" ظلم" کے لغوی معنی ہیں " کسی چیر کو بے موقع اور بے محل رکھنا " یعنی جس چیر کی جو جگہ اور جو محل ہو اس کو وہاں کی بجائے دوسری جگہ اور دوسرے محل میں رکھنا! اور یہ مفہوم ہر اس چیز کو شامل ہے جو اپنی حد سے تجاوز کر جائے اور اس کو جس طرح واقع ہونا چاہئے اس کے بجائے زیادتی یا نقصان کے ساتھ بے جا اور بے وقت واقع ہو چنانچہ جس چیر کو عام اصطلاح میں جور و تعدی یا زور، زبردستی اور ستم کرنا کہتے ہیں اس کے بھی یہ معنی ہیں اور شریعت میں بھی ظلم وغیرہ کے یہ معنی مراد لئے جاتے ہیں، البتہ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ موقعہ محل سے شرعی موقع و محل مراد لیا جائے یعنی شرعی طور پر ظلم وغیرہ کے یہ معنی مراد لئے جاتے ہیں، البتہ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ موقع و محل سے شرعی موقع و محل مراد لیا جائے یعنی شرعی طور پر ظلم وغیرہ کا اطلاق اس چیز پر ہوگا جو شرعی محل سے بلاوجہ شرعی تجاوز کر جائے۔
عن ابن عمر أن النبي صلى الله عليه وسلم قال الظلم ظلمات يوم القيامة . متفق عليه
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " ظلم کرنا قیامت کے دن تاریکیوں کا باعث ہوگا " ۔ (بخاری ومسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ ظلم کو قیامت کے دن میدان حشر میں تاریکیاں اس طرح گھیرے ہوئے ہوں گی کہ وہ اس نور سے محروم رہے گا جو مومن کو نصیب ہوگا اور جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن میں یوں فرمایا ۔ آیت (يَسْعٰى نُوْرُهُمْ بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَبِاَيْمَانِهِمْ) 57۔ الحدیث : 12)۔ یعنی قیامت کے دن مومنین کا نور ان کے آگے آگے اور دائیں طرف دوڑتا ہوگا جس کی روشنی میں وہ اپنی منزل پائیں گے۔
بعض حضرات کہتے ہیں کہ ظلمات (تاریکیوں ) سے آخرت کے وہ شدائد (تکالیف و مشکلات) اور عذاب مراد ہیں جن سے قیامت کے دن واسطہ پڑے گا اور جن میں اہل دوزخ مبتلا ہوں گے) چنانچہ قرآن کریم میں بھی بعض جگہ ظلمات کے معنی شدائد مراد لئے گئے ہیں جیسا کہ ایک آیت میں فرمایا گیا ہے آیت (قُلْ مَنْ يُّنَجِّيْكُمْ مِّنْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ) 6۔ الانعام : 63) (کہہ دیجئے کہ تمہیں جنگل اور دریا کی تکلیف و مشکلات سے کون نجات دیتا ہے)۔
مطلب یہ ہے کہ ظلم کو قیامت کے دن میدان حشر میں تاریکیاں اس طرح گھیرے ہوئے ہوں گی کہ وہ اس نور سے محروم رہے گا جو مومن کو نصیب ہوگا اور جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن میں یوں فرمایا ۔ آیت (يَسْعٰى نُوْرُهُمْ بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَبِاَيْمَانِهِمْ) 57۔ الحدیث : 12)۔ یعنی قیامت کے دن مومنین کا نور ان کے آگے آگے اور دائیں طرف دوڑتا ہوگا جس کی روشنی میں وہ اپنی منزل پائیں گے۔
بعض حضرات کہتے ہیں کہ ظلمات (تاریکیوں ) سے آخرت کے وہ شدائد (تکالیف و مشکلات) اور عذاب مراد ہیں جن سے قیامت کے دن واسطہ پڑے گا اور جن میں اہل دوزخ مبتلا ہوں گے) چنانچہ قرآن کریم میں بھی بعض جگہ ظلمات کے معنی شدائد مراد لئے گئے ہیں جیسا کہ ایک آیت میں فرمایا گیا ہے آیت (قُلْ مَنْ يُّنَجِّيْكُمْ مِّنْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ) 6۔ الانعام : 63) (کہہ دیجئے کہ تمہیں جنگل اور دریا کی تکلیف و مشکلات سے کون نجات دیتا ہے)۔
*****
ظالم کی رسی دراز ہوتی ہے
وعن أبي موسى قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن الله ليملي للظالم حتى إذا أخذه لم يفلته ثم يقرأ ( وكذلك أخذ ربك إذا أخذ القرى وهي ظالمة )
الآية
الآية
حضرت ابوموسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " بلاشبہ اللہ تعالیٰ ظالم کو مہلت دیتا ہے (یعنی دنیا میں اس کی عمر دراز کرتا ہے تاکہ وہ اپنے ظلم کا پیمانہ لبریز کرے اور آخرت میں سخت عذاب میں گرفتار ہو) یہاں تک کہ جب اس کو پکڑے گا تو چھوڑے گا نہیں (اور وہ ظالم اس کے عذاب سے بچ کر نکل نہیں پائے گا) اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (دلیل کے طور پر) یہ آیت پڑھی۔ (وَكَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَا اَخَذَ الْقُرٰي وَهِىَ ظَالِمَةٌ اِنَّ اَخْذَه اَلِيْمٌ شَدِيْدٌ ) 11۔ہود : 102)۔ (بخاری ومسلم)
تشریح
اس حدیث میں گویا مظلوم لوگوں کو تسلی دی گئی ہے کہ وہ اپنے اوپر کئے جانے والے ظلم و ستم پر صبر و استقامت اختیار کریں اور اس دن کا انتظار کریں جب قانون قدرت کے مضبوط ہاتھ ظالم کی گردن پر ہوں گے اور اس کو اپنے ظلم کی سخت سزا بھگتنی پڑے گی، نیز اس ارشاد گرامی میں ظالموں کے لئے سخت وعید و تنبیہ ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے اس مہلت پر مغرور نہ ہو جائیں بلکہ یقین کہ آخر الامر ان کو اللہ کے سخت مواخذہ سے دوچار ہونا ہے اور اپنے ظلم کی سزا یقینا بھگتنی ہوگی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ آیت ( وَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ) 14۔ ابراہیم : 42) ۔ (یعنی اور تم اللہ تعالیٰ کو اس چیز سے غافل مت سمجھو جس کو ظالم اختیار کرتے ہیں۔
اس حدیث میں گویا مظلوم لوگوں کو تسلی دی گئی ہے کہ وہ اپنے اوپر کئے جانے والے ظلم و ستم پر صبر و استقامت اختیار کریں اور اس دن کا انتظار کریں جب قانون قدرت کے مضبوط ہاتھ ظالم کی گردن پر ہوں گے اور اس کو اپنے ظلم کی سخت سزا بھگتنی پڑے گی، نیز اس ارشاد گرامی میں ظالموں کے لئے سخت وعید و تنبیہ ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے اس مہلت پر مغرور نہ ہو جائیں بلکہ یقین کہ آخر الامر ان کو اللہ کے سخت مواخذہ سے دوچار ہونا ہے اور اپنے ظلم کی سزا یقینا بھگتنی ہوگی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ آیت ( وَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ) 14۔ ابراہیم : 42) ۔ (یعنی اور تم اللہ تعالیٰ کو اس چیز سے غافل مت سمجھو جس کو ظالم اختیار کرتے ہیں۔
********
قوم ثمود کے علاقہ سے گزرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحابہ کو تلقین
وعن ابن عمر أن النبي صلى الله عليه وسلم لما مر بالحجر قال لا تدخلوا مساكن الذين ظلموا أنفسهم إلا أن تكونوا باكين أن يصيبكم ما أصابهم ثم قنع رأسه وأسرع السير حتى اجتاز الوادي . متفق عليه
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مقام حجر سے گزرے تو (صحابہ رضی اللہ عنہم سے) فرمایا کہ " تم ان لوگوں کے مکانات (کے کھنڈرات) میں نہ گھسنا جنہوں نے (کفر اختیار کر کے اور اپنی طرف بھیجے گئے اللہ کے پیغمبر علیہم السلام کو جھٹلا کر) خود اپنے آپ پر ظلم کیا ہے الاّ یہ کہ تم رونے والے ہو (یعنی اگر تم ان کھنڈرات کی صورت میں اس بد نصیب قوم کا المناک انجام دیکھ کر اور ان لوگوں کے سیاہ کارناموں کو یاد کر کے عبرت حاصل کرنا چاہو تو اس جگہ کو دیکھ سکتے ہو نیز تم اس جگہ سے غفلت و لاپرواہی کے ساتھ نہ گزرو) کہ مبادا تم پر بھی وہی مصیبت نازل ہو جائے جو ان پر نازل ہوئی تھی (کیونکہ ایسی جگہوں سے غفلت و بے پروائی کے ساتھ گزرنا اور عبرت نہ پکڑنا قساوت قلبی اور خوف اللہ کے فقدان کی علامت ہے اور یہ چیز عذاب الٰہی کے نازل ہونے کا باعث بن سکتی ہے ، یا یہ مراد ہے کہ تم یہاں اللہ کا خوف کھاؤ اور اور عبرت پکڑو کہ مبادا تم سے بھی وہی اعمال صادر ہونے لگیں جو اس قوم کے لوگوں کا شیوہ تھے اور پھر تمہیں بھی سزا بھگتنی پڑے) اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چادر سے اپنا سر ڈھانک لیا اور تیز تیز چل کر اس علاقہ سے گزر گئے۔ (بخاری ومسلم)
تشریح
حجر اس جگہ کا نام ہے جو مشہور پیغمبر حضرت صالح علیہ السلام کی قوم ثمود کا مسکن تھی! حجاز کے شمالی علاقہ میں، جس کا نام مدین ہے، ایک تاریخی وادی ہے جس کا نام وادی قری ہے اسی وادی میں تبوک سے تقریبا چار میل کے فاصلہ پر یہ جگہ واقع ہے یہاں قوم ثمود کی بستیاں تھیں، اس قوم نے جب طغیانی و سرکشی میں حد سے تجاوز کیا اور اپنے پیغمبر حضرت صالح علیہ السلام کے بنائے ہوئے راستہ پر چلنے کے بجائے ان کو جھٹلایا، ان کو سخت تکلیفیں پہنچائیں اور اللہ تعالیٰ کا حکم ماننے سے انکار کر دیا تو اس قوم پر عذاب الٰہی نازل ہوا، اور ان کی ساری بستیاں تباہ کر دی گئیں، ان بستیوں کے آثار و کھنڈرات اب بھی موجود ہیں اور زبان حال سے عبرت پذیر لوگوں کو قوموں کے عروج و زوال کی داستان سناتے ہیں ۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غزوہ کے لئے تبوک جا رہے تھے یا غزوہ سے فارغ ہو کر وہاں سے واپس تشریف لا رہے تھے تو راستہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گزر اسی علاقہ سے ہوا ، چنانچہ اس حدیث کا تعلق اسی وقت سے ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے سر پر چادر ڈال کر اس جگہ سے جلدی گزرنا جیسا کہ کسی جگہ سے کوئی خوفزدہ شخص جلد سے جلد گزر جاتا ہے، اس وجہ سے تھا تاکہ آپ کی نظر مبارک اس تباہ شدہ قوم کے مکانات کھنڈرات پر نہ پڑے۔ اور حقیقت میں آپ کا یہ عمل مسلمانوں کی تعلیم کے واسطے تھا تاکہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کریں ، چنانچہ آپ نے پہلے تو قول کے ذریعہ لوگوں کو اس امر کی طرف متوجہ کیا اور پھر از راہ تاکید اپنے فعل کے ذریعہ بھی توجہ دلائی۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہاں سے اس طرح گزرنا اس بناء پر تھا کہ خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خوف اللہ کا نہایت غلبہ رہتا تھا اور عذاب الٰہی کے آثار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے زیادہ لرزاں کر دیا کرتے تھے جیسا کہ ایک ارشاد میں فرمایا ۔ انا اعلمکم باللہ واخشاکم۔ میں تم سب سے زیادہ اللہ کا علم رکھتا ہوں اور سب سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں۔
ایک روایت میں یہ بھی منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس جگہ صحابہ رضی اللہ عنہم کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ اس جگہ نہ تو کچھ کھائیں اور نہ وہاں کا پانی پئیں۔
بہرحال حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ اللہ کے سرکش بندوں اور ظالموں کے مکانات اور ان کی جگہوں میں نہ تو رہائش اختیار کی جائے اور نہ ان کے علاقوں کو اپنا وطن بنایا جائے۔
حجر اس جگہ کا نام ہے جو مشہور پیغمبر حضرت صالح علیہ السلام کی قوم ثمود کا مسکن تھی! حجاز کے شمالی علاقہ میں، جس کا نام مدین ہے، ایک تاریخی وادی ہے جس کا نام وادی قری ہے اسی وادی میں تبوک سے تقریبا چار میل کے فاصلہ پر یہ جگہ واقع ہے یہاں قوم ثمود کی بستیاں تھیں، اس قوم نے جب طغیانی و سرکشی میں حد سے تجاوز کیا اور اپنے پیغمبر حضرت صالح علیہ السلام کے بنائے ہوئے راستہ پر چلنے کے بجائے ان کو جھٹلایا، ان کو سخت تکلیفیں پہنچائیں اور اللہ تعالیٰ کا حکم ماننے سے انکار کر دیا تو اس قوم پر عذاب الٰہی نازل ہوا، اور ان کی ساری بستیاں تباہ کر دی گئیں، ان بستیوں کے آثار و کھنڈرات اب بھی موجود ہیں اور زبان حال سے عبرت پذیر لوگوں کو قوموں کے عروج و زوال کی داستان سناتے ہیں ۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غزوہ کے لئے تبوک جا رہے تھے یا غزوہ سے فارغ ہو کر وہاں سے واپس تشریف لا رہے تھے تو راستہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گزر اسی علاقہ سے ہوا ، چنانچہ اس حدیث کا تعلق اسی وقت سے ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے سر پر چادر ڈال کر اس جگہ سے جلدی گزرنا جیسا کہ کسی جگہ سے کوئی خوفزدہ شخص جلد سے جلد گزر جاتا ہے، اس وجہ سے تھا تاکہ آپ کی نظر مبارک اس تباہ شدہ قوم کے مکانات کھنڈرات پر نہ پڑے۔ اور حقیقت میں آپ کا یہ عمل مسلمانوں کی تعلیم کے واسطے تھا تاکہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کریں ، چنانچہ آپ نے پہلے تو قول کے ذریعہ لوگوں کو اس امر کی طرف متوجہ کیا اور پھر از راہ تاکید اپنے فعل کے ذریعہ بھی توجہ دلائی۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہاں سے اس طرح گزرنا اس بناء پر تھا کہ خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خوف اللہ کا نہایت غلبہ رہتا تھا اور عذاب الٰہی کے آثار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے زیادہ لرزاں کر دیا کرتے تھے جیسا کہ ایک ارشاد میں فرمایا ۔ انا اعلمکم باللہ واخشاکم۔ میں تم سب سے زیادہ اللہ کا علم رکھتا ہوں اور سب سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں۔
ایک روایت میں یہ بھی منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس جگہ صحابہ رضی اللہ عنہم کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ اس جگہ نہ تو کچھ کھائیں اور نہ وہاں کا پانی پئیں۔
بہرحال حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ اللہ کے سرکش بندوں اور ظالموں کے مکانات اور ان کی جگہوں میں نہ تو رہائش اختیار کی جائے اور نہ ان کے علاقوں کو اپنا وطن بنایا جائے۔
**********
قیامت کے دن مظلوم کو ظلم سے کس طرح بدلہ ملے گا
وعن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من كانت له مظلمة لأخيه من عرضه أو شيء منه اليوم قبل أن لا يكون دينار ولا درهم إن كان له عمل صالح أخذ منه بقدر مظلمته وإن لم يكن له حسنات أخذ من سيئات صاحبه فحمل عليه . رواه البخاري
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کا کوئی حق رکھتا ہو، اور وہ حق خواہ (غیب و برائی کرنے اور روحانی و جسمانی ایذاء رسانی وغیرہ کی صورت میں) آبروریزی کا ہو یا کسی اور چیز سے متعلق ہو (جیسے کوئی مالی مطالبہ یا ناحق خون وغیرہ) تو اس کو چاہئے کہ وہ اس حق کو آج ہی کے دن (یعنی اسی دنیا میں ) معاف کرا لے اس سے پہلے کہ وہ دن آئے یعنی قیامت کا دن کہ جس میں وہ نہ تو درہم رکھتا ہوگا نہ دینار (کہ جو اس حق کے بدلہ کے طور پر دے سکے) اگر (اس نے اپنے حق کو معاف کر دیا تو بہتر ہے ورنہ پھر) ظالم کے اعمال نامہ میں جو کچھ نیکیاں ہوں گی تو ان میں سے اس کے ظلم کے برابر یا واجب حق کے بقدر نیکیاں لے لی جائیں گی (اور مظلوم یا حق دار کو دے دی جائیں گی) اور اگر وہ کچھ بھی نیکیاں نہیں رکھتا ہوگا تو اس صورت میں اس مظلوم یا حق دار کے گناہوں میں سے (اس کے حق کے بقدر) گناہ لے کر ظالم پر لاد دئیے جائیں گے۔ (بخاری)
تشریح
آخرت میں ظالم سے اس کے ظلم کا بدلہ اس طرح لیا جائے گا کہ اگر اس کے اعمال نامہ میں کچھ نیکیاں ہوں گی تو وہ مظلوم کو دے دی جائیں گی اور اگر وہ اپنے اعمال نامہ میں نیکیاں نہیں رکھتا ہوگا تو اس صورت میں مظلوم کے وہ گناہ جو اس نے دنیا میں کئے ہوں گے اس ظالم پر لاد دیئے جائیں گے چنانچہ وہ اپنے گناہوں کی سزا بھگتے ہی گا مزید برآں مظلوم کے گناہوں کے عذاب میں بھی مبتلا ہوگا اور مظلوم کو اس عذاب سے نجات دے دی جائے گی جس کا وہ ان گناہوں کی وجہ سے مستوجب ہوتا۔
حدیث کے یہ الفاظ کہ " وہ نہ درہم رکھتا ہوگا نہ دینار" اس طرف اشارہ کرتے ہیں جس شخص نے کسی پر کوئی ظلم و زیادتی حق تلفی کی ہو تو اس پر واجب ہے کہ وہ ہر حالت میں مظلوم یا حق دار سے اس ظلم یا حق کو ضرور معاف کرا لے خواہ اس معافی کے عوض روپیہ پیسہ خرچ کرنا پڑے اور اس دنیا ہی میں معافی تلافی کا ہو جانا اس سے کہیں زیادہ بہتر اور آسان ہے کہ عدم معافی کی صورت میں اس کی نیکیاں لے لے یا اپنے گناہوں کا بوجھ اس پر ڈال دے۔
" اس کے ظلم یا واجب حق کے بقدر" کے بارے میں زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ کمیت اور کیفیت کے اعتبار سے ان نیکیوں اور گناہوں کی مقدار کا تعین علم الٰہی کے سپرد ہے، یعنی وہی بہتر جانتا ہے کہ ان نیکیوں اور گناہوں کا لینا دینا کس طرح اور کس اعتبار سے ہوگا) تاہم ابن ملک رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ جن نیکیوں اور برائیوں کا لینا دینا ہوگا، ہو سکتا ہے کہ وہ اس موقع پر نفس اعمال ہوں گے جن کو جواہر کی مانند مجسم کر کے پیش کیا جائے گا) اور یہ احتمال بھی ہے کہ ایک دوسرے کو وہ نعمتیں یا عذاب ملیں جو ان نیکیوں یا برائیوں کی جزا و سزا کے طور پر حق تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہیں۔
آخرت میں ظالم سے اس کے ظلم کا بدلہ اس طرح لیا جائے گا کہ اگر اس کے اعمال نامہ میں کچھ نیکیاں ہوں گی تو وہ مظلوم کو دے دی جائیں گی اور اگر وہ اپنے اعمال نامہ میں نیکیاں نہیں رکھتا ہوگا تو اس صورت میں مظلوم کے وہ گناہ جو اس نے دنیا میں کئے ہوں گے اس ظالم پر لاد دیئے جائیں گے چنانچہ وہ اپنے گناہوں کی سزا بھگتے ہی گا مزید برآں مظلوم کے گناہوں کے عذاب میں بھی مبتلا ہوگا اور مظلوم کو اس عذاب سے نجات دے دی جائے گی جس کا وہ ان گناہوں کی وجہ سے مستوجب ہوتا۔
حدیث کے یہ الفاظ کہ " وہ نہ درہم رکھتا ہوگا نہ دینار" اس طرف اشارہ کرتے ہیں جس شخص نے کسی پر کوئی ظلم و زیادتی حق تلفی کی ہو تو اس پر واجب ہے کہ وہ ہر حالت میں مظلوم یا حق دار سے اس ظلم یا حق کو ضرور معاف کرا لے خواہ اس معافی کے عوض روپیہ پیسہ خرچ کرنا پڑے اور اس دنیا ہی میں معافی تلافی کا ہو جانا اس سے کہیں زیادہ بہتر اور آسان ہے کہ عدم معافی کی صورت میں اس کی نیکیاں لے لے یا اپنے گناہوں کا بوجھ اس پر ڈال دے۔
" اس کے ظلم یا واجب حق کے بقدر" کے بارے میں زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ کمیت اور کیفیت کے اعتبار سے ان نیکیوں اور گناہوں کی مقدار کا تعین علم الٰہی کے سپرد ہے، یعنی وہی بہتر جانتا ہے کہ ان نیکیوں اور گناہوں کا لینا دینا کس طرح اور کس اعتبار سے ہوگا) تاہم ابن ملک رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ جن نیکیوں اور برائیوں کا لینا دینا ہوگا، ہو سکتا ہے کہ وہ اس موقع پر نفس اعمال ہوں گے جن کو جواہر کی مانند مجسم کر کے پیش کیا جائے گا) اور یہ احتمال بھی ہے کہ ایک دوسرے کو وہ نعمتیں یا عذاب ملیں جو ان نیکیوں یا برائیوں کی جزا و سزا کے طور پر حق تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں