جمعہ، 23 دسمبر، 2016

آخر کب تک ؟

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
 (أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم مَّا يَتَذَكَّرُ فِيهِ مَن تَذَكَّرَ وَجَاءَكُمُ النَّذِيرُ) (سورۃفاطر؍۳۷( 
ترجمہ:۔’’کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی کہ جس میں جس کو سمجھنا ہوتا سمجھ لیتا۔اور تمہارے پاس ڈرانے والا بھی پہنچاتھا‘‘۔

 تفسیر وتشریح:۔
)أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم ۔۔۔یہ سب اہلِ دوزخ سے ان کے جواب میں کہا جائے گا۔ آخرت میں اہلِ جہنّم پر جو حجّت قائم ہوگی، اس کا پہلا جز یہی ہے،یعنی کیا تمہیں اتنی مہلت نہیں ملی تھی کہ تم آیاتِ حق پر غور کرسکتے اور اپنا نفع ونقصان سوچ لیتے؟ 
) وَجَاءَكُمُ النَّذِيرُ) یہ جواب کا دوسرا جزء ہوا،یعنی کیا تمہیں انبیاء کی دعوت ہدایت، براہ راست یا بالواسطہ نہیں پہنچ چکی تھی؟ نذیر عام ہے انبیاء اور ان کے سب نائبین کے لئے۔

)تفسیر ماجدی:ج؍۵ ص؍۴۴۲(
)أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم ۔۔۔الآیۃ) یعنی جب جہنّم میں یہ فریاد کریں گے اے ہمارے پروردگار آپ ہمیں اس عذاب سے نکال دیجئے اب ہم نیک عمل کریں گے اور پچھلی بد اعمالیوں کو چھوڑ دیں گے، اس وقت یہ جواب دیا جائے گا کہ کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر کی مہلت نہیں دی تھی جس میں غور کرنے والا غور کرکے صحیح راستے پر آجائے۔حضرت علی بن حسین زین العابدینؓ نے فرمایا کہ اس سے مراد سترہ سال کی عمر ہے۔ اور حضرت قتادہؓ نے اٹھارہ سال کی عمر بتلائی اور مراد اس سے عمرِ بلوغ ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ جس شخص کو صرف عمر بلوغ ملی اس کو بھی قدرت نے اتنا سامان دییدیا تھا کہ حق وباطل میں امتیاز کرسکے،جب نہ کیا تو وہ بھی مستحق ملامت وعذاب کا ہے۔ لیکن جس کو زیادہ عمر طویل ملی اس پر اللہ تعالیٰ کی حجّت اور زیادہ پوری ہوگئی وہ اگر اپنے کفر ومعصیت سے باز نہ آیا وہ زیادہ مستحق عذاب وملامت ہے۔
حضرت علی مرتضیٰؓ نے فرمایا وہ عمر جس پر اللہ تعالیٰ نے گناہگار بندوں کو عار دلائی ساٹھ سال ہے۔ اور حضرت ابن عبّاسؓ نے ایک روایت میں چالیس اور دوسری میں ساٹھ سال کے متعلّق فرمایا ہے کہ یہ وہ عمر ہے جس میں انسان پر اللہ کی حجّت تمام ہوجاتی ہے۔ اور انسان کو کوئی عذر کرنے کی گنجائش نہیں رہتی۔)معارف القرآن:ج ؍۷ ص؍۳۵۱(انسان کو اوسطاً جتنی عمر دی جاتی ہے، وہ اتنی طویل ہے اور اس میں انسان اتنے مختلف مراحل سے گزرتا ہے کہ اگر واقعی وہ حق تک پہنچنا چاہے تو پہنچ سکتا ہے۔ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبردار کرنے والے بھی اسی عمر کے دوران آتے رہتے ہیں۔ خبردار کرنے والے سے مراد انبیائے کرام اور اس امّت کے لئے آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلّم ہیں۔ جنہوں نے انسان کو آخرت کے عذاب سے آگاہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔اور آپ کے بعد آپ کے صحابہ اور ہر دور میں علماء بھی یہ فریضہ انجام د یتے رہے ہیں۔ اور بعض مفسّرین نے خبردار کرنے والے کی تفسیر یہ کی ہے کہ انسانی عمر کے مختلف مرحلوں پر جو چیزیں موت کی یاد دلاتی ہیں،یہاں خبردار کرنے والے سے وہ مراد ہیں۔ چنانچہ بڑھاپے کے مقدمے کے طور پر جب انسان کے بال سفید ہوتے ہیں تو وہ بھی خبردار کرنے والا ہے۔جب کسی کے یہاں اس کا پوتا پیدا ہوتا ہے تو وہ بھی ڈرانے والا ہے کہ موت کا وقت قریب آرہا ہے۔ نیز انسان کو جو بیماریاں لاحق ہوتی ہیں وہ سب بھی موت کی یاد دلا کر انسان کو خبردار کرتی ہیں کہ وہ آخرت کی بہتری کا کوئی سامان کرلے۔  )توضیح القرآن:مفتی محمّد تقی عثمانی۔ج؍۳ ص؍۱۳۴۴(

کوئی تبصرے نہیں: