اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا ﴿سورة الكهف- ١١٠﴾
ترجمہ: سو جو کوئی اپنے پروردگار سے ملنے کی آرزو رکھتا ہے تو اسے چاہیے کہ نیک کام کرتا رہے، اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو بھی شریک نہ کرے(تفسیر ماجدی۔ج؍۴ :ص؍۱۶۸)
تفسیر:۔ اور شرک کے اندر شرک خفی اور شرک کی ساری صورتیں آگئیں۔
فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا اور عمل کے صالح کا معیار یہ ہے کہ عمل شریعت اسلامی کے مطابق ہو۔
وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا یعنی عمل کا کم از کم نقطۂ آغاز تو صحیح ہو۔ ایمانیات کا جو اقل قلیل مطالبہ ہے وہ تو بہر حال موجود ہو۔
آیت میں امیدوارِ مغفرت کو ایک مختصر وجامع دستور العمل بتادیا گیا، یعنی اسے چاہیے کہ (۱) توحید پر قائم رہے (۲) اور عملِ صالح میں لگا رہے۔(بحوالہ سابق)
ولا یشرک بعبادۃ ربّہٓ احدا، کا شان نزول جو روایات حدیث میں مذکور ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں شرک سے مراد شرکِ خفی یعنی ریا ہے۔
امام حاکمؒ نے مستدرک میں حضرت عبد اللہ بن عبّاسؓ سے یہ روایت نقل کی ہے، اور اس کو صحیح علیٰ شرط الشّیخین فرمایا ہے، روایت یہ ہے کہ: مسلمانوں میں سے ایک شخص اللہ کی راہ میں جہاد کرتا تھا، اس کے ساتھ اسکی یہ خواہش بھی تھی کہ لوگوں میں اس کی بہادری اور غازیانہ عمل پہچانا جائے، اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی(جس سے معلوم ہوا کہ جہاد میں ایسی نیّت کرنے سے جہاد کا ثواب نہیں ملتا)۔
اور ابن حاتم اورابن ابی الدنیا نے کتاب الاخلاص میں طاؤسؒ سے نقل کیا ہے کہ ایک صحابی نے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم سے ذکر کیا کہ میں بعض اوقات کسی نیک کام کے لئے یاعبادت کے لئے کھڑا ہوتا ہوں اور میرا قصد اس سے اللہ تعالیٰ ہی کی رضا ہوتی ہے ،مگر اس کے ساتھ دل میں یہ خواہش بھی ہوتی ہے کہ لوگ میرے عمل کو دیکھیں۔ آپؐ نے یہ سن کر سکوت فرمایا، یہاں تک کہ یہ آیتِ مذکورہ نازل ہوئی۔ خلاصہ ان تمام روایات کا یہی ہے کہ اس آیت میں جس شرک سے منع کیا گیا ہے وہ ریاکاری کا شرک خفی ہے۔ اور یہ کہ اگرچہ عمل اللہ ہی کے لئے ہو،مگر اس کے ساتھ کوئی نفسانی غرض شہرت ووجاہت کی بھی شامل ہو تو یہ بھی ایک قسم کا شرک خفی ہے، جو انسان کے عمل کو ضائع بلکہ مضرّت رساں بنا دیتا ہے(۔۔۔یہ اس صورت میں ہے جب کہ انسان اپنے عمل سے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے ساتھ مخلوق کی رضا جوئی یا اپنی شہرت ووجاہت کی نیّت کو بھی شریک کرے، یہاں تک کہ لوگوں کی تعریف کرنے پر اپنے اس عمل کو اور بڑھا دے، یہ بلا شبہ ریا اور شرک خفی ہے)۔
فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا اور عمل کے صالح کا معیار یہ ہے کہ عمل شریعت اسلامی کے مطابق ہو۔
وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا یعنی عمل کا کم از کم نقطۂ آغاز تو صحیح ہو۔ ایمانیات کا جو اقل قلیل مطالبہ ہے وہ تو بہر حال موجود ہو۔
آیت میں امیدوارِ مغفرت کو ایک مختصر وجامع دستور العمل بتادیا گیا، یعنی اسے چاہیے کہ (۱) توحید پر قائم رہے (۲) اور عملِ صالح میں لگا رہے۔(بحوالہ سابق)
ولا یشرک بعبادۃ ربّہٓ احدا، کا شان نزول جو روایات حدیث میں مذکور ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں شرک سے مراد شرکِ خفی یعنی ریا ہے۔
امام حاکمؒ نے مستدرک میں حضرت عبد اللہ بن عبّاسؓ سے یہ روایت نقل کی ہے، اور اس کو صحیح علیٰ شرط الشّیخین فرمایا ہے، روایت یہ ہے کہ: مسلمانوں میں سے ایک شخص اللہ کی راہ میں جہاد کرتا تھا، اس کے ساتھ اسکی یہ خواہش بھی تھی کہ لوگوں میں اس کی بہادری اور غازیانہ عمل پہچانا جائے، اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی(جس سے معلوم ہوا کہ جہاد میں ایسی نیّت کرنے سے جہاد کا ثواب نہیں ملتا)۔
اور ابن حاتم اورابن ابی الدنیا نے کتاب الاخلاص میں طاؤسؒ سے نقل کیا ہے کہ ایک صحابی نے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم سے ذکر کیا کہ میں بعض اوقات کسی نیک کام کے لئے یاعبادت کے لئے کھڑا ہوتا ہوں اور میرا قصد اس سے اللہ تعالیٰ ہی کی رضا ہوتی ہے ،مگر اس کے ساتھ دل میں یہ خواہش بھی ہوتی ہے کہ لوگ میرے عمل کو دیکھیں۔ آپؐ نے یہ سن کر سکوت فرمایا، یہاں تک کہ یہ آیتِ مذکورہ نازل ہوئی۔ خلاصہ ان تمام روایات کا یہی ہے کہ اس آیت میں جس شرک سے منع کیا گیا ہے وہ ریاکاری کا شرک خفی ہے۔ اور یہ کہ اگرچہ عمل اللہ ہی کے لئے ہو،مگر اس کے ساتھ کوئی نفسانی غرض شہرت ووجاہت کی بھی شامل ہو تو یہ بھی ایک قسم کا شرک خفی ہے، جو انسان کے عمل کو ضائع بلکہ مضرّت رساں بنا دیتا ہے(۔۔۔یہ اس صورت میں ہے جب کہ انسان اپنے عمل سے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے ساتھ مخلوق کی رضا جوئی یا اپنی شہرت ووجاہت کی نیّت کو بھی شریک کرے، یہاں تک کہ لوگوں کی تعریف کرنے پر اپنے اس عمل کو اور بڑھا دے، یہ بلا شبہ ریا اور شرک خفی ہے)۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں