جمعرات، 29 دسمبر، 2016

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حسنِ سلوک اور اخلاق كي بلندي

 عن أنس قال : خدمت النبي صلى الله عليه و سلم عشر سنين فما قال لي : أف ولا : لم صنعت ؟ ولا : ألا صنعت ؟ متفق عليه( بحواله مشكوة)
اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دس سال خدمت کی (اس پورے عرصہ میں ) مجھ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اف بھی نہیں کہا اور نہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ تم نے یہ کام کیوں کیا ، اور یہ کام تم نے کیوں نہیں کیا ۔ (بخاری)
تشریح :
مسلم " کی روایت میں نوسال کے الفاظ ۔ بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ سے ہجرت فرماکر مدینہ منورہ تشریف لائے تو اس وقت حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر باختلاف روایت آٹھ سال یا دس سال کی تھی ، ان کی والدہ ماجدہ اور ان کے بعض اور رشتہ دار جو انصار میں سے تھے، ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے اور خدمت مبارک میں دے دیا ، چنانچہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس دن سے اس وقت تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں دس سالہ قیام کے بعد اس دنیا سے رخصت ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسلسل خدمت کرتے رہے اور اس حدیث میں وہ آنحضرت کے ساتھ اس طویل خادمانہ تعلق کا تجربہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پورے عرصہ میں میری کسی غلطی اور کسی کوتاہی پر ڈانٹنا ڈپٹنا تو کجا کسی بات پر اف تک نہیں کیا ۔ الف کے پیش اور ف کی تشدید اور زیر کے ساتھ ہے ایک نسخہ میں یہ لفظ کے زبر کے ساتھ ایک نسخہ میں تنوین مکسورہ کے ساتھ ہے ، یہ لفظ انسان کی زبان سے اس وقت نکلتا ہے جب وہ کسی ناپسند یا تکلیف دہ صورت حال سے دوچار ہوتا ہے ۔
تم نے یہ کام کیوں کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ۔ ۔" اس جملہ کے ذریعہ بھی حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن سلوک اور کمال خلق کو بیان کیا کہ اس طویل زمانہ میں ایسا کبھی ہوا کہ میں نے از خود کوئی کام کیا ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اعتراض فرمایا ہو کہ تم نے میری مرضی کے بغیر یہ کام کیوں کیا ، یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کسی کام کے لئے کہا ہو اور میں اس کام کو نہ کرسکا ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب طلب کیا ہو کہ تم نے یہ کام کیوں نہیں کیا لیکن واضح رہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معاملہ اور سلوک دنیا وی امور یا ذاتی خدمت کے تعلق سے بیان کیا ہے نہ دینی معاملات وامور سے متعلق ، کیونکہ کسی دینی کام کے کرنے یا نہ کرنے پر اعتراض پر چشم پوشی روا نہیں ہے ۔ علامہ طیبی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے لکھا ہے کہ حدیث کے بین السطور سے خود حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خوبی ظاہر ہوتی ہے یا یوں کہے کہ ایک طرح سے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی تعریف بھی بیان کی کہ میں نے ایسا موقع کبھی نہیں آنے دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میرے کسی کام پر کوئی اعتراض ہوا ہو یا مجھ سے کوئی شکایت پیدا ہوئی ہو لیکن یہ بات کہنا کچھ زیادہ موزوں معلوم نہیں ہوتا ، حدیث کا جو سیاق وسباق ہے اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلق نبوی کے متعلق جن احساسات کا اظہار کرنا چاہتے ہیں ان کے پیش نظر حدیث کا اصل مفہوم وہی ہے جو پہلے ذکر ہوا ۔
طالب دعاء : اكبر حسين اوركزئي

ہفتہ، 24 دسمبر، 2016

خبردار کہ کرسمس مبارکباد نہ دیں

         بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ
قُلْ هُوَ اللّـٰهُ اَحَدٌ (1)
کہہ دو وہ اللہ ایک ہے۔
اَللَّـهُ الصَّمَدُ (2)
اللہ بے نیاز ہے۔
لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُوْلَدْ (3)
نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے۔
وَلَمْ يَكُنْ لَّـهٝ كُفُوًا اَحَدٌ (4)
اور اس کے برابر کا کوئی نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ کرسمس مبارک ہویا Merry Christmasکہنا کیسا ہے؟اس کے معنی کیا ہیں؟ کیا کسی دوست کو Merry Christmas کہا جاسکتا ہے؟اسی قسم کے سوالوں کا جواب اگر اہل علم کی آرا میں تلاش کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ’میری کرسمس کا مطلب ہے ’اللہ کو بیٹا ہواہے،مبارک ہو‘نعوذ باللہ ۔جبکہ قرآن پاک میں یوں وارد ہے کہ کہہ دو کہ اللہ ایک ہے، اللہ بے نیاز ہے، نہ اسے کسی نے جنا اور نہ اس نے کسی کو جنا۔ اور کوئی اس کا ہمسر نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اہل علم اسے حرام قراردیتے ہیں، اور فرماتے ہیں کہ وہ وکرسمس کی مبارکباد نہیں دیتے بلکہ حوالے کیساتھ انہی کی کتاب سے پوچھتے ہیں کہ بتاؤ کہاں لکھاہوا ہے کہ عیسی علیہ اسلام خدا کے بیٹے ہیں۔
تاریخی دلیل مفقود:
یوروپ کے زمانہ قدیم میں شرک کافروغ ہوا اور 25 دسمبر مشرکین کا ایک خاص سردیوں کا تہوارمنایا جانے لگا۔ قبل از مسیح پچیس دسمبر کے بارے میں کئی قصے مشہور ہیں لیکن یوروپی مورخین کے درمیان اس کی حقیقت کے بارے میں اختلاف ہے جبکہ یہ طے شدہ ہے کہ عیسی علیہ اسلام کی پیدائش 25 دسمبر کو ہونے کی کوئی تاریخی دلیل موجود نہیں ہے۔جب مسیحیت میں بدعات در آئیں اور غلط عقائد کی بنیاد پر یہ ایک شرکیہ مذہب بن گیا تو وہی قدیم یوروپ کے شرکیہ تہوار کو ہی مسیح کی پیدائش کا دن قرار دے کے کرسمس منایا جانے لگا۔مسیحیوں کے نزدیک عیسی علیہ السلام خدا کے بیٹے ہیں۔ اور جب مسیحی عیسی علیہ السلام کی پیدائش مناتے ہیں تو گویا وہ اس دنیامیں نعوذ باللہ خدا کے بیٹے کی آمد کا جشن مناتے ہیں۔ مسلمان اپنی طرف سے جو بھی سمجھ کر انہیں مبارک باد دیں، اس کے معنی بہرحال یہی ہیں کہ ہم خدا کے بیٹے جس کو وہ انسانیت کا نجات دہندہ سمجھتے ہیں کی آمد پر ان کی خوشیوں میں شریک ہو رہے ہیں۔ اللہ کے بارے میں جھوٹی صفات گھڑنا اور خاص طورپر اس کیلئے بیٹا تجویز کرنا شرک کی انتہائی سنگین صور ت ہے جبکہ اللہ رب العزت نے قرآن پاک کی سورہ مریم میں اس قسم کے عقیدہ کیلئے سخت سے سخت لہجہ اختیار کیاگیا ہے۔
کیا تھا مکی اور مدنی دور میں؟
مکہ اور مدینہ میں عیسائی گنتی کے تھے۔ انہیں میں سے ایک مکہ میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے چچیرے بھائی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کی۔ اس کے علاوہ چند ایک اور مکی عیسائی تھے، اسی طرح مدینہ میں چند ایک عیسائی تھے‘جن میں ایک تو مسلمانوں کا بڑا دشمن شمارکیا جاتا ہے جس کا نام عامربتایا جاتا ہے جو بدر وغیرہ میں قریش کی جانب سے لڑا بھی تھا ۔ پھر ایک صحابی کے دو بیٹوں کا ایک تاجر مشنری کے ہاتھ عیسائیت قبول کرکے چلے جانے کا ذکر ملتا ہے۔ جس پر غالباً قرآنی آیت’دین میں کوئی جبر نہیں‘ نازل ہوئی۔ان دنوں مکہ یا مدینہ میں کوئی کلیسا یا چرچ ہی نہیں تھا تو وہ کرسمس کیا مناتے، نیز ان میں سے قریب80تا90 فیصد یعنی درجن بھر یا زیادہ لوگوں میں سے راہب ہو گئے تھے۔ دورحاضر کا کرسمس تو کئی صدیوں بعد جا کر’اسٹریم لائن‘ہوا جس میں عیسی علیہ اسلام کی ولادت منانے کیساتھ ہر ملک کی اپنی ثقافت بھی موجود ہے۔ 
’سیکولرزم ‘کے نام پر:
آج نام نہاد’سیکولرزم ‘کی بدولت کرسمس کا تہوار، کرسمس ٹری، سانتا کلاز اور اسکے تحفے گویا کہ پوری دنیا پر رواداری کے نام پر مسلط کئے جارہے ہیں۔نوبت یہ آچکی ہے کہ بعض خلیجی ممالک میں تو یہ’خوشیوں‘کا موسم بن گیا ہے اور جگہ جگہ پر کرسمس ٹری اور سانتا کلاز کے مجسمے نظر آنے لگے ہیں۔ مسلم بچوں کوا سکولوں میں کرسمس کے ترانے سکھائے جارہے ہیں۔ مسیحیت کے کرسمس میں عیسی علیہ السلام کو مرکزیت حاصل تھی جبکہ موجودہ جدید کرسمس میں سانتا کلاز کو مرکزیت حاصل ہے۔عجیب بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ رواداری اور خوشیوں کے نام پر ہورہا ہے۔ اس مسیحی جشن کی سیکولرائزیشن سے دینی امتیاز چھیننے کی کوشش بتدریج جارہی ہے۔ اس سلسلہ میں شیخ ابو اسحاق الحوینی Abu Ishaq Al Heweny مصر کے ایک بڑے عالم، مفتی اور محدث ہیں۔ محدث عصر شیخ ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ علیہ کے خاص شاگردوں اور معروف عرب خطیبوں میں شمار ہوتے ہیں۔ زیر نظر عبارت ان کے ایک خطبہ بہ عنوان’الوَلاءْ لِمَن؟‘سے ماخوذ ہے۔ اردو استفادہ کے دوران یہاں برصغیرہند‘ پاک کی مناسبت سے اس میں تصرف کیا گیا ہے البتہ خطبے کی روح جوں کی توں قائم رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔
عقیدہ ’ولاء و براء‘ :
معزز حضرات‘حمیتِ دینی ‘عقیدہ ’ولاء و براء‘ دراصل اس چیز کا نام ہے کہ یہ شخص اللہ رب العزت کے ساتھ ایک واضح وابستگی رکھتا ہے؛ اِس عقیدہ کی رو سے مسلمان کی دوستی اور دشمنی کا محور خدا کی ذات ہو جاتی ہے133 ہمارے دشمنوں نے جب یہ جانا تو وہ سب سے بڑھ کر ہمارے اِسی عقیدہ کے درپے ہوئے اور اِسی کو بے جان کر دینے کی ٹھانی۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہاں عجیب و غریب اصطلاحات کا ڈھیر لگ گیا؛ ایسی اصطلاحات جن کو ہماری اِس امتِ توحید نے آج تک کبھی نہیں جپا تھا: ’انسانی اخوت‘133 اور ’عالمی برادری‘133 اور نہ جانے کیاکیا! اور تو اور، بڑیبڑے مولوی حضرات یہ بولی بولنے لگے: ’ہمارے عیسائی بھائی‘! ’ہمارے غیر مسلم بھائی‘! خبردار رہو؛ یہ اپنے ایمان کو داغ لگانے کے مترادف ہے۔ یہ عقیدہ ’الولاء والبراء‘کی پامالی ہے۔ یہ جن کو تم ’بھائی‘ کہتے ہو، اللہ عزوجل ان کو ’کافر‘ کہتا ہے۔
کیا ہوگیا تاجروں کو؟
اس حمیت دینی یعنی عقیدہ ’ولاء وبراء ‘ کو پامال ہوتا دیکھنا ہو تو اپنے امپورٹ اور ایکسپورٹ سے منسلک تاجروں کو دیکھو، کہ یہ کسی کسی وقت ان کافروں کو کیسا احترام دیتے ہیں۔ کس طرح ان کے آگے بچھے جاتے ہیں۔ جب تک کافر کرسی پر رونق افروز نہ ہوجائے ہمارا یہ فرزند اسلام نشست سنبھالنے کا روادار نہ ہوگا! اس کے آگے پیچھے یوں دوڑا پھرے گا گویا ایں سعادت دوبارہ نیست! وہ کوئی کفر بک دے، اِس کا مہمان رہتے ہوئے حرام کاری کرے، شرابیں پئے، مجال ہے جو اِس کی مسکراہٹیں ختم ہونے میں آئیں اور اس کے روبرو اِس کی ’خندہ پیشانی‘ میں کوئی فرق آئے! اور خدا کی خاطر غضب ناک ہونا تو گویا اس نے کبھی سنا اور نہ جانا!اس حمیت دینی یعنی عقیدہ ’ولاء وبراء‘کو پامال ہوتا دیکھنا چاہو تو اس وقت دیکھو جب کسی یونیورسٹی میں کوئی نامور مستشرق تقریر فرمانے آیا ہو؛ تم پہلی بار اپنے بڑے بڑے دانشور جغادریوں کے ہوش اڑے دیکھو گے؛ اور اس کیلئے اِنہیں ایسے ایسے القاب استعمال کرتا اور اْس کی شان میں ایسے ایسے قلابے ملاتا دیکھو گے کہ تھرڈ ورلڈ کی پوری اوقات اِس ایک ’دانشور‘ کے رویے میں نظر آجائے! مجھے آج تک یاد ہے جب جان پالکٹر جو کہ ایک وجود Existentialist دہریہ ہے، اپنی داشتہ کے ہمراہ جامع ازھر میں ’خطاب‘ فرمانے آیا؛ اس وقت میں جامعہ الاَزھر میں تھا اور میں نے وہاں پر عجب حال دیکھا تھا۔
مسجد کے تقدس کی پامالی:
الاَزھر میں ہی میرا اپنا چشم دید واقعہ ہے، جہاں کافر سیاحوں کا سیر کیلئے آنا ایک معمول ہے۔ جس طرح وطن عزیز کی متعدددشاہی مساجد کو ’سیرگاہ‘کا درجہ دے دیا گیا ہے اور جس کے باعث یہاں کافر مردوں اور عورتوں کا ’سیر‘ کی غرض سے آنا جانا ہردم لگا رہتا ہے۔ مسجدانتظامیہ نے ایک خاکروب کو چند دوپٹے تھما رکھے تھے کہ غیر ملکی سیاح عورتوں کو، جو یہاں ’سیر‘ کرنے اور مسجد کا تقدس اپنے پیروں تلے روندنے آتی ہیں، ننگے سر دیکھو تو ایک عدد دوپٹہ پیش کرو ! انتظامیہ کے ’تقویٰ‘ اور ’خداخوفی‘ کی داد دیتے چلئے؛ سر کے کچھ حصے پر پارچہ نما کوئی چیز ہونا لازم ہے ورنہ مسجد کی بے حرمتی ہو سکتی ہے! کیا دیکھتا ہوں، ایک عورت جو مِنی سکرٹ پہنے ہوئے ہے؛ آدھی آدھی رانیں برہنہ کررکھی ہیں، خاکروب کا دیا ہوا دوپٹہ ’انجوائے‘ کرتی مسجد میں ہر طرف بھاگی پھرتی ہے! ادھر اسی حلیہ کی ایک برہنہعورت خاکروب سے دوپٹہ پکڑنے پر آمادہ نہیں! میں خاکروب اور اس عورت کی تکرار سننے کیلئے ذرا رک گیا۔ خاکروب کو اپنی ’ڈیوٹی‘ پوری کرنی ہے؛ یہ اْس کو دوپٹہ پکڑا رہا ہے۔ جبکہ مِنی سکرٹ میں ’ملبوس‘ یہ عورت دوپٹے کے بغیر ہی مسجد کی سیر کرآنے پر مصر ہے! پھر جانتے ہو کیا ہوا؟ عورت اپنے پرس سے ایک پاونڈ کا نوٹ نکالتی ہے اور خاکروب کے ہاتھ پر دھر دیتی ہے؛ جس پر خاکروب خاموشی سے اپنا مطالبہ واپس لے لیتا ہے! صرف ایک پاؤنڈ لگا مسجد کی حیثیت خاک میں ملانے پر! یہ ہو رہا ہے خدا کے گھروں میں’ان گھروں میں جنہیں بلند کرنے کا، اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ نے اذن دیا ہے‘‘! ذرا میرے ساتھ غور کرتے چلئے ؛ جامع مسجد ازھر میں یا آپ کی فیصل مسجد اور بادشاہی مسجد میں کفار کا آنا بھلا کس غرض سے ہے؟ کیا اِن مقامات پر ’مسجد‘کے احکام کا نفاذ موقوف کردیا گیا ہے؟ اب یہ مسجدیں نہیں رہیں؟ خدا کی تعظیم اور کبریائی کیلئے مخصوص جگہیں نہیں ہیں؟ کیا یہ عجائب گھر ہے؟ سیرگاہ ہے؟ نہیں، یہ اللہ کا گھر ہے جس کا یہ حشر ہو رہا ہے۔ ہم بھی کہتے ہیں کافر مسجد میں داخل ہو سکتا ہے مگر صرف کسی ایسی غرض سے جو اللہ کے گھر کے شایان ہو، نہ کہ اس کو ’سیرگاہ‘ سمجھ کر۔ کافر یہاں کوئی سوال پوچھنے کیلئے آنا چاہیں، مسلمانوں سے کسی معاملہ میں رجوع کیلئے آنا چاہیں، یا کسی اور معقول غرض کیلئے آنا چاہیں؛ ضرور آئیں‘ سو بار آئیں‘ مرد آئیں‘ عورتیں آئیں‘ ہم کبھی اعتراض نہیں کریں گے۔ کفار یقیناًنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مسجد میں ہی حاضر ہوا کر تے تھے، مگر کفار کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وہاں حاضر ہونے میں بھی مسجد کی ایک ہیبت اور شان قائم ہوتی تھی۔ البتہ مسجد کو ’تماشے کی جگہ‘ بنانے والے آج کے مسلمان ہیں جو اپنے دین کے مسلمات کو مسلسل روندتے چلے آرہے ہیں۔ اسلام کے یہ سپوت آج مسجدوں سے ’سیاحت‘کی کمائی کریں گے اور اگر برہنہ عورتوں کو یہاں آنے سے روکا گیا تو سیاحوں کا رخ ادھر کو نہیں رہے گا!
نئے سال کا جشن:
اور یہی ہپی نیو ایئر کی رات ہے۔ بدکاریوں کی رات‘ زناکاریوں کی رات‘ شرابیں پینے کی رات۔ زمین ازخود ناپاک نہیں ہوتی اس پر رہنے والے اس کو ناپاک کرتے ہیں۔ زمین ازخود دارالکفر نہیں ہوتی اس کے باشندے اپنے عقائد اور اعمال سے اس کو دارالکفر کردیتے ہیں۔ یہی مکہ ہے جو خدا کا پسندیدہ ترین بقعہ زمین ہے مگر پھر بھی یہ کچھ دیر دارالکفر رہنے کے بعد جاکر دارالاسلام بنتا ہے۔ چنانچہ آج کا دارالکفر کل کا دارالاسلام ہوسکتا ہے اور کل کا دارالاسلام آج کا دار الکفر۔ ایمان وکفر کے مسئلہ سے زمین بیچاری کا کیا تعلق؟ اس کے باوجود، خدا ہمیں منع کرتا ہے کہ ’مَسَاکِنِ الَّذِینَ ظَلَمْوا‘کے باشندے بن کر رہیں، حالانکہ زمین ساری اللہ کی ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ یہ مسئلہ عقیدہ عقیدہ ’ولاء و براء‘ میں داخل ہے۔ ان بستیوں میں ظالموں کے کرتوتوں کی باقیات دیکھنا صبح شام قلوب کو متاثر کرتا ہے۔ایسی جگہیں جہاں پر خدا کا قہر اترا وہ ہماری نگاہ میں معمول کی چیز ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ’ابوالہول‘، ’اہرام‘ اور ’بادشاہی قلعہ‘ ایسی سیرگاہ بن جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تبوک کے سفر کے دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب حِجر کے علاقہ میں دیار ثمود کے پاس سے گزرے تو چہرہ مبارک ڈھانپ لیا‘ سواری کو تیز کر لیا۔ اور اصحاب رضی اللہ عنہم سے یوں فرمایاکہ ’جب تم ظالموں کے دیار سے گزرو تو تیز ہو جاؤ، اس ڈر سے کہ تمہیں بھی وہ چیز نہ آلے جس نے ان کو آلیا تھا‘ کیا تم نے غور کیا؟ یہ نافرمان مرا پڑا ہے اور تمہیں ہدایت کی جارہی ہے کہ یہاں تیزی سے گزر جاؤ اور اس والے انجامِ بد سے خدا کی پناہ مانگو۔ تو پھر زندہ نافرمان سے دوستی اور بغل گیری چہ معنیٰ! وہ کافر جو خود تمہارے سامنے نافرمانی کررہا ہے اس کے ساتھ البتہ تمہاری خوب خوب دوستی نبھے؟! یہ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو تمہیںیوں خبردار فرما رہے ہیں کہ’جو شخص مشرکوں کے ساتھ رہن سہن رکھے وہ انہی میں سے ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تنبیہ کافی نہیں؟
( یہ مضمون فکر وخبر  ویب سائٹ سے کوپی کی ھے )  

جمعہ، 23 دسمبر، 2016

جمعہ کا دن اور اسکے اعمال

ارشاد باری تعالی ھے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّـهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ۚذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ﴿٩﴾
ترجمہ: ائے ایمان والو ! جب جمعہ کے روز نماز کے لئے اذان کہی جائے تو تم اللہ کی یاد کی طرف چل پڑا کرو اور خریدو فروخت چھوڑ دیا کرویہ تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے۔ (بیان القرآن/ج:۱۲/ص:۶) 

اس دن کو یوم الجمعہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ مسلمانوں کے اجتماع کا دن ہے، اور آسمان و زمین اور تمام کائنات کی تخلیق جو حق تعالیٰ نے چھ دن میں فرمائے ہے ، ان چھ میں سے آخری دن جمعہ ہے، جس میں تخلیق کی تکمیل ہوئی، اسی دن میں آدم ؑ پیدا کئے گئے۔ اسی روز میں انکو جنت میں داخل کیا گیا، پھر اسی دن میں انکو زمین کی طرف اتارا گیا، اسی دن میں قیامت قائم ہوگی اور اسی دن میں ایک گھڑی ایسی آتی ہے کہ اس میں انسان جو بھی دعا کرے قبول ہوتی ہے۔ یہ سب باتیں احادیث صحیحہ سے ثابت ہوتے ہیں۔
(ابن کثیر)(معارف القرآن/ج:
۸/ص:۴۴۰)
’’
نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ ‘‘ نداء صلٰوۃ سے مراد اذان ہے۔اور ’’مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ بمعنی  فِی يَوْمِ الْجُمُعَةِ ‘‘ہے۔
’’ 
فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّـهِ ‘‘ ،سعی کے معنی دوڑنے کے بھی آتے ہیں اور کسی کام کو اہتمام کے ساتھ کرنے کے بھی ، اس جگہ یہی دوسرے معنی مراد ہیں، کیونکہ نماز کے لئے دوڑتے ہوئے آنے کو رسول اللہﷺ نے منع فرمایا ہے، اور یہ ارشاد فرمایا ہے کہ جب نماز کے لئے آؤ تو سکینت اور وقار کے ساتھ آؤ، آیت کے معنی یہ ہیں کہ جب جمعہ کے دن جمعہ کی اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو، یعنی نمازو خطبہ کے لئے مسجد کی طرف چلنے کا اہتمام کرو، جیسا دوڑنے والا کسی دوسرے کام کی طرف توجہ نہیں دیتا، اذان کے بعد تم بھی کسی اور کام کی طرف بجز اذان و خطبہ کے توجہ نہ دو۔ (ابن کثیر)
ذکراللہ سے مراد نماز جمعہ بھی ہوسکتی ہے اور خطبہ جمعہ جو نماز جمعہ کے شرائط و فرائض میں داخل ہے وہ بھی، اسلئے مجموعہ دونوں کا مراد لیا جائے یہ بہتر ہے۔ (مظہری)
فائدہ: اذان جمعہ کے بعد سارے ہی مشاغل کا ممنوع کرنا مقصود تھا جن میں زراعت، تجارت، مزدوری، سبھی داخل ہیں۔ مگر قرآن کریم نے حرف بیع کا ذکر فرمایا، اس سے اس طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے کہ جمعہ کی نماز کے مخاطب شہروں اور قصبوں والے ہیں، چھوٹے دیہات اور جنگلوں میں جمعہ نہیں ہوگا۔اسلئے کہ شہروں اور قصبوں میں جو مشاغل عام لوگوں کو پیش آتے ہیں انکی ممانعت فرمائی گئی وہ بیع و شراء کے ہوتے ہیں، بخلاف گاؤں والوں کے انکے مشاغل کاشت اور زمین والوں سے ہوتے ہیں۔ اور باتفاق فقہائے امت یہاں بیع سے مراد فقط فروخت کرنا نہیں بلکہ ہر وہ کام جو جمعہ کی طرف جانے کے اہتمام میں مخل ہو وہ سب بیع کے مفہوم میں داخل ہیں اسلئے اذان جمعہ کے بعد کھانا، پینا، سونا، کسی سے بات کرنا، یہاں تک کہ کتاب کا مطالعہ کرنا وغیرہ سب ممنوع ہیں۔ صڑف جمعہ کی تیاری کے متعلق جو کام ہوں وہ کئے جا سکتے ہیں۔ (معارف القرآن/ج:
۸/ص:۴۴۱)
اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لئے اجتماع اور عید کا ہر ہفتہ میں یہ دن جمعہ کا رکھا تھا، مگر پچھلی امتوں کو اسکی توفیق نہ ہوئی، یہود نے یوم السبت(سنیچر کے دن) کو اپنا یوم اجتماع بنا لیا، نصاری نے اتوار کو۔
اللہ تعالی نے اس امت کو اسکی توفیق بخشی کہ انہوں نے یوم جمعہ کا انتخاب کیا۔جاہلیت میں اس دن کو ’’یوم عروبہ‘‘ کہا جاتا تھا۔ سب سے پہلے عرب میں کعب بن لؤی نے اسکا نام جمعہ رکھا۔ (معارف القرآن/ج:
۸/ص:۴۴۰)
 

آخر کب تک ؟

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
 (أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم مَّا يَتَذَكَّرُ فِيهِ مَن تَذَكَّرَ وَجَاءَكُمُ النَّذِيرُ) (سورۃفاطر؍۳۷( 
ترجمہ:۔’’کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی کہ جس میں جس کو سمجھنا ہوتا سمجھ لیتا۔اور تمہارے پاس ڈرانے والا بھی پہنچاتھا‘‘۔

 تفسیر وتشریح:۔
)أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم ۔۔۔یہ سب اہلِ دوزخ سے ان کے جواب میں کہا جائے گا۔ آخرت میں اہلِ جہنّم پر جو حجّت قائم ہوگی، اس کا پہلا جز یہی ہے،یعنی کیا تمہیں اتنی مہلت نہیں ملی تھی کہ تم آیاتِ حق پر غور کرسکتے اور اپنا نفع ونقصان سوچ لیتے؟ 
) وَجَاءَكُمُ النَّذِيرُ) یہ جواب کا دوسرا جزء ہوا،یعنی کیا تمہیں انبیاء کی دعوت ہدایت، براہ راست یا بالواسطہ نہیں پہنچ چکی تھی؟ نذیر عام ہے انبیاء اور ان کے سب نائبین کے لئے۔

)تفسیر ماجدی:ج؍۵ ص؍۴۴۲(
)أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم ۔۔۔الآیۃ) یعنی جب جہنّم میں یہ فریاد کریں گے اے ہمارے پروردگار آپ ہمیں اس عذاب سے نکال دیجئے اب ہم نیک عمل کریں گے اور پچھلی بد اعمالیوں کو چھوڑ دیں گے، اس وقت یہ جواب دیا جائے گا کہ کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر کی مہلت نہیں دی تھی جس میں غور کرنے والا غور کرکے صحیح راستے پر آجائے۔حضرت علی بن حسین زین العابدینؓ نے فرمایا کہ اس سے مراد سترہ سال کی عمر ہے۔ اور حضرت قتادہؓ نے اٹھارہ سال کی عمر بتلائی اور مراد اس سے عمرِ بلوغ ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ جس شخص کو صرف عمر بلوغ ملی اس کو بھی قدرت نے اتنا سامان دییدیا تھا کہ حق وباطل میں امتیاز کرسکے،جب نہ کیا تو وہ بھی مستحق ملامت وعذاب کا ہے۔ لیکن جس کو زیادہ عمر طویل ملی اس پر اللہ تعالیٰ کی حجّت اور زیادہ پوری ہوگئی وہ اگر اپنے کفر ومعصیت سے باز نہ آیا وہ زیادہ مستحق عذاب وملامت ہے۔
حضرت علی مرتضیٰؓ نے فرمایا وہ عمر جس پر اللہ تعالیٰ نے گناہگار بندوں کو عار دلائی ساٹھ سال ہے۔ اور حضرت ابن عبّاسؓ نے ایک روایت میں چالیس اور دوسری میں ساٹھ سال کے متعلّق فرمایا ہے کہ یہ وہ عمر ہے جس میں انسان پر اللہ کی حجّت تمام ہوجاتی ہے۔ اور انسان کو کوئی عذر کرنے کی گنجائش نہیں رہتی۔)معارف القرآن:ج ؍۷ ص؍۳۵۱(انسان کو اوسطاً جتنی عمر دی جاتی ہے، وہ اتنی طویل ہے اور اس میں انسان اتنے مختلف مراحل سے گزرتا ہے کہ اگر واقعی وہ حق تک پہنچنا چاہے تو پہنچ سکتا ہے۔ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبردار کرنے والے بھی اسی عمر کے دوران آتے رہتے ہیں۔ خبردار کرنے والے سے مراد انبیائے کرام اور اس امّت کے لئے آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلّم ہیں۔ جنہوں نے انسان کو آخرت کے عذاب سے آگاہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔اور آپ کے بعد آپ کے صحابہ اور ہر دور میں علماء بھی یہ فریضہ انجام د یتے رہے ہیں۔ اور بعض مفسّرین نے خبردار کرنے والے کی تفسیر یہ کی ہے کہ انسانی عمر کے مختلف مرحلوں پر جو چیزیں موت کی یاد دلاتی ہیں،یہاں خبردار کرنے والے سے وہ مراد ہیں۔ چنانچہ بڑھاپے کے مقدمے کے طور پر جب انسان کے بال سفید ہوتے ہیں تو وہ بھی خبردار کرنے والا ہے۔جب کسی کے یہاں اس کا پوتا پیدا ہوتا ہے تو وہ بھی ڈرانے والا ہے کہ موت کا وقت قریب آرہا ہے۔ نیز انسان کو جو بیماریاں لاحق ہوتی ہیں وہ سب بھی موت کی یاد دلا کر انسان کو خبردار کرتی ہیں کہ وہ آخرت کی بہتری کا کوئی سامان کرلے۔  )توضیح القرآن:مفتی محمّد تقی عثمانی۔ج؍۳ ص؍۱۳۴۴(

زبان کی حفاظت کی جائے

اللہ تعالیٰ کا ارشاد 
﴿مَّا يَلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَ‌قِيبٌ عَتِيدٌ ﴾﴿سورة ق - ١٨﴾
ترجمہ: ’’انسان کوئی لفظ زبان سے نکال نہیں پاتا، مگر اس پر ایک نگراں مقرر ہوتا ہے، ہر وقت (لکھنے کے لئے) تیار‘‘۔(ترجمہ بحوالہ: آسان ترجمۂ قرآن:مفتی محمد تقی عثمانی ۔ج؍۳)
انسان کا ہر قول ریکارڈ کیا جاتا ہے:۔ ﴿مَّا يَلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَ‌قِيبٌ عَتِيدٌ ﴾﴿سورة ق - ١٨﴾یعنی انسان کوئی کلمہ زبان سے نہیں نکالتا جس کو یہ نگران فرشتہ محفوظ نہ کرلیتا ہو۔ حضرت حسن بصریؒ اور قتادہؒ نے فرمایا کہ یہ فرشتے اس کا ایک ایک لفظ لکھتے ہیں خواہ اس میں کوئی گناہ یا ثواب ہو یا نہ ہو۔ حضرت ابن عبّاسؓ نے فرمایا: کہ صرف وہ کلمات لکھے جاتے ہیں جن پر کوئی ثواب یا عتاب ہو۔ ابنِ کثیرؒ نے یہ دونوں قول نقل کرنے کے بعد فرمایاکہ:آیتِ قرآن کے عموم سے پہلی ہی بات کی ترجیح معلوم ہوتی ہے کہ ہر ہر لفظ لکھا جاتا ہے۔ پھر علی بن طلحہ کی ایک روایت میں یہ ہے کہ پہلے تو ہر کلمہ لکھا جاتا ہے، خواہ گناہ وثواب اس میں ہو یا نہ ہو، مگر ہفتہ میں جمعرات کے روز اس پر فرشتے نظر ثانی کرکے صرف وہ رکھ لیتے ہیں جن میں ثواب یا عتاب ہو یعنی خیر یا شر ہو، باقی کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ قرآن کریم میں ﴿يَمْحُو اللَّـهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ ۖ وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَابِ﴾﴿ سورة الرعد ٣٩﴾ کے مفہوم میں یہ محو واثبات بھی داخل ہے۔(معارف القرآن:ج؍۸۔ص؍۱۴۲)
امام حسن بصریؒ اس آیت کی تلاوت کرکے فرماتے تھے: اے ابن آدم تیرے لئے صحیفہ کھول دیا گیا ہے اور دو بزرگ فرشتے تجھ پر مقرر کردئے گئے ہیں۔ ایک تیرے داہنے دوسرا بائیں۔دائیں طرف والا تو تیری نیکیوں کی حفاظت کرتا ہے اور بائیں طرف والا برائیوں کو دیکھتا رہتا ہے۔ اب تو جو چاہ عمل کر، کمی کر یا زیادتی کر۔ جب تو مرے گا تو یہ دفتر لپیٹ دیا جائے گااور تیرے ساتھ قبر میں رکھ دیا جائے گا اور قیامتکے دن جب تو اپنی قبر سے اٹھے گا تو یہ تیرے سامنے پیش کردیا جائے گا۔۔۔(تفسیر ابن کثیر،اردو۔ ج؍
۵۔ص؍۹۶)
۔۔۔جو حقائق آج ہمارے سامنے آرہے ہیں، انہیں دیکھ کر یہ بات بالکل یقینی معلوم ہوتی ہے کہ جس فضا میں انسان رہتا اور کام کرتا ہے، اس میں ہر طرف اس کی آوازیں ، اس کی تصویریں اور اس کے حرکات وسکنات کے نقوش ذرّے ذرّے پر ثبت ہورہے ہیں،اور ان میں سے ہر چیز کو بعینہ انہی شکلوں اور آوازوں میں دوبارہ اس طرح پیش کیا جاسکتا ہے کہ اصل اور نقل میں ذرّہ برابر فرق نہ ہو۔ انسان یہ کام نہایت ہی محدود پیمانے پر آلات کی مدد سے کررہا ہے ، لیکن خدا کے فرشتے نہ ان آلات کے محتاج ہیں نہ ان قیود سے مقیّد۔ انسان کا اپنا جسم اور اس کے گرد وپیش کی ہر چیز ان کی ٹیپ اور انکی فلم ہے جس پر وہ ہر آواز اور ہر تصویر کو اس کی نازک ترین تفصیلات کے ساتھ جوں کی توں ثبت کرسکتے ہیں۔ اور قیامت کے روز آدمی کو اس کے اپنے کانوں سے اس کی اپنی آواز میں اس کی وہ باتیں سنوا سکتے ہیں جو وہ دنیا میں کرتا تھا،اور اس کی اپنی آنکھوں سے اس کے اپنے تمام کرتوتوں کی چلتی پھرتی تصویریں دکھا سکتے ہیں جن کی صحت سے انکار کرنا اس کے لئے ممکن نہ رہے۔
اس مقام پر یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ الہ تعالیٰ آخرت کی عدالت میں کسی شخص کو محض اپنی ذاتی علم کی بنا پر سزا نہ دے دیگا، بلکہ عدل کی تمام شرائط پوری کرکے اس کو سزا دے گا۔ اسی لئے دنیا میں ہر شخص کے اقوال وافعال کا مکمل ریکارڈ تیار کرایا جارہا ہے تاکہ اس کی کارگزاریوں کا پورا ثبوت ناقابل انکار شہادتوں سے فراہم ہوجائے۔(تفھیم القرآن :ج؍
۵۔ص؍۱۱۷)

ریا سے اجتناب کیا جائے


 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے 
 فَمَن كَانَ يَرْ‌جُو لِقَاءَ رَ‌بِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِ‌كْ بِعِبَادَةِ رَ‌بِّهِ أَحَدًا ﴿سورة الكهف١١٠﴾
 ترجمہ: سو جو کوئی اپنے پروردگار سے ملنے کی آرزو رکھتا ہے تو اسے چاہیے کہ نیک کام کرتا رہے، اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو بھی شریک نہ کرے(تفسیر ماجدی۔ج؍۴ :ص؍۱۶۸)
تفسیر:۔ اور شرک کے اندر شرک خفی اور شرک کی ساری صورتیں آگئیں۔
  فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا اور عمل کے صالح کا معیار یہ ہے کہ عمل شریعت اسلامی کے مطابق ہو۔ 
وَلَا يُشْرِ‌كْ بِعِبَادَةِ رَ‌بِّهِ أَحَدًا یعنی عمل کا کم از کم نقطۂ آغاز تو صحیح ہو۔ ایمانیات کا جو اقل قلیل مطالبہ ہے وہ تو بہر حال موجود ہو۔
آیت میں امیدوارِ مغفرت کو ایک مختصر وجامع دستور العمل بتادیا گیا، یعنی اسے چاہیے کہ (
۱) توحید پر قائم رہے (۲اور عملِ صالح میں لگا رہے۔(بحوالہ سابق)
ولا یشرک بعبادۃ ربّہٓ احدا، کا شان نزول جو روایات حدیث میں مذکور ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں شرک سے مراد شرکِ خفی یعنی ریا ہے۔
امام حاکمؒ نے مستدرک میں حضرت عبد اللہ بن عبّاسؓ سے یہ روایت نقل کی ہے، اور اس کو صحیح علیٰ شرط الشّیخین فرمایا ہے، روایت یہ ہے کہ: مسلمانوں میں سے ایک شخص اللہ کی راہ میں جہاد کرتا تھا، اس کے ساتھ اسکی یہ خواہش بھی تھی کہ لوگوں میں اس کی بہادری اور غازیانہ عمل پہچانا جائے، اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی(جس سے معلوم ہوا کہ جہاد میں ایسی نیّت کرنے سے جہاد کا ثواب نہیں ملتا)۔
اور ابن حاتم اورابن ابی الدنیا نے کتاب الاخلاص میں طاؤسؒ سے نقل کیا ہے کہ ایک صحابی نے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم سے ذکر کیا کہ میں بعض اوقات کسی نیک کام کے لئے یاعبادت کے لئے کھڑا ہوتا ہوں اور میرا قصد اس سے اللہ تعالیٰ ہی کی رضا ہوتی ہے ،مگر اس کے ساتھ دل میں یہ خواہش بھی ہوتی ہے کہ لوگ میرے عمل کو دیکھیں۔ آپؐ نے یہ سن کر سکوت فرمایا، یہاں تک کہ یہ آیتِ مذکورہ نازل ہوئی۔ خلاصہ ان تمام روایات کا یہی ہے کہ اس آیت میں جس شرک سے منع کیا گیا ہے وہ ریاکاری کا شرک خفی ہے۔ اور یہ کہ اگرچہ عمل اللہ ہی کے لئے ہو،مگر اس کے ساتھ کوئی نفسانی غرض شہرت ووجاہت کی بھی شامل ہو تو یہ بھی ایک قسم کا شرک خفی ہے، جو انسان کے عمل کو ضائع بلکہ مضرّت رساں بنا دیتا ہے(۔۔۔یہ اس صورت میں ہے جب کہ انسان اپنے عمل سے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے ساتھ مخلوق کی رضا جوئی یا اپنی شہرت ووجاہت کی نیّت کو بھی شریک کرے، یہاں تک کہ لوگوں کی تعریف کرنے پر اپنے اس عمل کو اور بڑھا دے، یہ بلا شبہ ریا اور شرک خفی ہے)۔
 

والدین کے ساتھ حسن سلوک


 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے 
 وَقَضَىٰ رَ‌بُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ‌ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْ‌هُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِ‌يمًا﴿سورة الإسراء٢٣﴾
 ترجمہ:۔ سورۃ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے(وقضیٰ ربّک ۔۔۔الي اخير) جس کا ترجمہ ہے: ’’اور تمہارے پروردگار نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اگر والدین میں سے کوئی ایک یا دونوں تمہارے پاس بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اف تک نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو، بلکہ ان سے عزّت کے ساتھ بات کیا کرواور ان کے ساتھ محبّت کا برتاؤ کرتے ہوئے ان کے سامنے اپنے آپ کو انکساری سے جھکاؤ اور یہ دعا کرو کہ :یارب! جس طرح انہوں نے میرے بچپن میں مجھے پالا ہے، آپ بھی ان کے ساتھ رحمت کا معاملہ کیجئے‘‘)۔(بنی اسرائیل؍۲۳۔۲۴)(ترجمہ بحوالہ:آسان ترجمۂ قرآن: مفتی محمد تقی عثمانی۔ج؍۲ ص؍۸۶۳)
امام قرطبیؒ فرماتے ہیں: کہ اس آیت میں حق تعالیٰ نے والدین کے ادب واحترام اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کو اپنی عبادت کے ساتھ ملا کر واجب فرمایا ہے۔ جیسا کہ سورۂ لقمان میں اپنے شکر کے ساتھ والدین کے شکر کو ملا کر لازم فرمایا ہے۔ ان اشکر لی ولوالدیک(یعنی میرا شکر ادا کرو اور اپنے والدین کا بھی)۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ جلّ شانہ کی عبادت کے بعد والدین کی اطاعت سب سے اہم اور اللہ تعالیٰ کے شکر کی طرح والدین کا شکر گزار ہونا واجب ہے۔ صحیح بخاری کی یہ حدیث بھی اسی پر شاہد ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم سے ایک شخص نے سوال کیا کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب عمل کیا ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ:’’نماز اپنے وقت(مستحب)میں‘‘ اس نے پھر دریافت کیا کہ اس کے بعد کونسا عمل سب سے زیادہ محبوب ہے تو آپ نے فرمایا:’’والدین کے ساتھ اچھا سلوک‘‘(قرطبی)(بحوالہ:معارف القرآن۔ج؍۵۔ص؍۴۶۳(
والدین کے ادب کی رعایت خصوصاً بڑھاپے میں:۔ والدین کی خدمت واطاعت والدین ہونے کی حیثیت سے کسی زمانے اور کسی عمر کے ساتھ مقیّد نہیں۔ ہر حال اور ہر عمر میں والدین کے ساتھ اچھا سلوک واجب ہے۔ لیکن واجبات وفرائض کی ادائیگی میں جو حالات عادۃً رکاوٹ بنا کرتے ہیں ان حالات میں قرآن حکیم کا عام اسلوب یہ ہے کہ احکام پر عمل کو آسان کرنے کے لئے مختلف پہلوؤں سے ذہنوں کی تربیت بھی کرتا ہے، اور ایسے حالات میں احکام کی پابندی کی مزید تاکید بھی۔
 والدین کے بڑھاپے کا زمانہ جبکہ وہ اولاد کی خدمت کے محتاج ہوجائیں، ان کی زندگی اولاد کے رحم وکرم پر رہ جائے، اس وقت اگر اولاد کی طرف سے ذرا سی بے رخی بھی محسوس ہو تو وہ ان کے دل کا زخم بن جاتی ہے۔ دوسری طرف بڑھاپے کے عوارض طبعی طور پر انسان کو چڑچڑا بنادیتے ہیں۔ تیسرے بڑھاپے کے آخری دور میں جب عقل وفہم بھی جواب دینے لگتے ہیں تو ان کی خواہشات ومطال؛بات کچھ ایسے بھی ہوجاتے ہیں جن کا پورا کرنا اولاد کے لئے مشکل ہوتا ہے۔ قرآن حکیم نے ان حالات میں والدین کی دلجوئی اور راحت رسانی کے احکام دینے کے ساتھ انسان کو اس کا زمانہ طفولیت یاد دلایا کہ کسی وقت تم بھی اپنے والدین کے اس سے زیادہ محتاج تھے جسقدر آج وہ تمہارے محتاج ہیں۔۔۔ (بحوالہ سابق: ص؍۴۶۶(

طہارت اور پاکیزگی اسلام کی نظر میں

مولانااسرارالحق قاسمی
طہارت اور پاکیزگی کے انسان کی انفرادی زندگی پربھی بے شمار مفید اور اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں اورمعاشرتی سطح پر بھی نظافت اور صفائی ستھرائی کاایک خوشگوارنتیجہ مرتب ہوتاہے۔جس معاشرے میں لوگ پاکیزگی کاخیال رکھتے اور اپنے ماحول کوآلودگی اور آلایشوں سے محفوظ اور پاک رکھتے ہیں وہ معاشرہ صحت مند،تندرست اور خوش حال ہوتاہے،اس معاشرے میں بیماریاں نہیں ہوتیں،وہاں کے لوگ بھی تندرست اور صحت مند ہوتے ہیں،اورجب افرادجسمانی اعتبار سے تندرست ہوتے ہیں تووہ اس قابل ہوتے ہیں کہ اپنے لیے اور اپنے معاشرے اور قوم و ملک کے لیے نتیجہ خیزسرگرمیاں انجام دے سکیں،صحت مندافراد سے ہی ایک صحت مندمعاشرہ تشکیل پاتاہے اورصحت مندمعاشرے سے ہی ایک اچھااورخوشحال ملک وجودپذیرہوتاہے۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام نے صفائی ستھرائی اور طہارت و نظافت پر خاص توجہ دی ہے اور قرآن و حدیث میں متعددمقامات پر لوگوں کواس کی اہمیت پر متوجہ کیاگیاہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’ بلا شبہ اللہ خوب توبہ کرنے والوں اور خوب پاک و صاف رہنے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘۔ (سورۂبقرہ:222)اس آیتِ کریمہ میں ان لوگوں کی دوصفات بیان کی گئی ہیں،جواللہ کے محبوب ہیں،ایک تویہ کہ وہ لوگ اپنے گناہوں اور کوتاہیوں پر توبہ کرتے ہیں اوردوسرے یہ کہ وہ لوگ پاک صاف رہتے ہیں۔ایک دوسری جگہ نبی اکرم ﷺکے واسطے سے تمام انسانوں کومخاطب کرکے کہاگیاہے کہ:’’ اور اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو اور اپنے کپڑے پاک رکھو‘‘۔(سورۂ مدثر: 3-4)یعنی اپنے خالق و مالک کی کبریائی کایقین رکھناہے،اس پر ایمان لاناہے اوراس کی بڑائی کااعتراف واظہارکرناہے اور ساتھ میں اپنے جسم اور ظاہرکوپاک صاف رکھناہے۔
ہمارے محبوب نبیﷺنے بھی صفائی اور نظافت کی خصوصی تاکید فرمائی اور اس ضمن میں لوگوں کوخاص توجہ دلانے کے لیے ارشاد فرمایا:’’ طہارت آدھا ایمان ہے‘‘۔ (صحیح مسلم: 223)اس حدیث پاک کا مطلب یہی ہے کہ اسلام میں طہارت کا غیر معمولی مقام ہے اور ایک مومن کی شان یہ ہونی چاہیے کہ وہ ہمیشہ پاک رہے،صاف رہے اورہر قسم کی گندگی سے پرہیز کرے۔اس سلسلے میں ہمیں عہدِ نبویﷺکے ایک واقعے سے بھی واضح تعلیم حاصل ہوتی ہے،حضرت عطاء بن یسارؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ: ’’اللہ کے رسول ﷺ مسجد میں تھے، اسی دوران ایک شخص داخل ہوا جس کے سر اور داڑھی کے بال پر اگندہ تھے، رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کرکے اس شخص سے کہا کہ چلے جاؤ، گویا کہ رسول اللہ ﷺ اس کو سر اور داڑھی کے بال کی اصلاح کرنے کا حکم دے رہے تھے، اس شخص نے ایسا ہی کیا پھر واپس آیا ، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا : کیا یہ بہتر نہیں ہے اس کے مقابلہ میں کہ تم میں سے کوئی شخص اس حال میں آئے کہ ا س کے بال پرا گندہ ہوں گویا کہ وہ شیطان لگ رہاہو‘‘۔ (موطأ مالک: 756)
اسلام میں جمعہ کے دن کی اپنی الگ شناخت اور فضیلتیں ہیں،اس دن کے لیے الگ نمازہے اوراسے ہفتے کی عیدکہاگیاہے،اس دن کے حوالے سے ہدایتِ نبویﷺکی نشان دہی کرتے ہوئے أم المؤمنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :’’ تم میں سے کسی کے لیے اس میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے کہ اگر اس کو گنجائش ہوتووہ جمعہ کے دن کے لئے اپنے عام کپڑوں کے علاوہ دومخصوص کپڑے رکھے‘‘ ۔(سنن ابوداؤد: 1078)اس کا مقصدجمعہ کے دن کا خصوصی اکرام بھی ہے اور ساتھ ہی صفائی اور نظافت کاخیال و اہتمام کرنے کی تلقین بھی مقصود ہے۔ 
صفائی کے تعلق سے انتہائی واضح اورتفصیلی ہدایت فرماتے ہوئے اللہ کے نبیﷺنے چھوٹے چھوٹے اور بظاہر معمولی سمجھے جانے والے اعمال پربھی توجہ دلائی اور انھیں اسلامی فطرت میں شمارکیا،حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:’’پانچ چیزیں فطرت کاحصہ ہیں: ختنہ کرنا، زیرِ ناف بال صاف کرنا، ناخن کاٹنا، بغل کے بال صاف کرنا، مونچھیں کاٹنا‘‘۔(متفق علیہ)
مذکورہ بالاآیاتِ قرآنی اور چنداحادیث سے ہمیں معلوم ہواکہ اسلام نے طہارت اور صفائی کو بہت بلند مقام عطا کیا ہے یہاں تک کہ ایمان میں اس کو اولیت اور اہمیت کا درجہ حاصل ہے، کیونکہ اس کو نصف ایمان قرار دیاگیا ہے ،جبکہ نصفِ آخر عقیدہ ،عبادات اور عمل کو قرار دیاگیا ہے، صفائی مسلمان کی ایک اہم پہچان ہے،البتہ ہمیں اس سلسلے میں مزیدتفصیل ذہن میں رکھناچاہیے کہ طہارت دو طرح کی ہوتی ہے: 
1: معنوی طہارت:اس کامطلب ہے ایسی طہارت جس کے ذریعہ غلط عقائداور منحر فانہ افکار سے چھٹکارا حاصل کیا جاتا ہے، اس کے ذریعہ نفس کو گناہوں اور برے اعمال سے پاک کیا جاتا ہے اور یہ دل کو ہر قسم کی بیماریوں سے پاک کرتی ہے، یہ نہایت اہم اورضروری طہارت ہے اس لئے کہ کردار کو بہتر بنانے میںیہ نہایت مؤثر ہے، رسول اللہ ﷺ نے اس جانب اپنے اس ارشاد کے ذریعہ اشارہ کیا ہے: ’’ سن لو! جسم میں ایک ایسا گوشت کا لوتھڑا ہے کہ اگر وہ درست رہا تو پورا جسم درست رہے گا اور اگر وہ خراب ہوگا تو پورا جسم فساد کا شکار ہوگا ،آگاہ رہو، وہ دل ہے‘‘۔ (متفق علیہ ) یعنی دل کے اچھے یابرے ہونے کا اثردیگر اعضاء پر پڑتا ہے، اگردل پاک ہے،تواعضائے جسم اس طہارت کے اثر کی وجہ سے خیر کے کاموں کی جانب متوجہ ہوتے ہیں اوراگردل میں فسادہے،تواس کے برے اثرات بھی جسم کے دوسرے اعضاء پر پڑتے ہیں اور انسان برے اعمال میں ملوث ہوجاتاہے۔ 
2: نظافت کی دوسر ی قسم ہے حسی یا جسمانی اور ظاہری طہارت، اس (ظاہری)طہارت کا تعلق جسم، کپڑے اور خاص و عام جگہ سے ہے ،رسول اللہ ﷺ نے اس نظافت کی بھی بہت زیادہ ترغیب دی ہے اور مسلمانوں کو اپنے بدن کی صفائی اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھنے کا حکم دیا ہے، اپنے گھروں کی دیکھ ریکھ کرنے، اپنے راستوں سے گندگی اور تکلیف دہ چیزوں کوہٹانے کا حکم دیا ہے۔حسی اور معنوی طہارت کا اہتمام شرعی طور پر مطلوب ہے ،یہ مسلمان کی بہترین صفت اور اسلامی تہذیب کے اہم ترین مظاہر میں سے ہے۔
جہاں تک عبادات کا تعلق ہے تو ان میں سے بعض وہ عبادات ہیں جو حسی طہارت کے بغیر درست نہیں ہوتی ہیں، جیسے کہ نماز، قرآن کو چھونا، حج اور 
عمرہ کے وقت طواف وغیرہ، اسی لئے وضو اور غسل مشروع کئے گئے ہیں،ان کا مقصدیہی ہے کہ انسان جب اپنے رب کی بارگاہ میں جائے توجہاں اس کا نفس اور قلب مکمل طورپرصاف ہووہیں اس کے ظاہری اعضاء اور کپڑے بھی صاف ہوں،ہر قسم کی گندگی اور آلودگی سے محفوظ ہوں،مثلاً وضو،یہ عربی زبان کا لفظ ہے اوروضاء ت(نور اور چمک) سے بنا ہے ،اس کو وضو اس لئے کہاجاتا ہے کیونکہ جب نمازی اس کے ذریعہ نظافت حاصل کرتا ہے تو گویاوہ روشن اور پرُ نور ہوجاتا ہے، اور وضو نام ہے جسم کے ظاہری اعضاء کو پاک و صاف کرنے کا۔ جہاں تک غسل کا تعلق ہے تو اس کوبھی اہم مقاصد اور اہم فوائد کے لئے مشروع کیا گیا ہے،جیسے جنابت دور کرنے،بدن کو پاک کرنے، اور جسم کوترو تازہ کرنے کے لئے، اس اعتبار سے شرعی طہارت معقول اور فطرت پر مبنی ہے، کیونکہ وہ مہذب انسانی ذوق کے اصول و اقدار کے عین مطابق ہے، اس لئے کہ میل کچیل اور ناپاکی کو انسانی فطرت نا پسند کرتی ہے۔ طہارت و نظافت کی مزید تا کید کے لئے اسلام نے مسنون و مستحب غسل کی بھی ترغیب دی ہے، جیسے کہ جمعہ کا غسل ،عیدین کے دن غسل، اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے سونے سے پہلے وضو کرنے کی ترغیب دی ہے۔جمعہ کے دن ہمارے لئے رسول اللہ ﷺ نے ایسے اعمال مسنون فرمائے ہیں جن میں سے اکثر کا تعلق نظافت اورحسنِ مظہر سے ہے، جیسے غسل کرنا،خوشبو لگانا، ناخن تراشنا، مونچھیں تراشنا،صاف ستھرے کپڑے پہننا وغیرہ۔ 
نبی کریمﷺ نے طہارت و پاکی حاصل کرنے والوں کو خوشخبری سنائی ہے کہ ان کی طہارت قیامت کے روز ان کے حق میں گواہ بنے گی، آپ ﷺ کا فرمان ہے:’’ بلاشبہ میری امت کو قیامت کے دن اس حال میں بلایا جائے گا کہ ان کے اعضاء وضوء کے آثار کی وجہ سے چمک رہے ہوں گے، لہذا تم میں سے جو اپنی چمک کو بڑھا سکتا ہو اسے ضرور ایسا کرنا چاہئے‘‘۔ (صحیح بخاری: 136) اسی طرح احادیث میں رات کوسونے سے قبل گھرکادروازہ بند کرنے اور برتنوں کوڈھکنے کی بھی تلقین ملتی ہے،اس کا مقصدجہاں یہ ہے کہ کوئی نقصان پہنچانے والی چیزگھرمیں یاکھانے پینے کے برتن میں گھسنے نہ پائے وہیں صفائی اور نظافت کے نقطۂ نظرسے بھی یہ تلقین اہمیت کی حامل ہے۔
اس طرح اگر ہم غور کریں تومعلوم ہوتاہے کہ ہمارے مذہب نے صفائی،پاکیزگی اور نظافت کاغیر معمولی اہتمام کیاہے اوراس حوالے سے معمولی کوتاہی کی بھی گنجایش نہیں چھوڑی ہے،مگر افسوس کی بات ہے کہ آج اسی مذہب کے ماننے والے صفائی ستھرائی کے تئیں حد درجہ غفلت شعار اور کوتاہی کے شکار نظرآتے ہیں،دورجانے کی ضرورت نہیں ،اپنے ملک کے شہروں اور گاؤں پرہی ایک نظرڈال کر دیکھیں تومحسوس ہوگا کہ جہاں برادرانِ وطن کی اکثریتی آبادی والے علاقے نسبتاً زیادہ صاف ہوتے ہیں،وہیں مسلم اکثریتی آبادی والے محلے اور آبادیاں بہت ہی آلودہ اور گندگی سے بھری ہوتی ہیں،اس سلسلے میں عام طورپرلوگوں کی ذہنیت یہ ہے کہ وہ مقامی سرکاری انتظامیہ کوموردِ الزام ٹھہراتے ہیں کہ صفائی عملہ توجہ نہیں دیتااور کوتاہی برتتاہے،مگر جس محلے میں ہم رہتے ہیں اس کوصاف ستھرارکھنے کی ذمے داری خودہماری بھی ہے اس کا احساس شایدہی کسی کوہو،گھرصاف کرکے راستے پر کوڑاڈال دینا،چلتے چلتے کہیں بھی تھوک دینا،کسی بھی جگہ پانی بہادینایہ سب وہ خرا بیاں ہیں ،جوہمارے اندرگھرکرچکی ہیں اورپھراس کے برے نتائج بھی ہمیں خود بھگتنے پڑتے ہیں،بیماریاں پھیلتی ہیں،انسانی صحت پر اس کے مضراثرات مرتب ہوتے ہیں اورسب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اس طرح ہمارے معاشرے کی ایک غلط اورگندی تصویرابھرکرسامنے آتی ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ ہم صفائی ستھرائی کو اسلامی تہذیب کا حصہ سمجھیں اوراپنے جسم،گھراورماحول سمیت جس علاقے میں رہتے ہوں،اس کوصاف ستھرارکھنے کے جتن کریں،جولوگ اس حوالے سے غفلت برت رہے ہیں،انھیں نظافت وپاکی کی اہمیت سے روشناس کرائیں اوراس عمل کویہ سمجھ کرکریں کہ صفائی ستھرائی اورطہارت ونظافت ہمارے ایمان کے کمال کی دلیل اورمسلمانوں کاشعارہے۔