ہفتہ، 24 دسمبر، 2016

خبردار کہ کرسمس مبارکباد نہ دیں

         بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ
قُلْ هُوَ اللّـٰهُ اَحَدٌ (1)
کہہ دو وہ اللہ ایک ہے۔
اَللَّـهُ الصَّمَدُ (2)
اللہ بے نیاز ہے۔
لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُوْلَدْ (3)
نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے۔
وَلَمْ يَكُنْ لَّـهٝ كُفُوًا اَحَدٌ (4)
اور اس کے برابر کا کوئی نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ کرسمس مبارک ہویا Merry Christmasکہنا کیسا ہے؟اس کے معنی کیا ہیں؟ کیا کسی دوست کو Merry Christmas کہا جاسکتا ہے؟اسی قسم کے سوالوں کا جواب اگر اہل علم کی آرا میں تلاش کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ’میری کرسمس کا مطلب ہے ’اللہ کو بیٹا ہواہے،مبارک ہو‘نعوذ باللہ ۔جبکہ قرآن پاک میں یوں وارد ہے کہ کہہ دو کہ اللہ ایک ہے، اللہ بے نیاز ہے، نہ اسے کسی نے جنا اور نہ اس نے کسی کو جنا۔ اور کوئی اس کا ہمسر نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اہل علم اسے حرام قراردیتے ہیں، اور فرماتے ہیں کہ وہ وکرسمس کی مبارکباد نہیں دیتے بلکہ حوالے کیساتھ انہی کی کتاب سے پوچھتے ہیں کہ بتاؤ کہاں لکھاہوا ہے کہ عیسی علیہ اسلام خدا کے بیٹے ہیں۔
تاریخی دلیل مفقود:
یوروپ کے زمانہ قدیم میں شرک کافروغ ہوا اور 25 دسمبر مشرکین کا ایک خاص سردیوں کا تہوارمنایا جانے لگا۔ قبل از مسیح پچیس دسمبر کے بارے میں کئی قصے مشہور ہیں لیکن یوروپی مورخین کے درمیان اس کی حقیقت کے بارے میں اختلاف ہے جبکہ یہ طے شدہ ہے کہ عیسی علیہ اسلام کی پیدائش 25 دسمبر کو ہونے کی کوئی تاریخی دلیل موجود نہیں ہے۔جب مسیحیت میں بدعات در آئیں اور غلط عقائد کی بنیاد پر یہ ایک شرکیہ مذہب بن گیا تو وہی قدیم یوروپ کے شرکیہ تہوار کو ہی مسیح کی پیدائش کا دن قرار دے کے کرسمس منایا جانے لگا۔مسیحیوں کے نزدیک عیسی علیہ السلام خدا کے بیٹے ہیں۔ اور جب مسیحی عیسی علیہ السلام کی پیدائش مناتے ہیں تو گویا وہ اس دنیامیں نعوذ باللہ خدا کے بیٹے کی آمد کا جشن مناتے ہیں۔ مسلمان اپنی طرف سے جو بھی سمجھ کر انہیں مبارک باد دیں، اس کے معنی بہرحال یہی ہیں کہ ہم خدا کے بیٹے جس کو وہ انسانیت کا نجات دہندہ سمجھتے ہیں کی آمد پر ان کی خوشیوں میں شریک ہو رہے ہیں۔ اللہ کے بارے میں جھوٹی صفات گھڑنا اور خاص طورپر اس کیلئے بیٹا تجویز کرنا شرک کی انتہائی سنگین صور ت ہے جبکہ اللہ رب العزت نے قرآن پاک کی سورہ مریم میں اس قسم کے عقیدہ کیلئے سخت سے سخت لہجہ اختیار کیاگیا ہے۔
کیا تھا مکی اور مدنی دور میں؟
مکہ اور مدینہ میں عیسائی گنتی کے تھے۔ انہیں میں سے ایک مکہ میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے چچیرے بھائی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کی۔ اس کے علاوہ چند ایک اور مکی عیسائی تھے، اسی طرح مدینہ میں چند ایک عیسائی تھے‘جن میں ایک تو مسلمانوں کا بڑا دشمن شمارکیا جاتا ہے جس کا نام عامربتایا جاتا ہے جو بدر وغیرہ میں قریش کی جانب سے لڑا بھی تھا ۔ پھر ایک صحابی کے دو بیٹوں کا ایک تاجر مشنری کے ہاتھ عیسائیت قبول کرکے چلے جانے کا ذکر ملتا ہے۔ جس پر غالباً قرآنی آیت’دین میں کوئی جبر نہیں‘ نازل ہوئی۔ان دنوں مکہ یا مدینہ میں کوئی کلیسا یا چرچ ہی نہیں تھا تو وہ کرسمس کیا مناتے، نیز ان میں سے قریب80تا90 فیصد یعنی درجن بھر یا زیادہ لوگوں میں سے راہب ہو گئے تھے۔ دورحاضر کا کرسمس تو کئی صدیوں بعد جا کر’اسٹریم لائن‘ہوا جس میں عیسی علیہ اسلام کی ولادت منانے کیساتھ ہر ملک کی اپنی ثقافت بھی موجود ہے۔ 
’سیکولرزم ‘کے نام پر:
آج نام نہاد’سیکولرزم ‘کی بدولت کرسمس کا تہوار، کرسمس ٹری، سانتا کلاز اور اسکے تحفے گویا کہ پوری دنیا پر رواداری کے نام پر مسلط کئے جارہے ہیں۔نوبت یہ آچکی ہے کہ بعض خلیجی ممالک میں تو یہ’خوشیوں‘کا موسم بن گیا ہے اور جگہ جگہ پر کرسمس ٹری اور سانتا کلاز کے مجسمے نظر آنے لگے ہیں۔ مسلم بچوں کوا سکولوں میں کرسمس کے ترانے سکھائے جارہے ہیں۔ مسیحیت کے کرسمس میں عیسی علیہ السلام کو مرکزیت حاصل تھی جبکہ موجودہ جدید کرسمس میں سانتا کلاز کو مرکزیت حاصل ہے۔عجیب بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ رواداری اور خوشیوں کے نام پر ہورہا ہے۔ اس مسیحی جشن کی سیکولرائزیشن سے دینی امتیاز چھیننے کی کوشش بتدریج جارہی ہے۔ اس سلسلہ میں شیخ ابو اسحاق الحوینی Abu Ishaq Al Heweny مصر کے ایک بڑے عالم، مفتی اور محدث ہیں۔ محدث عصر شیخ ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ علیہ کے خاص شاگردوں اور معروف عرب خطیبوں میں شمار ہوتے ہیں۔ زیر نظر عبارت ان کے ایک خطبہ بہ عنوان’الوَلاءْ لِمَن؟‘سے ماخوذ ہے۔ اردو استفادہ کے دوران یہاں برصغیرہند‘ پاک کی مناسبت سے اس میں تصرف کیا گیا ہے البتہ خطبے کی روح جوں کی توں قائم رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔
عقیدہ ’ولاء و براء‘ :
معزز حضرات‘حمیتِ دینی ‘عقیدہ ’ولاء و براء‘ دراصل اس چیز کا نام ہے کہ یہ شخص اللہ رب العزت کے ساتھ ایک واضح وابستگی رکھتا ہے؛ اِس عقیدہ کی رو سے مسلمان کی دوستی اور دشمنی کا محور خدا کی ذات ہو جاتی ہے133 ہمارے دشمنوں نے جب یہ جانا تو وہ سب سے بڑھ کر ہمارے اِسی عقیدہ کے درپے ہوئے اور اِسی کو بے جان کر دینے کی ٹھانی۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہاں عجیب و غریب اصطلاحات کا ڈھیر لگ گیا؛ ایسی اصطلاحات جن کو ہماری اِس امتِ توحید نے آج تک کبھی نہیں جپا تھا: ’انسانی اخوت‘133 اور ’عالمی برادری‘133 اور نہ جانے کیاکیا! اور تو اور، بڑیبڑے مولوی حضرات یہ بولی بولنے لگے: ’ہمارے عیسائی بھائی‘! ’ہمارے غیر مسلم بھائی‘! خبردار رہو؛ یہ اپنے ایمان کو داغ لگانے کے مترادف ہے۔ یہ عقیدہ ’الولاء والبراء‘کی پامالی ہے۔ یہ جن کو تم ’بھائی‘ کہتے ہو، اللہ عزوجل ان کو ’کافر‘ کہتا ہے۔
کیا ہوگیا تاجروں کو؟
اس حمیت دینی یعنی عقیدہ ’ولاء وبراء ‘ کو پامال ہوتا دیکھنا ہو تو اپنے امپورٹ اور ایکسپورٹ سے منسلک تاجروں کو دیکھو، کہ یہ کسی کسی وقت ان کافروں کو کیسا احترام دیتے ہیں۔ کس طرح ان کے آگے بچھے جاتے ہیں۔ جب تک کافر کرسی پر رونق افروز نہ ہوجائے ہمارا یہ فرزند اسلام نشست سنبھالنے کا روادار نہ ہوگا! اس کے آگے پیچھے یوں دوڑا پھرے گا گویا ایں سعادت دوبارہ نیست! وہ کوئی کفر بک دے، اِس کا مہمان رہتے ہوئے حرام کاری کرے، شرابیں پئے، مجال ہے جو اِس کی مسکراہٹیں ختم ہونے میں آئیں اور اس کے روبرو اِس کی ’خندہ پیشانی‘ میں کوئی فرق آئے! اور خدا کی خاطر غضب ناک ہونا تو گویا اس نے کبھی سنا اور نہ جانا!اس حمیت دینی یعنی عقیدہ ’ولاء وبراء‘کو پامال ہوتا دیکھنا چاہو تو اس وقت دیکھو جب کسی یونیورسٹی میں کوئی نامور مستشرق تقریر فرمانے آیا ہو؛ تم پہلی بار اپنے بڑے بڑے دانشور جغادریوں کے ہوش اڑے دیکھو گے؛ اور اس کیلئے اِنہیں ایسے ایسے القاب استعمال کرتا اور اْس کی شان میں ایسے ایسے قلابے ملاتا دیکھو گے کہ تھرڈ ورلڈ کی پوری اوقات اِس ایک ’دانشور‘ کے رویے میں نظر آجائے! مجھے آج تک یاد ہے جب جان پالکٹر جو کہ ایک وجود Existentialist دہریہ ہے، اپنی داشتہ کے ہمراہ جامع ازھر میں ’خطاب‘ فرمانے آیا؛ اس وقت میں جامعہ الاَزھر میں تھا اور میں نے وہاں پر عجب حال دیکھا تھا۔
مسجد کے تقدس کی پامالی:
الاَزھر میں ہی میرا اپنا چشم دید واقعہ ہے، جہاں کافر سیاحوں کا سیر کیلئے آنا ایک معمول ہے۔ جس طرح وطن عزیز کی متعدددشاہی مساجد کو ’سیرگاہ‘کا درجہ دے دیا گیا ہے اور جس کے باعث یہاں کافر مردوں اور عورتوں کا ’سیر‘ کی غرض سے آنا جانا ہردم لگا رہتا ہے۔ مسجدانتظامیہ نے ایک خاکروب کو چند دوپٹے تھما رکھے تھے کہ غیر ملکی سیاح عورتوں کو، جو یہاں ’سیر‘ کرنے اور مسجد کا تقدس اپنے پیروں تلے روندنے آتی ہیں، ننگے سر دیکھو تو ایک عدد دوپٹہ پیش کرو ! انتظامیہ کے ’تقویٰ‘ اور ’خداخوفی‘ کی داد دیتے چلئے؛ سر کے کچھ حصے پر پارچہ نما کوئی چیز ہونا لازم ہے ورنہ مسجد کی بے حرمتی ہو سکتی ہے! کیا دیکھتا ہوں، ایک عورت جو مِنی سکرٹ پہنے ہوئے ہے؛ آدھی آدھی رانیں برہنہ کررکھی ہیں، خاکروب کا دیا ہوا دوپٹہ ’انجوائے‘ کرتی مسجد میں ہر طرف بھاگی پھرتی ہے! ادھر اسی حلیہ کی ایک برہنہعورت خاکروب سے دوپٹہ پکڑنے پر آمادہ نہیں! میں خاکروب اور اس عورت کی تکرار سننے کیلئے ذرا رک گیا۔ خاکروب کو اپنی ’ڈیوٹی‘ پوری کرنی ہے؛ یہ اْس کو دوپٹہ پکڑا رہا ہے۔ جبکہ مِنی سکرٹ میں ’ملبوس‘ یہ عورت دوپٹے کے بغیر ہی مسجد کی سیر کرآنے پر مصر ہے! پھر جانتے ہو کیا ہوا؟ عورت اپنے پرس سے ایک پاونڈ کا نوٹ نکالتی ہے اور خاکروب کے ہاتھ پر دھر دیتی ہے؛ جس پر خاکروب خاموشی سے اپنا مطالبہ واپس لے لیتا ہے! صرف ایک پاؤنڈ لگا مسجد کی حیثیت خاک میں ملانے پر! یہ ہو رہا ہے خدا کے گھروں میں’ان گھروں میں جنہیں بلند کرنے کا، اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ نے اذن دیا ہے‘‘! ذرا میرے ساتھ غور کرتے چلئے ؛ جامع مسجد ازھر میں یا آپ کی فیصل مسجد اور بادشاہی مسجد میں کفار کا آنا بھلا کس غرض سے ہے؟ کیا اِن مقامات پر ’مسجد‘کے احکام کا نفاذ موقوف کردیا گیا ہے؟ اب یہ مسجدیں نہیں رہیں؟ خدا کی تعظیم اور کبریائی کیلئے مخصوص جگہیں نہیں ہیں؟ کیا یہ عجائب گھر ہے؟ سیرگاہ ہے؟ نہیں، یہ اللہ کا گھر ہے جس کا یہ حشر ہو رہا ہے۔ ہم بھی کہتے ہیں کافر مسجد میں داخل ہو سکتا ہے مگر صرف کسی ایسی غرض سے جو اللہ کے گھر کے شایان ہو، نہ کہ اس کو ’سیرگاہ‘ سمجھ کر۔ کافر یہاں کوئی سوال پوچھنے کیلئے آنا چاہیں، مسلمانوں سے کسی معاملہ میں رجوع کیلئے آنا چاہیں، یا کسی اور معقول غرض کیلئے آنا چاہیں؛ ضرور آئیں‘ سو بار آئیں‘ مرد آئیں‘ عورتیں آئیں‘ ہم کبھی اعتراض نہیں کریں گے۔ کفار یقیناًنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مسجد میں ہی حاضر ہوا کر تے تھے، مگر کفار کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وہاں حاضر ہونے میں بھی مسجد کی ایک ہیبت اور شان قائم ہوتی تھی۔ البتہ مسجد کو ’تماشے کی جگہ‘ بنانے والے آج کے مسلمان ہیں جو اپنے دین کے مسلمات کو مسلسل روندتے چلے آرہے ہیں۔ اسلام کے یہ سپوت آج مسجدوں سے ’سیاحت‘کی کمائی کریں گے اور اگر برہنہ عورتوں کو یہاں آنے سے روکا گیا تو سیاحوں کا رخ ادھر کو نہیں رہے گا!
نئے سال کا جشن:
اور یہی ہپی نیو ایئر کی رات ہے۔ بدکاریوں کی رات‘ زناکاریوں کی رات‘ شرابیں پینے کی رات۔ زمین ازخود ناپاک نہیں ہوتی اس پر رہنے والے اس کو ناپاک کرتے ہیں۔ زمین ازخود دارالکفر نہیں ہوتی اس کے باشندے اپنے عقائد اور اعمال سے اس کو دارالکفر کردیتے ہیں۔ یہی مکہ ہے جو خدا کا پسندیدہ ترین بقعہ زمین ہے مگر پھر بھی یہ کچھ دیر دارالکفر رہنے کے بعد جاکر دارالاسلام بنتا ہے۔ چنانچہ آج کا دارالکفر کل کا دارالاسلام ہوسکتا ہے اور کل کا دارالاسلام آج کا دار الکفر۔ ایمان وکفر کے مسئلہ سے زمین بیچاری کا کیا تعلق؟ اس کے باوجود، خدا ہمیں منع کرتا ہے کہ ’مَسَاکِنِ الَّذِینَ ظَلَمْوا‘کے باشندے بن کر رہیں، حالانکہ زمین ساری اللہ کی ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ یہ مسئلہ عقیدہ عقیدہ ’ولاء و براء‘ میں داخل ہے۔ ان بستیوں میں ظالموں کے کرتوتوں کی باقیات دیکھنا صبح شام قلوب کو متاثر کرتا ہے۔ایسی جگہیں جہاں پر خدا کا قہر اترا وہ ہماری نگاہ میں معمول کی چیز ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ’ابوالہول‘، ’اہرام‘ اور ’بادشاہی قلعہ‘ ایسی سیرگاہ بن جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تبوک کے سفر کے دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب حِجر کے علاقہ میں دیار ثمود کے پاس سے گزرے تو چہرہ مبارک ڈھانپ لیا‘ سواری کو تیز کر لیا۔ اور اصحاب رضی اللہ عنہم سے یوں فرمایاکہ ’جب تم ظالموں کے دیار سے گزرو تو تیز ہو جاؤ، اس ڈر سے کہ تمہیں بھی وہ چیز نہ آلے جس نے ان کو آلیا تھا‘ کیا تم نے غور کیا؟ یہ نافرمان مرا پڑا ہے اور تمہیں ہدایت کی جارہی ہے کہ یہاں تیزی سے گزر جاؤ اور اس والے انجامِ بد سے خدا کی پناہ مانگو۔ تو پھر زندہ نافرمان سے دوستی اور بغل گیری چہ معنیٰ! وہ کافر جو خود تمہارے سامنے نافرمانی کررہا ہے اس کے ساتھ البتہ تمہاری خوب خوب دوستی نبھے؟! یہ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو تمہیںیوں خبردار فرما رہے ہیں کہ’جو شخص مشرکوں کے ساتھ رہن سہن رکھے وہ انہی میں سے ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تنبیہ کافی نہیں؟
( یہ مضمون فکر وخبر  ویب سائٹ سے کوپی کی ھے )  

کوئی تبصرے نہیں: