ و برباد ہو جائےگیں۔ اگر اس میں ایسے لوگ پیدا ہو جائےجو نا واقف ہوں گے کہ جہالت کیا ہے ۔(مجمو'الالفتاوى 10/301،ابن القیم اپنی فوائد میں بھی اسے لائے ہیں)
زبیر بن عدی رحم الله سے روایت ہے:
ہم انس بن ملک رضی الله عنہ کے پاس حاضر ہوئے اور حجاج کے مظالم کی شکایت کی- پس انس رضی الله عنہ نے فرمایا: " ہر آنے والا سال پچھلے سال سے بد تر ہوگا یہاں تک تم آپنے رب سے جا ملو – یہ میں نے تمہارے رسول صلى الله عليه وسلم سے سنا ہے-
ابن مسعود رضی الله عنہ اسکی تشریح کچھ کرتے ہیں :
" قیامت کے دن تک ہر آنے والا دن گزرنے والے دن سے بد تر ہوگا – اس سے میری مراد دولت میں اضافہ یا بے کر معاملات نہیں ہیں- بلکہ میرا مطلب علم کی کمی ہے- جب علماء فوت ہو جاینگے اور لوگ برابر ہوجاینگے ، وہ نا برائی سے روکینگے اور نہ نیکی کی طرف بلائینگے اور یہی انکو تباہی کی طرف لے جاییگی –
[ سنن دارمی (١٩٤)؛ یعقوب بن سفیان نے المعرفه میں اسے روایت کیا ہے ؛ نسائی (٣٩٣/3)، الخطیب اسے فقیه ولمتفقیہ (٤٥٦/١) میںلایے ہیں؛ دیکھئے ؛ فتح الباری (٢٦/١٣)]
عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے زیاد رضی اللہ عنہ سے کہا :
عَنْ زِيَادِ بْنِ حُدَيْرٍ، قَالَ: قَالَ لِي عُمَرُ: «هَلْ تَعْرِفُ مَا يَهْدِمُ الْإِسْلَامَ؟» قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَ: «يَهْدِمُهُ زَلَّةُ الْعَالِمِ، وَجِدَالُ الْمُنَافِقِ بِالْكِتَابِ وَحُكْمُ الْأَئِمَّةِ الْمُضِلِّينَ» مشكوةألمصابیح 89/1حدیث:269
کیا آپ جانتے ہے اسلام کن چیزوں سے تباہ ہوگا؟ میں (زیاد) نے کہا نہیں- انہوں (عمر) نے کہا: اسلام تباہ ہوگا ،علماء کے غلطیوں سے ، الله کی کتاب کے بارے میں منافقین کے بحث و دلائل سے، اور گمراہ ائمہ کے رائے سے ۔
 مشكوةألمصابیح89/1حدیث:269، محض الثواب 2/717، الدارمی1/295، مسند الفاروق 2/536
الفضیل بن عیاض نے فرمایا :
کیا ہو گا جب آپ پر ایسا زمانہ آئے کہ جب لوگ حق اور باطل ، مومن اور کافر، امین اور غدار ، جاہل اور عالم اور نہ ہی صیح اور غلط میں تمیز کر سکیں گے؟ ابن بطاحا لإبانة الکبرہ 1:188
اس روایت کے بعد ابن بطاح نے کہا :
بہ شک ہم اللہ کی طرف لوٹاۓ جائینگے ! آج ہم اس وقت میں پہنچ چکے ہیں، جو ہم نے اسکے بارے میں سنا اور جانا ہے، اسکا بیشتر وقوع پذیر ہو چکا ہے-۔ ایک فرد واحد جسے الله نے سمجھ بوجھ عطا کی ہے، اور اگر جو اسلامی احکامات پر غور و فکر کرتا ہو اور جو صحیح راستے پر مستحکم ہو- تو اس پر یہ بات بلکل واضخ ہو جائیگی کے اکثر لوگوں نے صراط مستقیم اور محکم دلائل سے منه موڑ لیا ہے- اکثر لوگوں نے ان چیزوں کو پسند کرنا شروع کر دیا ہے جن سے وہ کبھی نفرت کرتے تھے، ان امور کو جائز قرار دے دیا جنہیں وہ کبھی حرام کہتے تھے، اور ام امور کو اپنانا شروع کر دیا جنہیں وہ کبھی رد کرتے تھے۔ اللہ تم پر رحم کرے- یہ مسلمانوں کا صیح منشاء نہیں ہے اور نہ اُن لوگوں کا رویہ ہے جو دین جو دین کے سمجھ رکھتے ہیں-
طلق ابن حبيب :
علم اور اہل علم کے لئے ان لوگوں سے زیادہ کوئی خطرناک نہیں جو ان کہ گروہ میں تو شامل ہو جاتے ہیں پر ان سے نہیں ہوتے- یہ جاہل ہوتے ہیں لیکن آپنے آپ کو اہل علم میں سے سمجھتے ہیں- یہ لوگ صرف خرابی کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اصلاح کر رہے ہیں-  ( ابن ابی الدنیا، التوبہ مضمون 62 )
شیخ صالح الفوذان حفظہ اللہ نے کہا :
موجودہ وقت میں اس اُمت کو درپیش سب سے زیادہ خطرناک معاملا ان جاہل مبلغین کا ہے جو آپنے آپ کو اہل علم میں سے سمجھتے ہیں، اور لوگوں کو ( اپنےدین کی طرف) جہالت اور گمراہی کے ساتھ بلاتے ہیں- إيعناتول-المستفيد، 887/1
یہاں ایک مثال پیش خدمت ہے کہ کسطرح کم علم لوگ دین کو نقصان اور اسکے ستونوں کو ہلا کہ رکھ دیتے ہیں-:   جسطرح مختلف لوگ مختلف شعبوں میں مہارت رکھتے ہیں اسی طرح مختلف علماء بھی علوم دین کے مختلف شعبوں میں میں مہارت رکھتے ہیں-۔ تا ہم ان میں سے بعض نے آپنے محنت اور علم کی بدولت ایک الگ، انھوکہ اور اونچا مقاپ حاصل کیا، اور شیخ السلام اور محدث العصر جیسے القاب سے نوازے گیے ۔ اپردیے گیے لنک میں عالم کی تعریف ہو سکتا ہے کہ ان تمام امور جیسے کہ، علماء کے فضائل و برتری، یا ایک عالم بننے کے شرائط یا قوائد و ضوابط، لیکن پھر بھی یہ لنک آپکو ان شرائط کے بارے میں ایک سرسری جائزہ دیتا ہے جس پر ایک عالم کا پورا اترنا لازمی ہے-اور یہ خود ہی ایک عالم کی فوقیت ایک ام آدمی پر ظاہر کرتا ہے-
اور آخر میں دعاء ہے کہ اللہ تعالی پوری امت کی اصلاح  فرمائے اور ہمیں ہر قسم فتنوں سے اپنے حفظ و آمان میں رکھے ۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين وصلى الله على نبينا محمد وسلم تسليماً كثيراً


اکبر حسین اورکزئی :  1 جنوری  2018 

ہفتہ، 30 دسمبر، 2017

سال 2017 کی اختتام

اور نئی سال کی مبارکباد اور اس کا حکم  

کل نیا سال شروع ہونے کو ہے، دنیا کے مختلف ممالک میں نئے سال کا مختلف طریقوں سے استقبال کیا جاتا ہے، ہر طرف دکانوں میں نیو ایئر کارڈس فروخت ہورہے ہیں، کیلنڈر دیواروں سے اتارے جارہے ہیں اور سن عیسوی کے ہندسے بدل جائیں گے، نیا سال شروع ہوجائے گا، نئے سال کی آمد کے موقع پر ہر کوئی جشن کا ماحول بنا رہا ہے، ساری دنیا میں لوگ اس موقع پر اپنے اپنے انداز سے جشن منانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں، اس موقع پر نوجوان کچھ زیادہ ہی پرجوش نظر آتے ہیں، کہیں فون وغیرہ کے ذریعہ مبارک بادیاں دی جاتی ہیں تو کہیں ٹیکسٹ میسیج کے ذریعہ مبارک بادیاںوں کا سلسلہ چلتا ہے، کہیں نئے سال کے موقع پر پر تکلف جشن منایا جاتا ہے، الغرض غیر مسلم بڑے جوش وخروش سے اس کو مناتے ہیں اور ہمارے مسلم نوجوان بھی ان سے پیچھے نہیں ہیں، اب آپ خود فیصلہ کریں کہ غیروں میں اور ہم میں کیا فرق رہ گیا؟؟؟
سوال یہ ہے کہ کیا کبھی کسی غیر مسلم کو مسلمانوں کے تہوار اس زور وشور سے مناتے دیکھا گیا ہے؟؟؟ ہرگز نہیں ہرگز نہیں.
خاص کر اس موقع سے لوگ رقص و سرود کی محفلیں سجاتے ہیں، شراب وکباب جمع کئے جاتے ہیں، نئے سال کا آغاز ہوتے ہی نیو ایئر نائٹ کی محفلیں جمتی ہیں اور لوگ ہیپی نیو ایئر کی مبارک بادیاں پیش کرتے ہیں، ناچ گانے ہوتے ہیں، شراب نوشیاں ہوتی ہیں، بہر حال ہر کوئی اپنے اپنے انداز سے نئے سال کو خوش آمدید ضرور کہتا ہے، اس تیاری میں اربوں کی فضول خرچی ہوتی ہے، در حقیقت نئے سال میں نیا پن کچھ بھی نہیں بلکہ سب کچھ ویسا ہی ہے، دن، رات، زمین، آسمان، سورج اور چاند سب کچھ وہی ہے اور وقت کی کڑوی یادیں بھی اسی طرح ہمارے ساتھ ہیں.
یہ دیکھا جاتا ہے کہ نئے سال کے آغاز کے موقع پر ہمارے بہت سارے مسلم اور غیر مسلم بھائی بالخصوص نوجوان خوشیاں مناتے وقت وہ ناجائز اور نامناسب ایسے کام کرتے ہیں، جنہیں ایک سلیم العقل انسان اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتا اور نہ ہی انسانی سماج کیلئے وہ کام کسی طرح مفید ہے بلکہ حد درجہ مضر ہے.
مثال کے طور پر 31 دسمبر اور 1 جنوری کے بیچ کی رات میں نئے عیسوی سال کے آغاز کی خوشی مناتے ہوئے بڑی مقدار میں پٹاخے بجائے جاتے ہیں اور آتش بازیاں کی جاتی ہیں کیک کاٹے جاتے ہیں رقص ہوتا ہے اس کام پر بے تحاشہ پیسہ خرچ کیا جاتا ہے گویا ہم اپنے خون پسینے کی کمائی کو نذر آتش کررہے ہیں،
میں نہیں سمجھتا کہ شراب نوشی کی کسی بھی مذہب میں کوئی بھی گنجائش ہوگی یہ انسانی عقل کو سلب کرکے آدمی کو بلکل ناکارہ بنادیتی ہے اور اس کے نشہ میں چور آدمی قتل وغارت گری، زنا کاری وبدکاری اور بہت ساری دوسری برائیوں کا بلا جھجھک ارتکاب کرتا ہے،
سال2017 رخصت ہورہا ہے اس لئے ضروری ہے کہ آنے والے سال کے بارے میں تھوڑا وقت نکال کر اپنا محاسبہ کرے کہ میں نے اس سال کیا پایا اور کیا کھویا؟ مجھے اس سال کیا کرنا چاہیئے تھا اور کن چیزوں کو نہ کرنا میرے لئے بہتر تھا، میں نے کن لوگوں کا دل دکھایا؟ اور کس قدر مجھ سے گناہ ہوا؟ میں نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر کتنے فیصد عمل کیا؟ مجھ سے کتنے لوگوں کو فائدہ پہنچا، میں نے کن سے ہمدردی کی، کس قدر گناہ مجھ سے ہوئے اور میں نے کن گناہوں کی معافی تلافی کی؟ ان تمام چیزوں کا ہمیں محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے، میری زندگی کا ایک سال کم ہوگیا اور میں نیکیوں سے محروم رہ گیا میرا وقت بے جا ضائع اور صرف ہوگیا.
اور ہر آنے والا سال امیدیں اور توقعات لے کر آتا ہے اور انسان کے عزم کو پھر سے جوان کرتا ہے کہ جو کام پچھلے سال ادھورے رہ گئے انہیں اس سال مکمل کر لینا ہے، افراد کی طرح اقوام کی زندگی میں بھی نیا سال ایک خاص اہمیت کا حامل ہوتا ہے، یہ قوموں کو موقع فراہم کرتا ہے کہ گذشتہ غلطیوں سے سبق سیکھ کر آنے والے سال میں اسکی بھرپائی کرنے کی کوشش کریں.
ایک سال کا مکمل ہونا اور دوسرے سال کا آغاز اس بات کا کھلا پیغام ہے کہ ہماری زندگی میں سے ایک سال کم ہوگیا ہے اور ہم اپنی زندگی کے اختتام کے مزید قریب ہوگئے ہیں.
لہذا ہماری فکر اور بڑھ جانی چاہیئے اور ہمیں بہت ہی زیادہ سنجیدگی کے ساتھ اپنی زندگی اور اپنے وقت کا محاسبہ کرنا چاہیئے کہ ہمارے اندر کیا کمی ہے کیا کمزوری ہے کونسی بری عادت وخصلت ہم میں پائی جاتی ہے اسکو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے،
نیز اچھی عادتیں، عمدہ اخلاق وکردار کا وصف اپنے اندر پیدا کرنے کی مکمل کوشش کرنی چاہیئے.
نئے سال کی مبارکبادی پر علماء کے فتاویٰ
جن معاملات میں آج مسلمانوں کا ایک طبقہ صراط مستقیم کو چھوڑ کر اللہ تعالی کے دشمنوں اور یہود و نصاری کے طرز پر چل پڑا ہے ان میں سے ایک عید بھی ہے ، صورت حال یہ ہے کہ آج مسلمانوں نے غیر قوموں کی مشابہت میں نئی نئی عیدیں ایجاد کرلی ہیں حتی کہ بہت سے لوگوں نے کافروں کی بہت سی عیدوں کو اپنے شہروں اور ملکوں میں منتقل کرلیا ہے ، جب کہ ان کافروں کی عیدیں ایسی ہوتی ہیں جو شرک و کفر پر مبنی اور بعض تو فحاشی و بے حیائی کا کھلا پیغام دیتی ہیں کیونکہ ہر عید اپنے منانے والوں کی تہذیب و ثقافت کی ترجمانی کرتی ہے جیسے بسنت کا میلہ ، عید عاشقاں اور نیا سال وغیرہ اور بدقسمتی یہ کہ بہت سے نام نہاد مسلمان کافروں کی عیدوں کی آمد پر اس قدر خوش ہوتے ہیں کہ اپنی شرعی عیدوں کی آمد پر اس خوشی کا اظہار نہیں کرتے ۔
خصوصی طور " نیاسال " یا عید رأس السنہ منانے کے لئے تو کچھ مسلمان اپنا شہر یا علاقہ چھوڑ کر دوسرے شہروں کا سفر کرتے ہیں اور اس موقعہ سے پیش کئے جانے والے حیا سوز اور بے غیرتی سے بھرے پروگراموں میں شریک بھی ہوتے ہیں اور بعض تو اپنے ساتھ اپنی بیوی بچوں کو بھی لے جاتے ہیں ، کیونکہ یہ عید اصل میں یہود اور نصرانیوں کی عید ہے جو یورپ سے ہمارے اندر آئی ہے اور معلوم ہے کہ رقص و ساز ان کے یہاں فن ہے ، فحاشی و عریانی ان کی تہذیب ہے زناکاری و شراب نوشی ان کا کلچر ہے لہذا ان کی عیدوں میں بھی یہ چیزیں بہت واضح طور پر موجود رہتی ہیں ، بلکہ ان کی عیدوں میں فحاشی و عریانیت کی بعض ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں جو انسانیت و اخلاق سے کوسوں دور ہوتی ہیں خاص کر عید عاشقاں اور نئے سال میں لہذا ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ ان سے پرہیز کرے ذیل میں علمائے امت کے بعض فتاوے نقل کئے جارہے ہیں تاکہ اللہ تعالی کا خوف رکھنے والے لوگ نصیحت و ہدایت حاصل کریں اور اس کے باوجود جو ہلاک ہونا چاہتا ہے وہ دلیل کی بنا پر یعنی حق پہچان کر ہلاک ہو ۔
(۱) خلیفہ راشد حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ کا فتوی
حضرت عطاء بن دینار بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
عجمیوں کی گفتگو نہ سیکھو اور مشرکوں کے تہواروں کے دن ان کی عبادت گاہوں میں نہ جاو کیونکہ ان پر اللہ تعالی کا غضب نازل ہوتا ہے ۔
حضرت ابان کا بیان ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ کے دشمنوں [ کافروں ] کے تہواروں کے دن ان سے دور رہو ۔
{ السنن الکبری للبیھقی :9/234 – اقتضاء الصراط المستقیم :1/455-457 }
(۲)شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
مسلمانوں کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ کسی ایسے کام میں کافروں کی مشابہت کریں جو ان کے تہواروں [خصوصی ایام ] کے ساتھ خاص ہو ، کھانے میں ، نہ لباس میں ، نہ چراغاں کرنے میں ، نہ کاروبار اور دوسرے دنیاوی امور ترک کرنے میں اور نہ خلاف معمول کوئی کام کرنے میں ۔ اسی طرح اس موقع پر دعوت کرنا جائز نہ ہوگا ۔ اور نہ ہی تحفہ و تحائف [ اس مناسبت سے ] پیش کئے جائیں گے ۔ اسی طرح کوئی ایسی چیز نہ بیچی جائے گی جس سے ان کی عید و تہوار میں ان کی مدد ہوسکے اور نہ ہی بچوں کو ان کے تہوار کے موقع پر کوئی ایسا کھیل کھیلنے دیا جائے گا جو کافروں کے تہواروں کے موقع پر کھیلے جاتے ہیں اور نہ ہی کسی قسم کی زیب و زینت کا اظہار کیا جائے گا ، خلاصہ یہ کہ مسلمانوں کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ کافروں کے تہواروں کو کسی شعیرہ کے ساتھ خاص کریں ، بلکہ وہ دن بھی مسلمانوں کے لئے عام دنوں کی طرح ہونا چاہئے ۔
(۳ امام ذہبی کا فتوی :
امام ذہبی رحمہ اللہ نے کافروں کے تہواروں سے متعلق ایک مستقل رسالہ تالیف فرمایا ہے اور بڑے ہی سخت انداز میں کافروں کی عیدوں اور تہواروں میں کسی بھی قسم کی شرکت سے روکا ہے ، ایک جگہ فرماتے ہیں کہ :
"
اے مسلمان! اللہ نے تیرے اوپر واجب کیا ہے کہ رات و دن میں سترہ بار اللہ سے دعا کر کہ تجھے صراط مستقیم پر گامزن رکھے جو اس کے انعام یافتہ لوگوں کا راستہ ہے ، اور جن پر اس کا غضب نازل ہوا اور جو لوگ گمراہ ہوئے ایسے لوگوں کے راستے سے بچائے ، تو تیرے دل کو کیسے اچھا لگتا ہے کہ جن کی یہ صفت ہو اور وہ جہنم کا ایندھن ہوں تو ان کی مشابہت کرے ، اگر تجھے کہا جائے کہ کسی بڑھئی یا ہجڑے کی مشابہت کرے تو تو اس کام سے بدکے گا ، جب کہ تو اقلف [یعنی نصاری ] ، عید کے موقع پر صلیب [ کراس نشان ] کی پوجا کرنے والے کی مشابہت کررہا ہے ، اپنے بچوں کو نئے کپڑے پہنا رہا ہے ، انہیں خوشیوں میں شریک کررہا ہے ، ان کے لئے انڈے رنگ رہا ہے ، خوشبو خرید رہا ہے اور اپنے دشمن کی عید کے موقع پر ایسی خوشیاں منا رہا ہے جیسے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عید منایا کرتا ہے ۔
تو سوچ کہ اگر تو نے ایسا کیا تو یہ عمل تجھے کہاں لے جائے گا ؟ 
اگر اللہ نے معاف نہ کیا تو اللہ کے غضب اور ناراضگی کی طرف لے جائے گا ، کیا تجھے معلوم نہیں ہے کہ تیرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اس کام میں اہل کتاب کی مخالفت پر ابھارا ہے جو ان کے لئے خاص ہے حتی کہ بال کی سفیدی جو مومن کے لئے نور ہے جس سے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے    "من شاب شیبة فی الاسلام کانت له نورا یوم القیامة " 
جس شخص کے بال اسلام میں سفید ہوئے تو یہ بال قیامت کے دن اس کے لئے نور کا سبب بنیں گے ، 
لیکن اہل کتاب کی مخالفت کے لئے ہمارے نبی نے ان بالوں پر خضاب لگانے کا حکم دیا ہے چنانچہ اس کی علت بیان کرتے ہوئے آپ نے فرمایا : یہود خضاب نہیں لگاتے لہذا تم ان کی مخالفت کرو ۔
ہر وہ مسلمان جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو غیر قوموں کی عیدوں میں حاضر ی سے روکے اور اسے اس انجان اور جھگڑا لو آدمی جیسا نہیں ہوجانا چاہئے کہ جب اسے کسی کام سے روکا جاتا ہے تو کہتا ہے کہ " ہمیں اس سے کیا لینا دینا ہے " اور بہت سے بد کردار اور گمراہ لوگوں کو شیطان نے یہاں تک بہکا دیا ہے کہ وہ اللہ کے دشمنوں اور بد کرداروں کے تہواروں کا میلہ دیکھنے کے لئے ایک شہر سے دوسرے شہر کا سفر کرتے ہیں اور اس طرح ان کی تعداد میں اضافہ کرتے ہیں ، جب کہ حدیث شریف میں وارد ہے کہ :   " من کثر سواد قوم حشر معهم "
جو کسی قوم کی تعداد میں اضافہ کرے قیامت کے دن اسے انہی لوگوں کے ساتھ اٹھایا جائے گا " ۔
اور اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا اليَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِي القَوْمَ الظَّالِمِينَ] {المائدة:51
اے ایمان والو ! تم یہود و نصاری کو دوست نہ بناو ، یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں ، تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے وہ بے شک انہی میں سے ہے ، ظالموں کو اللہ تعالی ہرگز راہ راست نہیں دکھاتا " ۔
علماء کا کہنا ہے کہ کفار کے ساتھ مشابہت اور ان کی عیدوں میں حاضری ان سے محبت میں داخل ہے ، جب کہ مسلمانوں کے ملک میں کافروں کو اپنی عیدوں کو کھلے عام منانے کی اجازت نہیں ، پھر اگر مسلمان ان کے تہواروں میں شریک ہورہا ہو تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ان کی عیدوں کے اعلان میں ان کی مدد کررہا ہے ، ایسا کرنا دین اسلام میں بدعت کے ایجاد کے مترادف ہے اور بڑا ہی ناپسندیدہ کام ہے ، اور ایسا صرف وہی شخص کرسکتا ہے جو بڑا ہی بد دین اور ناقص الایمان ہوگا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وعید میں داخل ہوگا :  " من تشبه بقوم فهو منهم "  جو کسی قوم کی مشابہت کرے وہ انہی میں سے ہے " ۔
(۴)   سماحۃ الشیخ علامہ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا :
س : بعض مسلمان نصاری کی عیدوں میں شریک ہوتے ہیں اس سلسلے میں آپ کیا فرماتے ہیں ؟
جواب : کسی مسلمان مرد و عورت کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ یہود ونصاری یا کسی اور کافر قوم کی عید میں شریک ہو بلکہ ان پر اس سے دور رہنا واجب ہے اس لئے کہ جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے اس کا شمار انہیں کے ساتھ ہوتا ہے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں غیر قوموں کی مشابہت اور ان کے اخلاق و عادات اپنانے سے منع فرمایا ہے لہذا مسلمان مرد ہو یا عورت ان پر واجب ہے ایسے کاموں سے پرہیز کریں ، اور ان کے لئے کسی بھی طرح جائز نہیں ہے کہ کسی بھی چیز سے اس بارے میں مدد کریں ، اس لئے کہ یہ شریعت کے مخالف عیدیں ہیں ، لہذا نہ ان میں شریک ہونا جائز ہے نہ ان عیدوں کو منانے والوں کے ساتھ تعاون کرنا جائز ہوگا اور نہ ہی چائے ، قہوہ برتن وغیرہ کسی چیز سے ان کی مدد جائز ہوگی کیونکہ اللہ تعالی فرماتا ہے :
وَتَعَاوَنُوا عَلَى البِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الإِثْمِ وَالعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ شَدِيدُ العِقَابِ] {المائدة:2}
" نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور گناہ اور ظلم و زیادتی میں مدد نہ کرو اور اللہ تعالی سے ڈرتے رہو بیشک اللہ تعالی سخت سز دینے والا ہے "
اور کافروں کی عیدوں میں شرک ہونا گناہ و ظلم و زیادتی کے کام پر ایک قسم کی ان کی مدد ہے ۔( مجموع فتاوی شیخ ابن باز :6/508)
عیسوی سال کی ابتدا میں مسلمان ایک دوسرے کو مبارکباد دے سکتے ہیں؟
سوال: نئے عیسوی سال کی ابتدا میں مسلمان ایک دوسرے کو مبارکباد اور دعائیں دے سکتے ہیں؟ اور یہ بات واضح ہے کہ مسلمان ایک دوسرے کو نئے سال کی مبارکباد دیتے ہوئے اسے کوئی تہوار سمجھ کر نہیں دیتے۔
الحمد للہ:
مسلمانوں کیلئے عیسوی سال کی ابتدا پر ایک دوسرے کو مبارکباد دینا جائز نہیں ہے، اور اسی طرح اس دن تہوار کی شکل میں جشن منانا بھی جائز نہیں ہے؛ کیونکہ ہر دو صورت میں کفار کی مشابہت پائی جاتی ہے، اور ہمیں ایسا کرنے سے روکا گیا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے(جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انہیں میں سے ہے) ابو داود: (4031)
اس حدیث کو البانی نے " صحیح ابو داود " میں صحیح قرار دیا ہے۔
اور ویسے بھی ہر سال اسی دن کے آنے پر مبارکباد دینا ہی اسے "عید" [سال کے بعد آنے والا تہوار] بنا دیتا ہے ، اور یہ بھی شریعت میں منع ہے۔       واللہ اعلم.
                             ترتيب بتغير يسير :    أخوكم في الله   : اكبر حسين اوركزئي 


پیر، 25 دسمبر، 2017

اتباعِ سنت کی اہمیت اور فضیلتب

عَنْ أَنَسٍؓ قَالَ : قَالَ (لِی) رَسُوْلُ اللّه : ’’ یَا بُنَيَّ! إِنْ قَدَرْتَ أَنْ تُصْبِحَ وَ تُمْسِيَ، وَلَیْسَ فِیْ قَلْبِکَ غِشٌّ لِأَحَدٍ، فَافْعَلْ، ثُمَّ قَالَ: ’’ یَا بُنَيَّ! وَ ذٰلِکَ مِنْ سُنَّتِیْ، وَمَنْ أَحَبَّ سُنَّتِیْ فَقَدْ أَحَبَّنِیْ، وَمَنْ أَحَبَّنِیْ کَانَ مَعِيَ فِیْ الْجَنّة ‘‘۔( ترمذی، مشکوۃ/ص:۳۰/کتاب الاعتصام بالکتاب و السنۃ/الفصل الثانی)    
ترجمہ  :   حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رحمت ِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ’’اے میرے پیارے بیٹے! اگر تجھے اس با ت پر قدرت ہو کہ تیری صبح اور شام(مراد زندگی کے تمام اوقات ہیں )اس طرح گذرے کہ تیرے دل میں کسی کے لیے کینہ اور دغا نہ ہو تو ایسا ضرور کرنا۔‘‘ پھر فرمایا: ’’اے میرے پیارے بیٹے !یہ (بھی) میری سنت میں سے ہے، اور جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے (در حقیقت) مجھ سے محبت کی، اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میری معیت میں ہوگا‘‘۔
تباعِ سنت علامتِ محبت ہے  :      ’’سنت‘‘ لغت میں عادت کو کہتے ہیں، لیکن شریعت میں  ا س سے مراد وہ چیز جو حضورِ اکرم   صلی اللہ علیہ و سلم  سے قولاً،فعلاًاو رتقریراً منقول ہونے کے ساتھ قابل عمل ہو۔(کیوں کہ یہی تعریف حدیث کی بھی کی جاتی ہے۔لیکن حدیث اور سنت میں بنیادی طور پر جو فرق بیان کیاگیاہے من جملہ ان میں ایک یہ ہے کہ ہرحدیث کاقابل عمل ہونا ضروری نہیں، جب کہ سنت صرف و ہ ہے جو قابل عمل ہو، لہٰذا ہر سنت حدیث تو ہے، لیکن ہر حدیث سنت نہیں۔) اورمختصر لفظوں میں حضورِ اکرم   صلی اللہ علیہ و سلم کے پاکیزہ طریقہ کا نام سنت ہے ۔سنت سے محبت حضور  صلی اللہ علیہ و سلم  سے محبت کی علامت ہے، تو اتباعِ سنت سعادت ہے۔انسانیت کی سعادت محض اور محض اتباعِ سنت میں ہے، سعاد ت مند ہے وہ شخص جسے اتباعِ سنت کی توفیق ملے، کیوں کہ اتباعِ سنت میں دارین کی کامیابی ہے، اور سنت کی مخالفت میں دونوں جہاں میں شقاوت ہے، نیزاﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی سچی اور یقینی علامت بھی اتباعِ سنت ہی ہے ۔چنانچہ فرمایا: { قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ} (اٰل عمران : ۳۱)محبوبم! لوگوں سے کہہ دو کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری سنت کا اتباع کرو، اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا۔          
معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی محبوبیت اتباعِ سنت کے بغیر ممکن نہیں، او رجس وقت آدمی سنت پر عمل کرتاہے اس وقت وہ اللہ تعالیٰ کا محبوب ہوتاہے۔اسی لیے کہاگیا ہے: نقش قدم نبی کے ہیں جنت کے راستے اللہ سے ملاتے ہیں سنت کے راستےپھر جس طرح اتباعِ سنت اللہ تعالیٰ کی محبت کی علامت ہے، اسی طرح اتباعِ سنت حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی بھی محبت کی علامت ہے، جس کاذکر اسی حدیث میں ہے: مَنْ أَحَبَّ سُنَّتِیْ فَقَدْ أَحَبَّنِیْ‘‘  تو حاصل کلام یہ نکلا کہ اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول   صلی اللہ علیہ و سلم  کی محبت اتباعِ سنت سے حاصل ہوتی ہے،اور جو متبع سنت ہے وہ ا للہ تعالیٰ اور حضرت محمد مصطفی  صلی اللہ علیہ و سلم دونوں کے نزدیک محبوب ہے، ظاہر ہے کہ ایسا شخص دارین میں خیر سے کیسے محروم رہ سکتا ہے؟   سنتیں دو قسم کی ہیں  :  ظاہری  اور  باطنی  :           
حدیث بالا میں اتباعِ سنت کی اہمیت اور اس کی فضیلت بیان کی گئی ہے، اور سنت سے مراد جیساکہ عرض کیاگیا:حضور  صلی اللہ علیہ و سلم  کے اقوال ،افعال او راحوال ہیں، اور ظاہر ہے کہ افعال و احوال جیسے ظاہری ہوتے ہیں ایسے ہی باطنی بھی ہوتے ہیں، اس لیے ہمارے حضرت شیخ الزماں مولانا قمرالزماں فرماتے ہیں کہ اس حدیث شریف سے سنت کی دو قسمیں معلوم ہوتی ہیں:   
(۱) ظاہری ۔ (۲) باطنی۔  باطنی سنت کو پہلے بیا ن کیا، کیوں کہ عموماً اس کی طرف توجہ کم ہوتی ہے، فرمایا: ’’ یَابُنَيَّ !‘‘ ’’اے میرے پیارے بیٹے !حضور   صلی اللہ علیہ و سلم  کا اندازِ تربیت دیکھئے، کس قدر شفقت و محبت آمیز ہے! صرف حکم نامہ پیش نہیں کیا، بلکہ پیار سے عمل کی ترغیب دے کر اس پر عمل کرنے کا نتیجہ بھی بیان کیا، کیوں کہ جب انسان کے سامنے کسی عمل کا عمدہ نتیجہ ہوتاہے تو اس عمل کے لیے وہ بآسانی اور بخوشی تیار ہو جاتا ہے،چنانچہ فرمایا: اے میرے پیارے بیٹے! اگر ہو سکے تو اپنے د ل میں کسی کی طرف سے کینہ (پوشیدہ دشمنی) مت رکھنا (کیوں کہ دل درست تو جسم درست) کہاگیاہے کہ سینہ اگر کینہ سے پاک ہے تو وہ رحمت کا خزینہ ہے، حضور   صلی اللہ علیہ و سلم کا حال یہی تھا، اسی لیے فرمایا: اے میرے پیارے! یہ بھی میری سنت ہے، یہ حضور   صلی اللہ علیہ و سلم  کی باطنی سنتوں میں سے ایک اہم سنت ہے،اپنی اور معاشرہ کی اصلاح کے لیے اس سنت کو بھی عمل میں لانے کی ضرورت ہے۔
شعر ہے:                           کینہ نہ ہو سینہ میں، کینہ نہیں اچھا  ٭جس دل میں ہو کینہ اس کا جینا نہیں اچھا          
اورجیسے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے سے دشمنی کرنے والوں کوبھی اللہ تعالیٰ کے لیے سینے سے لگایا، ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کی اس سنت کو زندہ کریں۔حضور   صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت سے محبت پر جنت میں معیت :           
اس کے بعد فرمایا: ’’وَمَنْ أَحَبَّ سُنَّتِیْ فَقَدْ أَحَبَّنِیْ‘‘جس نے میری سنت سے محبت کی یقینا اس نے مجھ سے محبت کی۔ مطلب یہ ہے کہ میری چھوٹی ہوئی سنت کو زندہ کیا،یا مطلقاً میری سنت کااتباع کیاتو یہ مجھ سے محبت کے بغیر ممکن نہیں، اس لیے میری سنت سے محبت کرنا مجھ سے محبت کرناہے:’’وَمَنْ أَحَبَّنِیْ کَانَ مَعِيَ فِیْ الْجَنةِ‘‘ اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔ یہاں دراصل اتباعِ سنت پر جنت کی بشارت سنانا مقصود ہے۔            رہی بات جنت میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ہونے کی،تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس متبع سنت کے لیے جنت میں اس کے اعمال کے مطابق جو درجہ ہوگا وہ اس میں ضرور داخل ہوگا، اور ظاہر ہے جنت میں داخل ہونے والا یقیناً حضور  صلی اللہ علیہ و سلم کا ساتھی ہے،عام محاورہ میں اسے معیت ہی سے تعبیر کیاجاتاہے۔مثلاً کسی بڑے ہوٹل میں دو شخص مقیم ہوں، جن میں سے ایک فرسٹ کلاس روم میں ہو، اور دوسرا بالکل آخری درجہ کے روم میں ہو، لیکن اس کے باوجود کہا یہ جاتاہے کہ یہ شخص فلاں ہوٹل میں ہمارے ساتھ رہا ہے، بس متبع سنت کے لیے یہی صورت ِحال  جنت میں حضور   صلی اللہ علیہ و سلم کی معیت کی ہوگی۔  
بہر حال!  یہ بہت ہی عظیم دولت ہے، جسے مل جائے وہ بہت ہی خوش قسمت ہے، کیوںکہ جنت !پھر حضور   صلی اللہ علیہ و سلم کی معیت !نورٌ علی نور۔واقعی اس کی عظمت اور قدر وقیمت حضرات صحابہؓ نے سمجھی تھی،بلکہ اس عاجز کا ناقص خیال یہ ہے کہ حضور   صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت و معیت سے تو انہیں دنیا ہی میں جنت کا لطف آنے لگا تھا، اسی لیے ان کی عین خواہش یہ تھی کہ حضور   صلی اللہ علیہ و سلم کی معیت جنت میں بھی نصیب ہو۔
حضرت ربیعہ  ؓ کا واقعہ  : حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی ؓ ایک صحابی ہیں،جن کا شمار اہل صفہ میں ہوتاہے، سفر وحضر میں حضور  صلی اللہ علیہ و سلم   کے خادم تھے،  ۶۳ ھ؁ میں وفات پائی، آپ عموماً  رات حضور  صلی اللہ علیہ و سلم  کی خدمت میں اس نیت سے گذارا کرتے کہ تہجد کے وقت وضو کا پانی یادیگر ضرورتوں کے لیے کوئی دقت پیش نہ آئے، رات میں جب حضور  صلی اللہ علیہ و سلم  اٹھتے تو آپ فور اًوضو کا پانی اورضرورت کی دیگرچیزیں لے کر حاضر ہو جاتے، ایک مرتبہ خوش ہو کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’مانگ لے آج جو چاہتا ہے؟‘‘      اس موقع پر یاد رکھیے کہ مقربین بارگاہِ الٰہی پر کبھی کبھی ایسے احوال آتے ہیں جن سے وہ محسوس کرتے ہیں کہ اس وقت رحمت ِحق متوجہ ہے،او رجو کچھ مانگا جائے گا امید ہے ان شاء اللہ مل جائے گا، بظاہر ایسامعلوم ہوتا ہے کہ جس وقت حضور  صلی اللہ علیہ و سلم  نے حضرت کعبؓ کی خدمت سے متاثر ہوکر فرمایا کہ ’’سَلْ‘‘جس چیزکی چاہت ہو مانگ لو، غالباً وہ کوئی ایسی ہی گھڑی تھی۔ محب ِصادق کو جب عرض رسانی کا موقع میسر ہوا تو بلا تردد عرض کر دیا:’’حضور! اور تو کوئی خواہش اور تمنا نہیں ،صرف اتنا چاہتا ہوں کہ حضور! جنت میں آپ کی رفاقت اور معیت مل جائے، بس یہی ایک آرزو ہے، آپ   صلی اللہ علیہ و سلم  نے فرمایا: ’’کوئی اور خواہش یافرمائش؟‘‘ حضور  صلی اللہ علیہ و سلم  نے جب دوسری دفعہ موقع دیا تو پھر اسی تمنا کو دہرایا، کیوں؟ اس لیے کہ کسی اور بات کی تمنا کا تصور بھی ان کے ذہن میں نہ آیا، اور ان کے نزدیک یہی آرزو سب سے عظیم تھی، اس لیے عرض کیا: ’’نہیں ، حضور !اور تو کوئی آرزو نہیں، بس، یہی تمنا ہے کہ جنت میں آپ کی معیت نصیب ہو جائے‘‘  تب آپ صلی اللہ علیہ و سلم  نے فرمایا: ’’پھر کثرتِ سجود سے میری مدد کر۔‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح/ ص:۸۴)  معلوم ہوا جو بھی کثرتِ سجود یعنی خلوصِ نیت اور اتباعِ سنت کے ساتھ نماز کا اہتمام کرے گا ان شاء اللہ اسے بھی جنت میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم  کی معیت نصیب ہوگی۔ بہر حال!  حضور کی معیت بہت بڑی دولت ہے، یہ نعمت حضرات صحابہؓ کے علاوہ دنیا میں تو کسی کو نصیب نہیں ہو سکی، البتہ آخرت اور جنت میں اوروں کوبھی نصیب ہو سکتی ہے، اوراس کے لیے شرط یہ ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ و سلم  کی ہر ہر سنت سے محبت کریں،اور ان کا اتباع کریں۔
اتباعِ سنت کی فضیلت :            یہی کیا کم فضیلت ہے کہ اتباعِ سنت سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم  کی محبت اور جنت میں حضور  صلی اللہ علیہ و سلم  کی معیت نصیب ہوتی ہے،  علاوہ ازیں کتاب و سنت میں اتباعِ سنت کے اور بھی فضائل منقول ہیں،ایک حدیث میں ہے:   ’’مَنْ حَفِظَ سُنَّتِیْ أَکْرَمهُ الله تَعَالٰی بِأَرْبَعِ خِصَالٍ، اَلْمَحَبة فِیْ قُلُوْبِ الْبَرَرة، وَالهيبة فِیْ قُلُوْبِ الْفَجَرَۃ، وَالسَّعة فِی الرِّزْقِ، وَالثِّـقةُ فِیْ الدِّیْنِ‘‘۔ (شرح شریعۃ الإسلام/ص:۸، للسید علی زادہ، از: فتاوٰی رحیمیہ/ج:۱۰/ص:۳۸۸)
جس نے میری سنت کی حفاظت اور اطاعت و اتباع کیا،حق تعالیٰ چار باتوں سے اس کو نوازیں گے:  
(۱)       نیک لوگوں کے دلوں میں اس کی محبت پیدافرمادیں گے۔ 
(۲)      بدکار لوگوں کے دلوں میں اس کی ہیبت ڈال دی جائے گی۔
(۳)      رزق میں برکت ہوگی۔      
(۴)      دین پر استقامت نصیب ہوگی۔        
صاحبو!   اگر ہم اتباعِ سنت کے ذریعہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے غلام بن جائیں تو اللہ تعالیٰ ہمیں ساری دنیا کا اِمام اور دنیا کو ہمارا غلام بنا دے گا۔    سچ ہے کہ : مقتدی  تو  نہیں ہرگز،   تو  ہے    دنیا کا امام تواگر آج بھی ہوجائے رحمت ِعالم کا غلام اس سے بھی اتباعِ سنت کی اہمیت و فضیلت ثابت ہوتی ہے۔

جو متبع سنت ہے وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم  کے قریب ہے  :الغرض! قرآن و حدیث سے اتباعِ سنت کی بڑی اہمیت اورفضیلت ثابت ہوتی ہے، آج آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم  تو ہم میں اپنے ظاہری وجود کے ساتھ موجود نہیں ہیں، مگر آپ  صلی اللہ علیہ و سلم کا روشن طریقہ اور نورانی سنتیں تو ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی علامت یہی ہے کہ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  کی ذات سے محبت کی جاتی ہے اِسی طرح رسول اللہ   صلی اللہ علیہ و سلم  کی بات سے بھی محبت کی جائے، اورآپ صلی اللہ علیہ و سلم  کی سنتوں سے محبت کی جائے، جو انوارات آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کی ذات وحیات میں تھے وہ تو آج بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کی سنتوں میں ہیں، لہٰذا سنتوں کی مخالفت نہ کریں، جو جس قدر نبی  صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت پر عمل کرے گا وہ اتنا ہی نبی   صلی اللہ علیہ و سلم  سے قریب ہوگا، دنیا میں دل و جان سے تو جنت میں جسم سے۔اﷲ پاک ساری زندگی ہمیں اور ہمارے اہل و عیال و اقرباء بلکہ سبھی انسانوں کو سنت کی عظمت اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین۔ وَ آخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ یَا رَبِّ صَلِّ وَ سَلِّمْ دَائِماً أَبَدًاعَلٰی حَبِیْبِکَ خَیْرِالْخَلْقِ کُلهم .

کامیابی کے حصول اوربربادی سے حفاظت کے تین ضوابط


عَنْ أَبِیْ هرَیْرَۃ رَضِيَ اللّه عَنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ قَالَ: ’’ ثَلٰثٌ مُنجِیَاتٌ، وَ ثَلٰثٌ مُهْلِكَاتٌ فأَمَّا الْمُنْجِیَاتُ فَتَقْوَی اﷲِ فِی السِّرِّ وَالْعَلَانِیة، وَالْقَوْلُ بِالْحَقِّ فِی الرِّضیٰ وَالسَّخَطِ، وَالْقَصْدُ فِی الْغِنَا وَالْفَقْرِ، وأَمَّا المهلِکَاتُ فهویً مُتَّبَعٌ، وَشُحٌّ مُطَاعٌ، وَإِعْجَابُ الْمَرْئِ بِنَفْسِه، وَهيَ أَشَدُّهنَّ ‘‘۔ (رواہ البیهقي فی شعب الإیمان، مشکوۃ المصابیح / ص: ۴۳۴/ باب الغضب و الکبر/ الفصل الثالث)      
ترجمہ  :   حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں ،رحمت  عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’تین چیزیں نجات دِلانے والی اور تین چیزیں ہلاک کرنے والی ہیں، نجات دلانے والی تین چیزیں تو یہ ہیں :۱- ظاہر و باطن (خلوت وجلوت)میں تقویٰ اختیار کرنا ۔ ۲-رضامندی اور ناراضگی (خوشی اور غمی) دونوں حالتوں میں حق بات کہنا۔ ۳- میانہ روی اختیار کرنا غنی اور فقر(تونگری اور تنگ دستی) میں، اور ہلاک کرنے والی تین چیزیں یہ ہیں:  ۱-اتباعِ ہوا ۔۲- وہ بخل جس کے تقاضوں پر عمل کیا جائے۔ ۳-آدمی کا اپنے آپ کوبطورِ عُجب (خودپسندی) اچھا سمجھنا، اور یہ چیز ہلاک کرنے والی باتوں میں سب سے زیادہ سخت ہے۔
تمام جِدوجُہد کا مقصد حصولِ کامیابی  :          
ایک طرف دنیا کے ہر سلیم الفطرت وشریف الطبیعت انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے فن اور شعبہ میں کامیابی حاصل کرے اور ایک کامیاب زندگی گذارے ، اسی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے وہ دن رات کوششوں اور جدو جہد میں لگا رہتا ہے، تو دوسری طرف خودصاحب ِشریعت، نبی رحمت،جناب محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے فطرت ِانسانی کو محسوس کرتے ہوئے وہ ہدایات دیں جن پر عمل کرنے سے نہ صرف دنیا بلکہ عقبیٰ کی کامیابی بھی یقینی ہوجاتی ہے۔رحمت عالم   صلی اللہ علیہ و سلم  کبھی تو حاضرین مجلس اور مخاطبین کے خاص حالات کے لحاظ سے اور کبھی کسی ایسے ہی سبب سے اپنی ہدایات میں خاص خاص اعمالِ صالحہ اوراخلاقِ حسنہ کی اہمیت اور خصوصیت بیان فرماتے، اور اسی طرح خاص خاص برے اعمال کی قباحت و شناعت پرخصوصیت سے زور دیتے تھے، کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم  معلم کائنات تھے ،او رایک معلم ومربی کا طرز بھی یہی ہوناچاہیے۔
تقویٰ سبب ِفلاح  :چنانچہ حدیث بالا میں بیان کردہ تین چیزیں دارین کی نجات کا سر چشمہ ہیں، اور حقیقی کامیابی کا راز ان میں مضمرہے۔ 
(۱)  ان میں پہلی چیز تقویٰ ہے، جو دینی زندگی کی اصل روح ہے۔اسی لیے قرآنِ کریم نے حکم دیاکہ{وَاتَّقُوْا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ} (آل عمران :۱۳۰)  اللہ تعالیٰ سے ڈرو، تقویٰ اختیار کرو، تاکہ تم فلاح پاؤ۔           
اب سوال یہ ہے کہ تقویٰ کیاہے؟ توقرآنِ کریم نے سورۂ مومنون کے شروع میں جن اوصاف سے متصف ہونے پر مومنین کوکامیابی کی خوشخبری دی ان اوصاف کا مجموعہ وسرچشمہ ہی تقویٰ ہے ،کیوں کہ تقویٰ میں تمام صفاتِ حسنہ جمع ہوجاتی ہیں، اس لیے خوشی میں، غمی میں، خلوت میں،جلوت میں، سفر میں اور حضرمیں {اِتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقَاتِہٖ} (آل عمران: ۱۰۲) کا حکم دیا، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر حال میں اس کا اختیار کرناضروری ہے، اس کے علاوہ بھی تقویٰ کا حکم قرآن کریم میں جابجا موجود ہے، حتی کہ کسی جگہ تو ایک ہی آیت میں دو دو مرتبہ اس کا ذکر ہے۔
جیسے حلوے کے تھال کو میوے سے سجایا جاتا ہے اسی طرح اﷲ پاک نے اپنے کلام کو تقوی سے سجایا۔‘‘ جس سے تقویٰ کی  مزیداہمیت ثابت ہوتی ہے، اور جیسا کہ عرض کیاگیاکہ تقویٰ صفاتِ حسنہ سے متصف ہو کرگناہوں اور برائیوں سے بچنے کو کہتے ہیں، لہٰذاجو شخص اپنے آپ کو گناہوں سے بچائے وہی در اصل متقی ہے، اﷲ رب العزت اس سے انتہائی محبت فرماتے ہیں، حتی کہ اسے اپنا ولی اور دوست بنا لیتے ہیں،جیساکہ فرمایا :        
{إِنْ أَوْلِیَاؤُھٗ إِلَّا الْمُتَّقُوْنَ} (الأنفال : ۳۴) متقی لوگوں کے سوا اور کوئی اس کا ولی نہیں ہوسکتا۔          حضرت شاہ ابرار الحق صاحب ہردوئی ؒ نے اس کی ترجمانی یوں فرمائی:جو خدا کے دوست ہیں وہ ہیں ولی ،جو گناہوں سے بچیں وہ ہیں متقی،دارین کی فلاح و کامیابی اُن ہی کے لیے ہے، اور دارین میں ہر قسم کے شر سے محفوظ و مطمئن یہی ہیں ، ہم بھی یہ مقام حاصل کرنا چاہیں تو تقویٰ کے ذریعہ حاصل کر سکتے ہیں، چنانچہ فرمایاگیا:
                                                    تو چنیں خواہی خدا خو اہد چنیں   ٭  می دہد یزداں مرادِ متقی      
پس واضح ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ کا ولی متقی ہے، اور تقویٰ و پرہیزگاری کلید ِکامیابی ہے۔ قرآنِ کریم نے اسے یوں بیان فرمایاہے :
{ أَلَاإِنَّ أَوْلِیَآئَ اﷲِ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَo اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَo (یونس :۶۲-۶۳)
(۲) دوسری چیز : حق کا قائل و مائل ہونا، کیوںکہ پرہیزگاری کے ساتھ بزدلی جمع نہیں ہوسکتی، تقویٰ حق گوئی کا تقاضا کرتا ہے، کہ بندہ ہر حال میں حق کا قائل ہو، اور یہ اس وقت ہوگا جب بندہ حق کی طرف حقیقۃً مائل ہو، جو حق کی طرف مائل ہی نہیں وہ حق کا قائل کیسے ہوگا؟ اورجو شخص ہر حال میں حق کا ساتھ دے وہ کامیاب ہے، کیوں کہ اﷲ تعالیٰ کی غیبی مدد اہل حق کے ساتھ ہوتی ہے، باطل کے ساتھ کبھی نہیں ، حق کے ساتھ حالات ضرور آتے ہیں، جیسا کہ خود تاریخ اس پر شاہد ہے، مگر جوبندے اس پر جمے رہے وہی کامیاب ہوئے، اس لیے کامیابی کی دوسری شرط ہے: ’’القَوْلُ بالْحَقِّ فِی الرِّضٰی وَالسَّخَطِ‘‘ہر حالت میں (حق نیت اور حق طریقے سے)حق کہے اور حق پر ثابت قدم رہے، یہ نہیں کہ موافق حالات میں تو حق بات کہے، اور مخالف حالات میں غلط بات کہے۔ سخت   حالات   میں  بھی  لب  کھولے   تو حق  بولے گرچہ آفات ہوں بہت پھر بھی لب کھولے تو حق بولے   ،   حضرت امام شافعیؒ فرماتے تھے کہ تین عمل بڑے سخت ہیں:(۱)تنگی کے و قت سخاوت۔(۲)تنہائی میں تقویٰ۔(۳)ایسے شخص کے سامنے حق بات کہنا جس سے کوئی امید وابستہ ہو، یا جس سے ڈر او رخوف ہو، لیکن اہل حق نے ہرحال میں اس پر عمل کر کے دکھایا۔
تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ   :   حضرت امام احمد بن حنبل ؒ کے زمانہ میں ایک زبردست فتنہ ’’خلق قرآن ‘‘ کا اٹھا، بغداد کے معتزلہ نے ہنگامہ کھڑا کر کے یہ چاہا کہ آپؒ کسی بھی طرح یہ تسلیم کر لیں کہ قرآن مخلوق ہے، اور اس سلسلہ میں آپؒ  کو دربارِ خلافت میں طلب کیا گیا، تو آپؒ نے ’’اَلْقَوْلُ بالْحَقِّ فِی الرِّضٰی وَالسَّخَطِ‘‘ کا ثبوت دیا، سخت حالات اور اذیتیں برداشت کیں، مگر قرآن کو مخلوق کبھی نہیں کہا ۔( تذکرۃ الاولیاء / ص :  ۱۳۳)      
ہر حال میں انہو ں نے حق کا ساتھ دیا،وہ جانتے تھے کہ حالات حق کے ساتھ ہوتے ہیں، اس لیے ہر حال میں حق پر جمے رہے، تو کامیابی ان کا مقدر بنی۔ جب آپؒ کی وفات ہوئی تو ۲۵ لاکھ افراد نے نمازِ جنازہ پڑھی، حضرت عبدالوہاب وراق ؒ فرماتے ہیں ’’تاریخ اسلام میں اس سے بڑے کسی جنازہ کا ثبوت نہیں ملتا، اس دن اس عظیم مجمع کو دیکھ کر ۲۰ ہزار کے قریب غیر مسلم دولت ِاسلام سے مشرف ہوئے ‘‘ ۔(البدایہ والنہایۃ/ ص :۷۹۳، )
اعتدال کی اہمیت:حصول کامیابی کاتیسرا اصول ’’میانہ روی‘‘ ہے، حد سے گذر جانے کو ’افراط‘، حدسے اُتر جانے کو ’تفریط‘ اور حد میں رہنے کو ’اعتدال‘ کہتے ہیں، قرآن کہتاہے کہ کامیاب ہوناچاہتے ہو تو {وَاقْصِدْ فِیْ مَشْیِکَ} (لقمان:۱۹) اعتدال کی راہ اختیار کرو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تقویٰ کے نام پر غلواختیار کیا جائے او راعتدال کی حدوں سے تجاوز کیاجائے، کہ اعتدال دینداری،مالداری اور محتاجی ہر حال میں اختیار کرناضروری ہے، یہ چیز زندگی کے ہر شعبہ میں مطلوب ہے ، اس سے انسان افراط وتفریط سے محفوظ رہتا ہے، کسی بھی حالت کا سامنا کرنے میں اسے دشواری نہیںپیش آتی۔
مولانا رومؒ  فرماتے ہیں:  در خبر خیر الامور اوساطہا   ٭  نافع آمد زاعتدال اخلاطہا
اسلام نے جو نظام پیش کیا اس میں کسی قسم کی نہ کمی ہے نہ زیادتی، نہ انتہا پسندی نہ بیجا سختی، نہ ایسی دینداری مطلوب ہے جو رہبانیت تک پہنچا دے اور نہ یہ جائز ہے کہ دنیا ہی مقصود بن جائے، دین ودنیا دونوں کی ہر حالت میں اعتدال اور میانہ روی مطلوب ہے۔ عموماً یہ مشاہدہ میں آتا ہے کہ جو لوگ میانہ روی اختیار نہیں کرتے امن و سکون ان کی زندگی سے رخصت ہوجاتا ہے، کیونکہ بے اعتدالی اور بدامنی میں چولی دامن کا تعلق ہے،ارشادِ ربانی ہے:{وَلَا تَعْتَدُوْا إِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ} ( بقرہ۱۹۰)اور زیادتی(وبے اعتدالی) نہ کرو، یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ بے اعتدالی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اس کے بر عکس جو لوگ ہر شعبہ میں میانہ روی اختیار کرتے ہیں وہ ہر کام کو خوش اسلوبی سے انجام دیتے ہیںاور خوشحال رہتے ہیں، وہ کبھی مایوس اور ناکام نہیں ہوتے۔اسلام کا نظام ہے پُر اعتدال، اس پر جو قائم ہے وہ ہے خوشحال حضور  صلی اللہ علیہ و سلم  کا یہ فرمان ان لوگوں کے لیے نہایت اہم ہے جو مالی فراوانی کے زمانہ میں اپنے خرچے بہت بڑھالیتے ہیں، او رپھر نامساعد حالات میں پریشانیوں سے دو چار ہوتے ہیں، اگرایسے لوگ خصوصی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ا س فرمان کو مشعل راہ بنالیں توبہت سی دشواریوں سے نجات پالیں۔
بہر حال! (۱)تقویٰ اور پرہیزگاری،(۲) حق گوئی اور (۳)میانہ روی، دارین میں کامیابی کے لیے لازمی و ضروری ہے۔
اتباعِ ہوا:  اس کے بعد حدیث پاک میں تین ایسی چیزوں کو بیان فرمایا جن سے ہلاکت اور بربادی آتی ہے۔
 ۱. ان میں پہلی چیز ہے اتباعِ ہوا۔   یاد رکھئے !  آج تک دنیا میں جب کبھی جہاں کہیں اور جو بھی تباہی آئی اس میں ہوائے نفسانی کو خاص دخل رہا ہے، آئندہ بھی اسی سے تباہی آئے گی، چناںچہ قرآنِ کریم نے ہواپرستوں کی ہلاکت کو یوں بیان فرمایا ہے: { فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِہِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوْا الصَّلوٰۃَ وَاتَّبَعُوْا الشَّہَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا} (مریم : ۵۹)پھر ا ن کے بعد ایسے ناخلف لوگ آئے جنہوں نے نماز کو ضائع کیا،اور اپنی نفسانی خواہشات کے پیچھے چلے، چنانچہ یہ لوگ عنقریب (آخرت میں) خرابی دیکھیں گے۔ ویسے خواہشاتِ نفسانی تو ہر انسان میں پائی جاتی ہیں، مگر شریعت نے اس نفسانی خواہش پر پابندی لگائی جو خلافِ شرع ہو، وہی مہلک اور مضر ہے، اسی نے قوموں کوہلاک کیا، مولانا جلال الدین رومی ؒ فرماتے ہیں:
                                         چیست حبل اﷲ؟ رہا کردن ہوا   ،    کیں ہوا، صرصر مر عاد را۔       
اﷲ تعالیٰ کی رسی کیا ہے؟ اتباعِ ہوا کو چھوڑنا، جس نے ہوا پرستی چھوڑ ی اس نے گویا اﷲ تعالیٰ کی رسی پکڑلی، اور جس نے حبل اﷲ کو پکڑا وہ کامیاب ہو گیا، اس کے بر خلاف جس نے خواہشاتِ نفسانی پر عمل کیا اور مرضی ٔ ربانی سے اعراض کیا وہ تباہ ہوگیا، قومِ عاد کے لیے تباہی بشکل آندھی آئی، اس کی وجہ یہی اتباعِ خواہشاتِ نفسانی تھی۔بخیلی سبب ِتباہی  :    
(۲)ہلاکت کا دوسرا سبب:   ایسا بخل ہے جس کا اتباع کیا جائے، جس کے تقاضوں پر عمل کیا جائے ایسی بخیلی سے تباہی و بربادی آتی ہے۔قرآنِ کریم نے اس کی طرف اشارہ فرمایا:     {وَمَنْ یَبْخَلْ فإِنَّمَا یَبْخَلُ عَنْ نَفْسِہِ}  (محمد : ۳۸)  اور جو شخص بھی بخل کرتاہے وہ خود اپنے آپ ہی سے بخل کرتاہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس کا نقصان خود اسی کو ہوتاہے۔’’شُح‘‘ یہ بخل کا سب سے اعلیٰ درجہ ہے، جس کے ساتھ حرص کی آمیزش بھی ہو۔ دوسرے لفظوں میں یوں بھی کہاگیاہے کہ’’شُح‘‘ یہ ہے کہ جو چیز اپنے پاس نہیں اس کی حرص کرے اور جو چیز اپنے پاس ہے اس میں بخل کرے اور  ضرورت پر بھی خر چ نہ کرے۔   
حضرت ابوعلی جرجانی   ؒ فرماتے ہیں: ’’بخل میں تین حروف ہیں: ’’ب‘‘ ’’خ‘‘ اور ’’ل‘‘،  بخل کے ان تینوں حروف سے اس طرف اشارہ ہوتا ہے کہ اس سے تباہی پیدا ہوتی ہے، اور وہ اس طرح کہ ’’ ب‘‘ سے مراد بلا ہے ، ’’خ‘‘ سے مراد خسران ہے اور ’’ل‘‘ سے مراد لوم یعنی ملامت ۔ (انوارالاتقیاء).
معلوم ہواکہ بخل سے بلائیں آتی ہیں، بخل سے خسران اور نقصان ہوتا ہے، بخل سے لوگوں کی ملامت اور ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔         چنانچہ منقول ہے کہ ایک شخص روٹی اور شہد لے کر کھانے بیٹھا، تو عین اس وقت دروازے پر کوئی مہمان آدھمکا، صاحب ِمکان میزبان بڑابخیل تھا، اس لیے فوراً روٹی اٹھاکر ایک طرف رکھ دی، اوراس سے پہلے کہ شہد غائب کرتا مہمان دروازہ کھول کر اندر آپہنچا، مہمان کے بیٹھ جانے کے بعد بخیل نے کہا: ’’روٹی کے بغیر آپ شہد چاٹنا پسند کریں گے؟‘‘ مہمان نے کہا: ’’کیوں نہیں؟‘‘ پھر آؤ دیکھا نہ تاؤ، مہمان نے انگلیوں سے شہد چاٹنا شروع کردیا، بخیل اسے یوں بے دردی سے شہد کا صفایاکرتادیکھ کر ضبط نہ کرسکا، اور بول پڑا: ’’آپ کو معلوم ہے کہ خالی شہد دل کو جلاتاہے؟‘‘ مہمان نے برجستہ جواب دیا: ’’جی ہاں، مگرآپ کے  دل کو!‘‘  (’’کتابوں کی درسگاہ میں‘‘ص :۱۱۷).
صاحبو!  بخیل اگرچہ مال سے امیر ہوتا ہے، مگر دل سے فقیر ہوتاہے۔ بخل کی مذمت کب ہے؟   لیکن حدیث شریف کی صراحت کے مطابق بخل کی یہ مذمت اس وقت ہے جب کہ اس کے تقاضوں پر عمل کیا جائے، اور اگر اس کے تقاضوں پر عمل نہ کیا جائے تو پھر یہی بخل اجر و ثواب کا سبب بھی ہے، مثلاً دیکھئے ! بعض اوقات صدقۃ الفطر یا ادائِ زکاۃ وغیرہ کے وقت بخل کی وجہ سے مال خرچ کرنے کا ارادہ نہیں ہوتا ،دل پر آرے چل رہے ہیں، مگرسخت ناگواری کے باوجود مرد مومن حکمِ الٰہی کی تکمیل کے خاطر مال خرچ کرتا ہے، تو اس کو دو اجرملتے ہیں: (۱) خرچ کرنے کا اجر۔(۲) اس پر گرانی کا اجر۔  پھر یہ چیز خلوص کے منافی بھی نہیں، کیوں کہ اخلاص کے لیے اپنی خوشی سے دینا شرط نہیں، اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے دینا شرط ہے۔
غرض! بخل مطلق برا نہیں، بلکہ اس کے تقاضوں پر عمل کیا جائے تب برا اور مہلک ہے، اس لیے کہ ارادۂ بخل غیر اختیاری ہے، جب کہ اس کے تقاضوں پر عمل کرنا اختیاری امر ہے، اور مؤ اخذہ اختیاری امور پر ہوتا ہے۔واﷲ اعلم ۔
(۳) عجب کی مذمت  :  ہلاکت کا تیسرا سبب’’ عُجب‘‘ ہے، اور عجب خود پسندی کو کہتے ہیں، جس کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ اپنے اعمال وکمالات پر نظر کرے، اوراعمال و کمالات کو اپنی طرف منسوب کرے، اور ان کے سلب ہو جانے سے بے خوف ہو جائے،حق تعالیٰ نے فرمایا:     { فَلاَ تُزَکُّوْا أَنْفُسَکُمْ ہُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَی} (النجم :۳۲) اپنے آپ کو پاکباز نہ ٹھہراؤ ،وہ خوب جانتاہے کہ کون نیک او رمتقی ہے۔ اس کے باوجود اگرکوئی عجب میں مبتلا ہوتاہے او راپنے علاوہ کسی پر اس کی  نظر ہی نہیں جاتی، تو پھریہ چیز انسان کو خالق و مخلوق دونوں کی نظر سے گرادیتی ہے، جیساکہ بنی اسرائیل کا وہ عابد جو پانچ سو سال تک عبادت میں مشغول رہ کر بھی جب عجب میں مبتلاہوا تواللہ تعالیٰ کو اس کی وہ اداپسند نہ آئی، جس کا واقعہ مشہور ہے،کیوں کہ اس مرض میں مبتلاہونے والا خود کو کبھی بیمار نہیں سمجھتا، بلکہ اگر کوئی اس کو نصیحت کرے اور سمجھائے تو وہ اسی کو غلطی پر سمجھتا ہے،اور بلاشبہ وہ  مرض بڑا سخت اور لاعلاج ہے جس کو مریض مرض نہ سمجھے، عجب کا روحانی مرض بھی اسی قسم کا ہے۔    
حضرت شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں: مرا پیر دانائے روشن شہاب٭
                           دو اندرز  فرمود بر روئے آبیکے آں کہ بر خویش خود بیں مباش،                                       دیگر آں کہ بر غیر بد بیں مباش   
مجھے میرے روشن ضمیر پیر حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی ؒ نے ایک بار کشتی میں بیٹھے ہوئے دو نصیحتیں فرمائیں:      
۱-        خود بینی اور خود پسندی میں کبھی مبتلا نہ ہونا ۔       
۲-        بد بینی میں کبھی مبتلا نہ ہونا، کامیاب رہوگے۔      اور اگر خود پسندی ہوگی تو حدیث کے مطابق تباہی ہوگی کہ عجب ہلاکت پیدا کرنے والی چیزوں میں سب سے زیادہ خطر ناک ہے۔اسی وجہ سے ایک بزرگ فرماتے تھے کہ رات بھرسو کر صبح کو ندامت کی حالت میں اٹھنا مجھے اِس سے زیاددہ پسند ہے کہ شب بیدار رہوں اور صبح کو عجب محسوس کروں کہ ندامت تو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے، لیکن عجب پسند نہیں۔
عجب کا علاج  :  علماء فرماتے ہیں کہ جو شخص عجب کا علاج کرنا چاہتاہے اسے چار چیزوں کا التزام کرنا ہوگا :
۱- ہر عمل او رکمال کو اللہ تعالیٰ کی توفیق کا ثمرہ سمجھے۔ اس سے عجب کے بجائے شکر کا جذبہ پیدا ہوگا۔          
۲- اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کی جو نعمتیں ہیں اُن کا دھیان رکھے۔ اس سے عمل  میں پختگی آئے گی اور عجب سے حفاظت ہوگی۔
۳- عمل کرکے بھی اس بات سے ڈرتا رہے کہ معلوم نہیںعمل قبول ہوگا یانہیں۔ ظاہر ہے کہ جس دل میں یہ خوف ہوگا اس میں عجب کیسے پیداہوگا؟           
۴- اپنے گناہوں اور خامیوں پر نظر ڈالے۔ کیوںکہ جب یہ خطرہ غالب رہے گا کہ کہیں خامیاں اور کوتاہیاں خوبیوں اور نیکیوںپر غالب نہ آجائیں، تو عجب پیدانہیں ہوسکتا۔ اب جو عجب سے بچ گیا وہ ہلاکت سے بچ گیا۔        
بہر کیف! اس حدیث کاحاصل یہ ہے کہ جس شخص کو یہ فکر او رخواہش ہو کہ وہ نجات حاصل کرے او رہلاکت سے بچے، اسے چاہیے کہ وہ ان منجیات پر عمل کرے،اور مہلکات سے اجتناب کرے، ظاہر و باطن ہر حال میں تقویٰ اور خوفِ الٰہی اس کاشعا ررہے۔اور خواہ کوئی خوش ہو یاناراض، مگر ہمیشہ سلیقہ سے انصاف او رحق کی بات کہے۔اور خوش حالی و تنگ دستی دونوں حالتوں میں میارنہ روی اختیار کرے، اور اسی کے ساتھ خواہشاتِ نفسانی او ربخل کے تقاضوں پر نہ چلے، نیز خود پسندی کی مہلک روحانی بیماری سے بھی بچے۔پھر دارین میں کامیابی اس کا مقدر بن جائے گی۔ ان شاء اللہ۔           حق تعالیٰ ہمیں منجیات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرماکر مہلکات سے بچائے، آمین یا رب العالمین۔ وَ آخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِیْنَ یَا رَبِّ صَلِّ وَ سَلِّمْ دَائِماً أَبَدًاعَلٰی حَبِیْبِکَ خَیْرِالْخَلْقِ کُلهم .

                                                            بحوالہ   گلدستہ حدیث    بتغیر   یسیر  :  اکبر حسین اورکزئی