الحمد للّٰہ رب العالمین، وصلی اللّٰہ وسلم وبارک علی نبینا وسیدنا وحبیبنا، وعلیٰ آلہ وصحبہ وأزوجہ وذریاتہ الطیبین الطاہرین، وسا ئر الصحابة الکرام البررة، والتابعین لھم بالأحسان اِلی یوم الدین أمابعد!
اس وقت میں آپ کے سامنے قرآن کریم کی ایک آیت کو موضوع گفتگو بنا کر کچھ باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں،اللہ رب العزت نے ہم کو حق بات کی تلقین کرنے اور اس سلسلہ میں پیش آنے والی پریشانیوں پر صبر کرنے کا حکم دیا ہے،قرآن کریم کی جو آیت آج ہماری گفتگو کا موضوع ہے وہ بہت ہی مختصر ہے،الفاظ بھی تھوڑے ہیں ، حروف بھی کم ، لیکن وہ ہر قسم کی خیر کی جامع ہے اور ایسے محاسن اخلاق اور علوم و معارف اپنے اندر سموئے ہوئے ہے،جو عموماً دوسرے مقامات پر نہیں ملتے ،یہ آیت قرآن کریم کے اعجازی پہلو کو بھی واضح کرتی ہے اور اس حقیقت کو روشناس کراتی ہے کہ اللہ کا کلام تمام کلاموں سے بڑھ کر عمدہ ہے،ہدایت،خیر،روشنی اور کام یابی اسی کلام میں مضمر ہے،سورہٴ اعراف میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاہِلِیْن﴾․(الاعراف:199)(معافی کو اپنا شیوہ بنائیے ،نیکی کا حکم کیجیے اور نادانوں سے اعراض کیجیے)۔ اس آیت میں تین اصول اور کلیات بیان کیے گئے ہیں ،یہ اس نظام معاشرت کا خلاصہ پیش کر رہے ہیں جس کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لے کر دنیا میں تشریف لائے۔ اگر ہم ان اصولوں ،بلکہ اس آیت کے اندر غور کریں اور کما حقہ اس کو سمجھنے کی کوشش کریں تو ہماری زندگی اچھی ،کامل،پاکیزہ اور عمدہ ہو سکتی ہے ،تین جملے:”معاف کیجیے، نیکی کا حکم کیجیے اور جاہلوں سے اعراض کیجیے۔“پورے مجموعہ اخلاقیات کے جامع ہیں۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:”اے محمد !آپ بلند اخلاق کے حامل ہیں“ ۔(القلم :4) یہ تینوں صفات رسول اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق عالیہ کا جز ہیں ،اس سے پتہ چلتا ہے کہ دین میں اخلاق کا کیا مرتبہ ہے؟رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا گیا ہے کہ دین معاملات کا نام ہے۔ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ:”کامل ایمان والا وہ ہے جو اچھے اخلاق کا حامل ہو“۔(ابو داؤد:4684)ایک دوسرے موقع پر فرمایا کہ: ”انسان اپنے حسن اخلاق کی وجہ سے دن بھر روزہ ررکھنے والے اور رات بھر نفلیں پڑھنے والے کے درجے تک پہنچ جاتا ہے“۔(مسند احمد:26053) ترمذی شریف میں منقول ہے کہ قیامت کے دن ایمان والے کی میزان میں حسن اخلاق سے بہتر کوئی وزنی چیز نہیں ہوگی۔مزید فرمایا کہ قیامت کے دن مجھ سے سب سے زیادہ قریب وہ شخص ہوگا جو اچھے اخلاق کا حامل ہو۔(ترمذی :2150) مذکورہ آیت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اسلام میں اخلاق کی بہت زیادہ اہمیت ہے،کیوں کہ دین عبادت و اخلاق کے مجموعے کا نام ہے، دین کا ایک حصہ اللہ کے ساتھ اور د وسرا حصہ لوگوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے، ایک حصہ عبادت ،اطاعت اور عمل ہے، دوسرا حصہ لوگوں کے ساتھ معاملہ، اخلاقی برتاؤ اور اچھی صفات کا مظاہرہ ۔اس آیت میں ہم کو تین اصول دیے گئے ہیں،اسلامی اخلاقیات کے تمام ضابطے اور قاعدے انہی تینوں اصولوں کے ضمن میں آتے ہیں،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اے محمد !معافی کو شیوہ بنائیے ،یعنی لوگوں سے غلطی ہو جائے اور ان کی طبیعتوں، اخلاق اور معاملات میں جو بے راہ روی ہو،اس کا تعلق اگر آپ کی ذات سے ہے تو نظر انداز کیجیے اور لوگوں کو ناقابل برداشت چیزوں کا عادی نہ بنائیے،بلکہ ان سے اچھائی اور خوبی کے ساتھ پیش آئیے اور دیگر معاملات میں اغماض برتیے، قرآن کریم کا انسان کے باہمی برتاؤ کے تعلق سے یہ ایک متوازن نظریہ ہے کہ ان کی خوبیوں کو قبول کیا جائے اور ان کی غلطیوں سے چشم پوشی کی جائے، ان اصولوں کے تحت بہت سی جزئیات آتی ہیں ،مثلاً معاملہ فہمی، معاف کرنا ،رحم کرنا،اچھے اخلاق کولینا،دریا دلی کا مظاہرہ کرنا وغیرہ۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ انسان ہر چیز میں کامل و مکمل ہو،ہر انسان کے کچھ ایجابی پہلو ہوتے ہیں اور کچھ سلبی،تو جس وقت آپ ان سے معاملہ کریں تو ان کے ایجابی پہلوؤں کو قبول کریں اور ان کے پاس جو خیر اور حکمت ہے اس کو اپنے دل میں جگہ دیں ، لیکن اگر وہ غلطی کریں ،ان سے کوتاہی ہو جائے، تو بہتر یہ ہے کہ ان کو معاف کیجیے،نظر انداز کیجیے ،یہ ضابطہٴ حیات اگر نافذ ہوتو ہماری بہت سی پریشانیاں دور ہو جائیں، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث میں اس عظیم نظام معاشرت کی طرف توجہ دلائی ہے،مسلم شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”کوئی ایمان والا کسی ایمان والی عورت سے ناراض نہ ہو، کیوں کہ اگر اس کی ایک عادت ناپسندیدہ ہے تو دوسری عادت اچھی ہے“۔یہ ضابطہ عقل وحکمت کے بالکل مطابق ہے،اگر آپ اپنی بیوی کے اخلاق میں کچھ کمی پائیں تو حاشا و کلا اس پر یک بار گی حملہ نہ کیجیے اور اس کے تعاون ،اس کے ایجابی پہلوؤں کو بھول کر اس کے ساتھ سختی کا معاملہ نہ کیجیے ،اس کا اسلامی اخلاقیات سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اگر اس کی عادت بری لگے تو دوسری عادت اچھی لگے گی جب یہ صورت حال ہوتو اس کی خوبیوں کا تذکرہ کیا جائے اور اس کے تعاون کو مستحضر رکھا جائے ،حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ اپنی شریک حیات کی زبان سے سخت جملہ سنا،حضرت عمر رضی اللہ عنہ غصہ نہیں ہوئے،بلکہ صبر کیا اور خاموش رہے،پوچھنے والے نے پوچھا کہ ایسا معاملہ آپ نے کیوں کیا؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ وہ میرے بچوں کی نگہ داشت کرتی ہے ، میرے کپڑے دھوتی ہے،میرے لیے کھانا پکاتی ہے اور نہ جانے کتنے کام کرتی ہے ،چناں چہ انہوں نے معاف کردیا۔تمام طبقات ،قوموں اور جماعتوں کے ساتھ معاملہ کرنے میں یہ ہمارے لیے ایک عظیم دستور ہے کہ ہم ان کے ایجابی پہلوؤں اور خیر و برکت کو حاصل کریں اور ان کی کمیوں اور کوتاہیوں کو نظر انداز کریں ،ایسا کرنے سے اس کے بڑے نتائج مرتب ہوں گے،لیکن یہ بات یاد رہے کہ انسان ہر معاملے میں معافی کو اپنا شیوہ نہ بنائے، عقیدہ اور شریعت کے معاملے میں وہ حق بجانب ہو،اگر کوئی بد عقید گی، شریعت کی بے حرمتی کی جارہی ہوتو اس کا ازالہ کرنا عین ایمان ہے۔واضح رہے کہ یہ کام محبت بھرے انداز میں حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعہ ہو۔ آیت کا دوسرا جملہ :﴿وَأمُرْ بالْعُرْفِ﴾ہے ،یعنی اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )! آپ نیکی کا حکم دیجئے ،آپ کا یہ عمل دو اہم باتوں پر مشتمل ہونا چاہیے ،ایک یہ کہ نیکی کا یہ کہ عمل حکمت ، نصیحت ،سنجیدگی اور غایت درجے ادب واحترام کے دائرہ میں ہو ۔دوسرا یہ کہ جس بات کا حکم دیا جارہا ہے ،وہ شرعی لحاظ سے قابل قبول ہو۔ نہ رسم ورواج سے تعلق رکھتا ہو اور نہ جاہلی عادات واطوار سے ،اس اصول کے تحت بھی بہت سی جزئیات ہیں ،ایک اہم جزئیہ نصیحت وخیرخواہی ہے ،نصیحت وخیر خواہی کا شریعت میں عظیم مرتبہ ہے، کئی آیتیں اور احادیث اس پر شاہد ہیں،ایک حدیث میں آیا ہے کہ دین خیر خواہی کا نام ہے،عربی کے لحاظ سے یہاں جو جملہ استعمال کیا گیا ہے اس کے اندر حصر ہے اور حصر سے نصیحت کر کے اللہ تعالیٰ کے نزدیک عظیم تر ہونے کا پتہ چلتا ہے ،کیوں کہ یہ عمل اللہ تعالیٰ کو بہت زیادہ محبوب ہے، حضرت تمیم بن اوس داریروایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :”دین خیر خواہی کا نام ہے۔“ہم نے سوال کیا :کس کے لیے اے اللہ کے رسول ؟فرمایا :”اللہ کے لیے ،اس کی کتاب کے لیے ،رسول کے لیے،مسلمان پیشواؤں کے لیے اور عوام الناس کے لیے۔“(مسلم شریف) آیت کے اس ٹکڑے میں اہم ترین بات، جس کی ہم کو تلقین کی جارہی ہے، یہ ہے کہ ہمارا ہر فرد خیر کا داعی ہو ،لوگوں کو نیکی کا حکم دیتا ہو،اس کا یہ عمل حکمت ،اچھی نصیحت ، محبت و موٴدت کے ساتھ ہو،اگر ہم سیرت رسول کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اصول کو کماحقہ اپنی زندگی میں برتا ،سیرت کی کتابوں میں ایسے واقعات موجود ہیں جو اس پہلو کو واضح انداز میں پیش کرتے ہیں۔ آیت میں تیسری بات یہ فرمائی گئی ہے کہ جاہلوں سے اعراض کیجیے، اعراض کا مطلب معاف کرنا ،درگذر کرنا،پیش قدمی نہ کرنا ،دور رہنا ان لوگوں سے جو شریعت کے مخالف ہیں ،فاسق و زندیق ہیں اور خیر سے روکنے والے ہیں،انسان دنیوی زندگی میں جب علم پر عمل کرتا ہے اور لوگوں کو اس علم کی طرف راغب کرتا ہے تو ایسے نادان لوگوں سے بھی اس کا سابقہ پڑتا ہے جو اسی قولی اور عملی لحاظ سے اس کو ایذا پہنچاتے ہیں ،ایسے موقع پر شریعت کا حکم یہ ہے کہ انسان جاہلوں سے اعراض کرے،ان کو خاطر میں نہ لائے، ان کی طرف کوئی توجہ نہ کرے ،نہ گالی گلوچ میں ان کے ساتھ شریک ہواور نہ بحث و مباحثہ میں ،جب ایسا ہوگا تو انسان فلاح پانے والا ہوگا،جاہلوں کے شر سے محفوظ رہے گا،اس کا ضمیر اور اس کا دل مطمئن ہوگا ،اس کی فکر اور اس کا ذہن اور اس کا علم اور اس کی عقل بھی پراگندہ نہیں ہوگی،ایک ذی فہم ،عقل مند انسان کا شیوہ ہے کہ وہ نادان لوگوں سے دور رہتا ہے۔حضرت امام احمد بن حنبل فرمایا کرتے تھے:”چشم پوشی کرنا اخلاق حسنہ کا نواں حصہ ہے“۔ اگر ہم سیرت رسول صلى الله عليه وسلم کا مطالعہ کریں تو ان ربانی اصولوں کو عملی شکل میں موجود پائیں گے،اسی وجہ سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا:”اے محمد صلى الله عليه وسلم( آپ بلند اخلاق کے مالک ہیں“۔اللہ رب العزت نے رسول پاک صلى الله عليه وسلم کو اچھے اخلاق سے نوازا،اچھے اخلاق کیا ہیں؟اچھے اخلاق قرآن کریم میں مذکور اخلاقی تعلیمات ہیں،جن کو رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے اپنی زندگی میں برتا اور آپ قرآن کے ترجمان تھے، ایسے قرآن تھے جو عربوں کے درمیان چل پھر رہا تھا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ رسول اکرم اصلى الله عليه وسلم کے اخلاق قرآن ہی تھے، سیرت نبوی قرآن کی اخلاقی تعلیمات کی حقیقی ترجمانی ہے،اسی میں اس آیت کی بھی تفسیر موجود ہے جو ہماری گفتگو کا موضوع ہے۔ اس موقع پر ہم دو واقعات ذکر کرنا مناسب سمجھتے ہیں، تاکہ وہ ہمارے لیے مستقبل میں مشعل راہ ثابت ہوں: پہلا واقعہ: ایک یہودی عالم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قرض طلب کرنے کے لیے آئے،آتے ہی زور سے آپ کی چادر کھینچی، جس کا اثر آپ کی گردن پر پڑا اور کہا اے محمد !میرا قرض مجھ کو دو،کیوں کہ تم عبد المطلب کی اولاد میں ہو، جو ٹال مٹول کرنے والے افراد ہیں۔ اس یہودی نے صرف بدترین عمل کا ارتکاب ہی نہیں کیا ،بلکہ شان نبوت کے بالکل منافی جملہ بھی کہا،جس سے متاثر ہو کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہا:اے اللہ کے رسول ! اجازت ہو تو ہم اس یہودی کی گردن اڑادیں۔ ملا حظہ فرمائیے کہ رسو ل اکرم صلى الله عليه وسلم نے اس موقع پر کیا کیا؟ یہودی کی طرف متوجہ ہوئے اور مسکرائے ،پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ میں اس بات کا خواہش مند تھا کہ عمر!تم مجھ کو حسن ادا کا مشورہ دیتے اور اس کو حسن طلب کا۔غور کیا جائے کہ نبوی مرتبہ ہے،خدا کی قسم! اگر آج کوئی آدمی آئے اور ہمارے ساتھ ایسا معاملہ کرے تو ہم اس کو ماریں گے،اس سے سختی سے بات کریں گے اور دوسری کارروائیاں کریں گے،لیکن یہ یہودی آیا اور زور سے چادر بھی کھینچی اور کہا کہ اے محمد! تم ٹال مٹول کرنے والے ہو ،اس پر اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے تبسم فرمایا ،یہ تاب ناک نبوی نمونہ اور یہ خوب صورت مسکراہٹ ہمارے لیے قیمتی سوغات ہے،پھر آپ صلى الله عليه وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حکم دیاکہ اس کا قرض اس کو ادا کردیں اور بیس صاع مزید دیں۔ اللہ اکبر ! یہ اعلیٰ اخلاق ہیں رسو ل اکرم صلى الله عليه وسلم کے ،قرض بھی ادا فرمارہے ہیں اور بیس صاع مزید دے رہے ہیں ،حضرت عمر رضی اللہ عنہ معترض ہو کر سوال کرتے ہیں کہ اے اللہ کے رسول!آپ نے ایسا معاملہ کیوں فرمایا؟تو آپ نے فرمایا:اس لیے کہ تم نے اس کو ڈرایا اور دھمکایا،اتنا سننا تھا کہ اسی آن وہ یہودی حلقہ بگوش اسلام ہوگیا اور کہا کہ میں تورات میں محمدصلى الله عليه وسلم کے اوصاف میں پڑھا کرتا تھا کہ وہ بڑے حلیم ہوں گے،جاہلوں کی جہالت کے سامنے ان کا حلم بہت بڑھا ہوا ہوگا۔ دوسرا واقعہ: غزوہٴ حنین کا موقع ہے،رسول اکرم صلى الله عليه وسلم مال غنیمت تقسیم فرما رہے ہیں،آپ صلى الله عليه وسلم نے نومسلم افراد کو تالیف قلب کے لیے دوسرے مجاہدوں سے کچھ زائد مال غنیمت عطا فرمایا، اقرع بن حابس کو سو اونٹ دیے،عیینہ کو بھی سو اونٹ عنایت فرمائے،ایک دیہاتی آیا اور سخت لہجے میں آپ صلى الله عليه وسلم سے مخاطب ہوا،اے محمد!انصاف کرو،کیوں کہ تم انصاف نہیں کررہے ہو،اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم فطری طور پر برہم ہوئے،مگر آپ نے حلم و بردباری کے دامن کو نہیں چھوڑا اور اعرابی سے مخاطب ہوکر کہا کہ تمہارا بھلا ہو،اگر میں انصاف نہیں کرو ں گا تو کون انصاف کرے گا؟پھر اس کو بھی مال دیے جانے کا حکم دیا۔ ملاحظہ فرمائیے کہ ایک آدمی شان نبوت میں گستاخی کررہاہے اور پوری جرأت کے ساتھ سختی سے کلام کررہا ہے ،لیکن رسول اکر م صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بالمقابل اس کے ساتھ محبت ،رحمت ،مہربانی،شفقت اور خیر خواہی کا معاملہ فرمارہے ہیں اور اس کی غلطی کی اصلاح بھی فرمارہے ہیں۔ آج ہمیں ان اخلاق کی کتنی سخت ضرورت ہے؟ہمارے دینی ودعوتی مشن ، تعلیم و تربیت کی سر گرمیاں ،ہمارے آپسی معاملات ،خواہ وہ کسی سطح کے ہوں ،میں اخلاقِ حسنہ کی بہت ضرورت ہے،نبی کریم صلى الله عليه وسلم کا ایک یہودی پڑوسی تھا،لیکن آپ صلى الله عليه وسلم اس کے ساتھ اچھا معاملہ فرماتے تھے ،ہر موقع پر خیال رکھتے تھے اور اس کے ہدایا کو قبول فرماتے تھے اوروقتاً فوقتاً اس کے پاس جاتے تھے،آپ کو معلوم ہے کہ رسول اکرم صلى الله عليه وسلم کا جب وصال ہوا تو آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس رہن رکھی ہوئی تھی،آج ہمیں ان اخلاق عالیہ کی بہت زیادہ ضرورت ہے،پہلے ہم اپنی ذات کو ان سے مزین کریں،پھر اپنے ماتحتوں کو ان کی تعلیم دیں ، جو شخص بھی قرآنی اخلاق کا علم حاصل کرنا چاہتا ہے اس کو حدیث شریف سے خاص اشتغال رکھنا چاہیے،سیرت مصطفی کو پڑھنا چاہیے،کیوں کہ اس میں قرآن کے اخلاق مکمل عملی شکل میں موجود ہیں۔اگر طوالت کا خوف نہ ہوتاتو ہم سیرت رسول سے بہت سے نمونے پیش کرتے۔ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم وبارک علی عبدہ و رسولہ نبینا و سیدنا محمد وأصحابہ وصحبہ أجمعین․ |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں