جمعہ، 23 دسمبر، 2016

جمعہ کا دن اور اسکے اعمال

ارشاد باری تعالی ھے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّـهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ۚذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ﴿٩﴾
ترجمہ: ائے ایمان والو ! جب جمعہ کے روز نماز کے لئے اذان کہی جائے تو تم اللہ کی یاد کی طرف چل پڑا کرو اور خریدو فروخت چھوڑ دیا کرویہ تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے۔ (بیان القرآن/ج:۱۲/ص:۶) 

اس دن کو یوم الجمعہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ مسلمانوں کے اجتماع کا دن ہے، اور آسمان و زمین اور تمام کائنات کی تخلیق جو حق تعالیٰ نے چھ دن میں فرمائے ہے ، ان چھ میں سے آخری دن جمعہ ہے، جس میں تخلیق کی تکمیل ہوئی، اسی دن میں آدم ؑ پیدا کئے گئے۔ اسی روز میں انکو جنت میں داخل کیا گیا، پھر اسی دن میں انکو زمین کی طرف اتارا گیا، اسی دن میں قیامت قائم ہوگی اور اسی دن میں ایک گھڑی ایسی آتی ہے کہ اس میں انسان جو بھی دعا کرے قبول ہوتی ہے۔ یہ سب باتیں احادیث صحیحہ سے ثابت ہوتے ہیں۔
(ابن کثیر)(معارف القرآن/ج:
۸/ص:۴۴۰)
’’
نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ ‘‘ نداء صلٰوۃ سے مراد اذان ہے۔اور ’’مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ بمعنی  فِی يَوْمِ الْجُمُعَةِ ‘‘ہے۔
’’ 
فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّـهِ ‘‘ ،سعی کے معنی دوڑنے کے بھی آتے ہیں اور کسی کام کو اہتمام کے ساتھ کرنے کے بھی ، اس جگہ یہی دوسرے معنی مراد ہیں، کیونکہ نماز کے لئے دوڑتے ہوئے آنے کو رسول اللہﷺ نے منع فرمایا ہے، اور یہ ارشاد فرمایا ہے کہ جب نماز کے لئے آؤ تو سکینت اور وقار کے ساتھ آؤ، آیت کے معنی یہ ہیں کہ جب جمعہ کے دن جمعہ کی اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو، یعنی نمازو خطبہ کے لئے مسجد کی طرف چلنے کا اہتمام کرو، جیسا دوڑنے والا کسی دوسرے کام کی طرف توجہ نہیں دیتا، اذان کے بعد تم بھی کسی اور کام کی طرف بجز اذان و خطبہ کے توجہ نہ دو۔ (ابن کثیر)
ذکراللہ سے مراد نماز جمعہ بھی ہوسکتی ہے اور خطبہ جمعہ جو نماز جمعہ کے شرائط و فرائض میں داخل ہے وہ بھی، اسلئے مجموعہ دونوں کا مراد لیا جائے یہ بہتر ہے۔ (مظہری)
فائدہ: اذان جمعہ کے بعد سارے ہی مشاغل کا ممنوع کرنا مقصود تھا جن میں زراعت، تجارت، مزدوری، سبھی داخل ہیں۔ مگر قرآن کریم نے حرف بیع کا ذکر فرمایا، اس سے اس طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے کہ جمعہ کی نماز کے مخاطب شہروں اور قصبوں والے ہیں، چھوٹے دیہات اور جنگلوں میں جمعہ نہیں ہوگا۔اسلئے کہ شہروں اور قصبوں میں جو مشاغل عام لوگوں کو پیش آتے ہیں انکی ممانعت فرمائی گئی وہ بیع و شراء کے ہوتے ہیں، بخلاف گاؤں والوں کے انکے مشاغل کاشت اور زمین والوں سے ہوتے ہیں۔ اور باتفاق فقہائے امت یہاں بیع سے مراد فقط فروخت کرنا نہیں بلکہ ہر وہ کام جو جمعہ کی طرف جانے کے اہتمام میں مخل ہو وہ سب بیع کے مفہوم میں داخل ہیں اسلئے اذان جمعہ کے بعد کھانا، پینا، سونا، کسی سے بات کرنا، یہاں تک کہ کتاب کا مطالعہ کرنا وغیرہ سب ممنوع ہیں۔ صڑف جمعہ کی تیاری کے متعلق جو کام ہوں وہ کئے جا سکتے ہیں۔ (معارف القرآن/ج:
۸/ص:۴۴۱)
اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لئے اجتماع اور عید کا ہر ہفتہ میں یہ دن جمعہ کا رکھا تھا، مگر پچھلی امتوں کو اسکی توفیق نہ ہوئی، یہود نے یوم السبت(سنیچر کے دن) کو اپنا یوم اجتماع بنا لیا، نصاری نے اتوار کو۔
اللہ تعالی نے اس امت کو اسکی توفیق بخشی کہ انہوں نے یوم جمعہ کا انتخاب کیا۔جاہلیت میں اس دن کو ’’یوم عروبہ‘‘ کہا جاتا تھا۔ سب سے پہلے عرب میں کعب بن لؤی نے اسکا نام جمعہ رکھا۔ (معارف القرآن/ج:
۸/ص:۴۴۰)
 

کوئی تبصرے نہیں: