جمعہ، 9 دسمبر، 2016

حجاب کا حکم

سوال : كيا فرماتے هيں علماء كرام و مفتيان عظام –
ميں ايك عورت هوں اور افس ميں جاب كرتي هوں اور هميں اپنے افسر كے جانب سے حكم ملا هے كه دوران ڈپٹي هم پرده (حجاب) نه كريں , اور ميں يه جاب مجبوري كے تحت كرتي هوں كيونكه ميں نے اگے پڑهنا هے اور مجهے اس كے لۓ پيسوں كي ضرورت هے اس لۓ مجهے يه جاب كرني پڑ رهي هے اب سوال یه ھے که شرع ميں مجهے اپنے افسر كا يه حكم ماننا چاهيے يا نهيں .

الجواب : الحمد لله، والصلاة والسلام على رسول الله، وعلى آله وصحبه ومن والاه، أما بعد:
اهل علم كا اس بات پر اجماع هے كه كتاب الله اور سنت رسول الله صلى الله عليه وسلم سے يه حكم ثابت هے كه عورت غير محرم سے پرده كرے , ارشاد باري تعالى هے .
 یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلۡ لِّاَزۡوَاجِکَ وَ بَنٰتِکَ وَ نِسَآءِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ یُدۡنِیۡنَ عَلَیۡہِنَّ مِنۡ جَلَابِیۡبِہِنَّ ؕ ذٰلِکَ اَدۡنٰۤی اَنۡ یُّعۡرَفۡنَ فَلَا یُؤۡذَیۡنَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴿۵۹﴾  سورة الاحزاب
ترجمه :اے نبی! اپنی بیویوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر چادریں لٹکایا کریں۔  اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہو جایا کرے گی پھر نہ ستائی جائیں گی  اور اللہ تعالٰی بخشنے والا مہربان ہے۔
جلابیب، جلباب کی جمع ہے جو ایسی بڑی چادر کو کہتے ہیں جس سے پورا بدن ڈھک جائے اپنے اوپر چادر لٹکانے سے مراد اپنے چہرے پر اس طرح گھونگٹ نکالنا ہے کہ جس سے چہرے کا بیشتر حصہ بھی چھپ جائے اور نظریں جھکا کر چلنے سے اسے راستہ بھی نظر آتا جائے .  اس آیت میں نبی کی بیویوں، بیٹیوں اور عام مومن عورتوں کو گھر سے باہر نکلتے وقت پردے کا حکم دیا گیا جس سے واضح ہے کہ پردے کا حکم علماء کا ایجاد کردہ نہیں ہے جیسا کہ آج کل بعض لوگ باور کراتے ہیں یا اس کو قرار واقعی اہمیت نہیں دیتے بلکہ یہ اللہ کا حکم ہے جو قرآن کریم کی نص سے ثابت ہے۔ اس سے اعراض، انکار اور بےپردگی پر اصرار کفر تک پہنچا سکتا ہے . ( تفسير صلاح الدين )
اور دوسري جگه ارشادباري تعالى هے .
وَ لَا تَبَرَّجۡنَ تَبَرُّجَ الۡجَاہِلِیَّۃِ الۡاُوۡلٰی  . الاحزاب 33
ترجمه : اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ کا اظہار نہ کرو .
اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں عورتیں بےپردہ پھرتی اور اپنے بدن اور لباس کی زیبائش کا اعلانیہ مظاہرہ کرتی تھیں۔ اس بداخلاقی اور بےحیائی کی روش کو مقدس اسلام کب برداشت کر سکتا ہے اس نے عورتوں کو حکم دیا کہ گھروں میں ٹھریں اور زمانہ جاہلیت کی طرح باہر نکل کر حسن و جمال کی نمائش کرتی نہ پھریں۔
(تنبیہ) جو احکام ان آیات میں بیان کیے گئے تمام عورتوں کے لیے ہیں۔   (  تفسير عثماني )
جب الله تعالى نے پردے كا حكم فرمايا تو اس كا حكم كسي بشر كے حكم كے اگے نهيں چهوڑا جاسكتا چاهے كچه بهي هو, الله كے احكام اور رسول صلى الله عليه وسلم كي خلاف ورزي حرام هے  الله تعالى كا ارشاد هے .
فَلۡیَحۡذَرِ الَّذِیۡنَ یُخَالِفُوۡنَ عَنۡ اَمۡرِہٖۤ اَنۡ تُصِیۡبَہُمۡ فِتۡنَۃٌ اَوۡ یُصِیۡبَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۶۳﴾ النور
ترجمه :  سنو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہیے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آپڑے یا انہیں دردناک عذاب نہ پہنچے۔
یعنی اللہ و رسول کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ڈرتے رهنا چاہیے کہ کہیں ان کے دلوں میں کفر و نفاق وغیرہ کا فتنہ ہمیشہ کے لیے جڑ نہ پکڑ جائے۔ اور اس طرح دنیا کی کسی سخت آفت یا آخرت کے دردناک عذاب میں مبتلا نہ ہوجائیں۔ العیاذ باللہ۔( تفسير عثماني )
سو عورت كيلۓ يه جائز نهيں هے كه وه كسي اجنبي غير محرم كے سامنے بے پردگي سے رهے حجاب نه كرے اور جو بهي كسي مسلمان عورت كو بے پردگي كا حكم ديں وه الله تعالى كا نافرمان هے اور آمر بالمنكر هيں تو اس کا حكم ماننا حرام هے اس حكم كي تعميل نه كي جائے چاهے کچھ بھی ھو كيونكه الله كي نافرماني ميں كسي كا قول قابل قبول نهيں  آپ صلى الله عليه وسلم كا ارشاد هے ( لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق ) رواه أحمد
الله كي معصيت ميں كسي مخلوق كي اطاعت نهيں هوگی .  ( مسند احمد )
اب اگر دفتر ميں افسر كي يه بات ماني گئي كه حجاب نه كي جائے تو اس كے نتائج خطر ناك ثابت هوسكتے هيں  جو هر صاحب بصيرت پر مخفي نهيں لهذا يه حكم ماننا شرعا جائز نهيں .
اب يه كهنا كه يه جاب ميري مجبوري هے مگر ياد رهے كه ايك مجبوری كيلے حرام ميں اپنے آپ كو مبتلا كردينا درست نهيں  اگر آپ يه نوكري خاص الله كيلے چهوڑ ديںگی تو انشاءالله اس سے بهتر شرعي جاب مل جائگي...  الله تعالى كا ارشاد هے .
وَ مَنۡ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّہٗ مَخۡرَجًا ۙ﴿۲﴾  وَّ یَرۡزُقۡہُ مِنۡ حَیۡثُ لَا یَحۡتَسِبُ ؕ وَ مَنۡ یَّتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسۡبُہٗ ؕ اِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمۡرِہٖ ؕ قَدۡ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیۡءٍ قَدۡرًا ﴿۳﴾  سورة الطلاق
ترجمه ـ:  اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لئے چھٹکارے کی شکل نکال دیتا ہے , اور اسے ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جس کا اسے گمان بھی نہ ہو اور جو شخص اللہ پر توکل کرے گا اللہ اسے کافی ہوگا۔ اللہ تعالٰی اپنا کام پورا کر کے ہی رہے گا, اللہ تعالٰی نے ہرچیز کا ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے ۔
تفسير عثماني ميں هے , اللہ کا ڈر دارین کے خزانوں کی کنجی اور تمام کامیابیوں کا ذریعہ ہے اسی سے مشکلیں آسان ہوتی ہیں، بےقیاس و گمان روزی ملتی ہے گناہ معاف ہوتے ہیں، جنت ہاتھ آتی ہے اجر بڑھتا ہے اور ایک عجیب قلبی سکون و اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ جس کے بعد کوئی سختی، سختی نہیں رہتی، اور تمام پریشانیاں اندر ہی اندر کافور ہو جاتی ہیں ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تمام دنیا کے لوگ اس آیت کو پکڑ لیں تو ان کو کافی ہو جائے۔
والله أعلم :
أخوكم في الله  اكبر حسين اوركزئي

کوئی تبصرے نہیں: