جمعرات، 22 دسمبر، 2016

جو شخص لوگوں پر رحم نہیں کرتا، اللہ کی اس پر رحمت نازل نہیں ہوتی

عن جرير بن عبد الله قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يرحم الله من لا يرحم الناس . متفق عليه
" حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم نہیں کرتا (یعنی اس کو اپنی خاص و کامل رحمت کا مستحق نہیں گردانتا) جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا۔ (بخاری ومسلم)
********
بچوں کو پیار کرنے کی فضیلت
وعن عائشة قالت جاء أعرابي إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال أتقبلون الصبيان ؟ فما نقبلهم . فقال النبي صلى الله عليه وسلم أو أملك لك أن نزع الله من قلبك الرحمة . متفق عليه
" اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ کی خدمت میں ایک دیہاتی حاضر ہوا اور جب اس نے صحابہ کو دیکھا کہ وہ بچوں کو چومتے اور پیار کرتے ہیں تو کہنے لگا کہ کیا تم لوگ بچوں کو چومتے ہو؟ ہم تو بچوں کو نہیں چومتے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی یہ بات سن کر فرمایا کہ کیا میں اس بات پر قادر ہو سکتا ہوں کہ اللہ نے تمہارے دل میں سے جس رحم و شفقت کو نکال دیا ہے اس کو روک دوں۔ (بخاری ومسلم)
تشریح
رسول اللہ کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ جب اللہ نے تمہارے دل کو رحمت و شفقت اور پیار محبت سے خالی کر دیا ہے تو یہ میرے بس کی بات نہیں ہے کہ تمہارے دل میں رحم و شفقت اور محبت کا جذبہ پیدا کروں، یہ معنی اس صورت میں ہیں جب کہ لفظ ان الف کے ساتھ جیسا کہ اکثر راویوں نے نقل کیا ہے کہ اور اگر الف کے زیر کے ساتھ یعنی اِنْ ہو تو یہ معنی ہوں گے کہ میں کیا کر سکتا ہوں اگر اللہ نے تمہارے دل سے رحم کا جذبہ نکال دیا ہے تاہم دونوں صورتوں میں روایت کا مفہوم ایک ہی تفاوت فرق محض اعراب کی بنیاد پر ہے حدیث کا مقصد بے رحمی وبے مروتی اور سخت دلی کے خلاف نفرت کا اظہار کرنا اور اس قسم کے لوگوں کو سختی کے ساتھ مشتبہ کرنا ہے نیز اس ارشاد گرامی میں اس طرح بھی اشارہ ہے کہ دلوں میں رحم و شفقت کے جذبات کا ہونا اللہ کا ایک بہترین عطیہ ہے اور اسی کا پیدا کیا ہوا ہے اور اگر وہ کسی شخص کے دل سے رحم و شفقت اور محبت و مروت کے جذبات کو نکال دے تو یہ پھر کسی کے بس کی بات نہیں ہے کہ وہ اس شخص کے دل کو ان جذبات کی دولت عطا کر دے۔
*******
لڑکی ماں باپ کے پیار ومحبت اور حسن سلوک کی زیادہ مستحق ہے
وعنها قالت جاءتني امرأة ومعها ابنتان لها تسألني فلم تجد عندي غير تمرة واحدة فأعطيتها إياها فقسمتها بين ابنتيها ولم تأكل منها ثم قامت فخرجت . فدخل النبي صلى الله عليه وسلم فحدثته فقال من ابتلي من هذه البنات بشيء فأحسن إليهن كن له سترا من النار . متفق عليه
" اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ ایک دن میرے پاس ایک عورت آئی اس کے ساتھ اس کی دو بچیاں بھی تھیں اس نے مجھ سے سوال کیا کہ (یعنی مجھ سے کچھ مانگا) لیکن اس کو میرے پاس سے ایک کھجور کے علاوہ اور کچھ بھی نہ مل سکا۔چنانچہ میں نے اس کو وہی ایک کھجور دے دی اس نے اس کھجور کو آدھی آدھی اپنی دونوں بچیوں کو بانٹ دیا اور خود اس میں سے کچھ نہیں کھایا اور پھر وہ اٹھ کر چلی گئی اتنے میں نبی گھر میں تشریف لائے میں نے آپ سے اس عورت کا یہ واقعہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا جو شخص ان بچیوں میں سے کچھ یعنی ایک یا دو وریا اس سے زیادہ لڑکیوں کی وجہ سے ابتلاء و آزمائش سے کیا جائے وہ ان بچیوں کے ساتھ احسان و سلوک کرے تو وہ بچیاں اور ان کے ساتھ کی گئی نیکی اس کے لئے دوزخ کی آگ سے پردہ بنیں گی۔ (بخاری ومسلم)
تشریح
یعنی وہ بچیاں اور ان کے ساتھ کی گئی نیکی اس شخص اور دوزخ کی آگ کے درمیان حائل ہوں گی کہ وہ شخص اپنی ان بچیوں کی وجہ سے دوزخ کی آگے محفوظ رہے گا اور بچیوں کے ساتھ حسن سلوک کی یہ فضیلت اس بنا پر ہے کہ لڑکوں کی بہ نسبت لڑکیاں یا وہ اپنے ماں باپ کے پیار محبت اور ان کے حسن سلوک کی مستحق ہوتی ہیں ۔ اس بارے میں علماء کا اختلافی قول ہے کہ ابتلاء و آزمائش کا محمول محض لڑکوں کا پیدا ہونا ہے یا کسی ایسی حالت میں مبتلا ہونا ہے جو لڑکیوں کی وجہ سے کسی محنت و تکلیف اور پریشانی و عسرت کے سامنے آنے اور اس پر صبر و تحمل کرنے کی صورت میں پیش آئے چنانچہ پہلی صورت یعنی ابتلاء آزمائش کا تعلق لڑکیوں کی پیدائش سے ہونا زیادہ صحیح ہے اور اس صورت میں کہا جائے گا کہ جو لوگ اپنے ہاں لڑکیاں پیدا ہونے پر دل گرفتگی اور ناگواری میں مبتلا ہوتے ہیں وہ اس حقیقت سے بالکل بے خبر ہیں کہ لڑکیاں اللہ تعالیٰ کی ایک بڑی رحمت ہیں اور ان کی پرورش و دیکھ بھال اور ان کے ساتھ پیار و محبت کا سلوک کرنا ایک بہت بڑی اخروی سعادت ہے اس بارے میں بھی علماء کے اختلافی قول ہیں کہ احسان و سلوک سے مراد نان نفقہ ہے جو باپ پر واجب ہوتا ہے یا اس واجب نان نفقہ کے علاوہ مزید حسن سلوک کرنا مراد ہے چنانچہ راجح قول یہ ہے کہ یہ دوسرے معنی زیادہ صحیح ہیں نیز واضح رہے کہ مذکورہ احسان و سلوک کی شرط یہ ہے کہ وہ شریعت کے موافق ہو۔علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ بچیوں کے ساتھ احسان و سلوک کرنے کا مذکورہ اجر اس صورت میں حاصل ہوتا ہے جبکہ اس احسان و سلوک کا سلسلہ برابر جاری رہتا ہے یہاں تک کہ وہ بچیاں اپنی شادی بیاہ کی وجہ سے یا کسی اور صورت میں ماں باپ کی کفالت اور اس کے احسان و سلوک سے بے نیاز ہو جائیں۔

کوئی تبصرے نہیں: