اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا﴿سورة الإسراء٢٣﴾
ترجمہ:۔ سورۃ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے(وقضیٰ ربّک ۔۔۔الي اخير) جس کا ترجمہ ہے: ’’اور تمہارے پروردگار نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اگر والدین میں سے کوئی ایک یا دونوں تمہارے پاس بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اف تک نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو، بلکہ ان سے عزّت کے ساتھ بات کیا کرواور ان کے ساتھ محبّت کا برتاؤ کرتے ہوئے ان کے سامنے اپنے آپ کو انکساری سے جھکاؤ اور یہ دعا کرو کہ :یارب! جس طرح انہوں نے میرے بچپن میں مجھے پالا ہے، آپ بھی ان کے ساتھ رحمت کا معاملہ کیجئے‘‘)۔(بنی اسرائیل؍۲۳۔۲۴)(ترجمہ بحوالہ:آسان ترجمۂ قرآن: مفتی محمد تقی عثمانی۔ج؍۲ ص؍۸۶۳)
امام قرطبیؒ فرماتے ہیں: کہ اس آیت میں حق تعالیٰ نے والدین کے ادب واحترام اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کو اپنی عبادت کے ساتھ ملا کر واجب فرمایا ہے۔ جیسا کہ سورۂ لقمان میں اپنے شکر کے ساتھ والدین کے شکر کو ملا کر لازم فرمایا ہے۔ ان اشکر لی ولوالدیک(یعنی میرا شکر ادا کرو اور اپنے والدین کا بھی)۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ جلّ شانہ کی عبادت کے بعد والدین کی اطاعت سب سے اہم اور اللہ تعالیٰ کے شکر کی طرح والدین کا شکر گزار ہونا واجب ہے۔ صحیح بخاری کی یہ حدیث بھی اسی پر شاہد ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم سے ایک شخص نے سوال کیا کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب عمل کیا ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ:’’نماز اپنے وقت(مستحب)میں‘‘ اس نے پھر دریافت کیا کہ اس کے بعد کونسا عمل سب سے زیادہ محبوب ہے تو آپ نے فرمایا:’’والدین کے ساتھ اچھا سلوک‘‘(قرطبی)(بحوالہ:معارف القرآن۔ج؍۵۔ص؍۴۶۳(
والدین کے ادب کی رعایت خصوصاً بڑھاپے میں:۔ والدین کی خدمت واطاعت والدین ہونے کی حیثیت سے کسی زمانے اور کسی عمر کے ساتھ مقیّد نہیں۔ ہر حال اور ہر عمر میں والدین کے ساتھ اچھا سلوک واجب ہے۔ لیکن واجبات وفرائض کی ادائیگی میں جو حالات عادۃً رکاوٹ بنا کرتے ہیں ان حالات میں قرآن حکیم کا عام اسلوب یہ ہے کہ احکام پر عمل کو آسان کرنے کے لئے مختلف پہلوؤں سے ذہنوں کی تربیت بھی کرتا ہے، اور ایسے حالات میں احکام کی پابندی کی مزید تاکید بھی۔
والدین کے بڑھاپے کا زمانہ جبکہ وہ اولاد کی خدمت کے محتاج ہوجائیں، ان کی زندگی اولاد کے رحم وکرم پر رہ جائے، اس وقت اگر اولاد کی طرف سے ذرا سی بے رخی بھی محسوس ہو تو وہ ان کے دل کا زخم بن جاتی ہے۔ دوسری طرف بڑھاپے کے عوارض طبعی طور پر انسان کو چڑچڑا بنادیتے ہیں۔ تیسرے بڑھاپے کے آخری دور میں جب عقل وفہم بھی جواب دینے لگتے ہیں تو ان کی خواہشات ومطال؛بات کچھ ایسے بھی ہوجاتے ہیں جن کا پورا کرنا اولاد کے لئے مشکل ہوتا ہے۔ قرآن حکیم نے ان حالات میں والدین کی دلجوئی اور راحت رسانی کے احکام دینے کے ساتھ انسان کو اس کا زمانہ طفولیت یاد دلایا کہ کسی وقت تم بھی اپنے والدین کے اس سے زیادہ محتاج تھے جسقدر آج وہ تمہارے محتاج ہیں۔۔۔ (بحوالہ سابق: ص؍۴۶۶(
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں