اتوار، 17 دسمبر، 2017

تقویٰ دارین کی نعمتوں کاسر چشمہ

--------------------------------

عَنْ أَبِیْ هرَیْرۃؓ  قَالَ: سُئِلَ رَسُوْلُ اللّه: ’’أَيُّ النَّاسِ أَکْرَمُ؟‘‘ قَالَ: أَکْرَمُهمْ عِنْدَ اللَّٰه أَتْقاهمْ۔‘‘ (متفق علیه مشکوٰۃ/ص:۴۱۷)        
ترجمہ  :    حضر ت ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم  سے پوچھا گیا کہ’’ یا رسول اللہ! لوگوں میں سب سے زیادہ مکرم کون ہے ؟‘‘ فرمایا:’’ جو ان میں سب سے زیادہ متقی ہو ۔‘‘عَنْ أَبِیْ ذَرٍّ رَضِيَ اللّٰه عَنْه أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰه قَالَ لهَ: ’’إِنَّکَ لَسْتَ بِخَیْرٍ مِنْ أَحْمَرَ وَلاَ أَسْوَدَ إِلاَّ أَنْ تَفْضُلَه بِتَقْویٰ۔‘‘ (رواہ أحمد، مشکوٰۃ/ص: ۴۴۳/کتاب الرقائق/ الفصل الثالث)
حضرت ابو ذر  ؓ فرماتے ہیں کہ ان سے رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم   نے ارشاد فرمایا:’’ تو کسی گورے یاکالے سے بہتر نہیں،البتہ تیری فضیلت تقویٰ کی وجہ سے ہے۔

تقویٰ کے معنیٰ   :    حق تعالیٰ نے اپنی تمام مخلوق میں انسان کو مشرف اور مکرم بنایا،لیکن اسی کے ساتھ اس کی فطرت میں نیکی و بدی،بھلائی و برائی،تابعداری اور سرکشی اور خوبی و خامی دونوں ہی قسم کی صلاحیتیں یکساں رکھ دی ہیں: { فَأَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا}    (الشمس:۸)            پھر اس کے دل میںوہ بات بھی ڈال دی جو اس کے لیے بدکاری کی ہے اور وہ بھی جو اس کے لیے پرہیزگاری کی ہے۔یہ اسی کا ثمرہ اور نتیجہ ہے کہ کسی بھی انسان سے نیکی اور بدی دونوں ہی وجود میں آتی ہیں اور آسکتی ہیں،ایک انسان سے حسنات بھی ممکن ہیں اور سیئات بھی، اس کے باوجود اگر کوئی شخص سیئات و معصیات،بدی و بدکاری، بد اخلاقی و سرکشی کے تقاضوں کو دباکر اپنی زندگی اور اس کے قیمتی لمحات کو حسنات وطاعات،نیکی و بھلائی اور تابعداری اور فرمانبرداری سے مزین اور آراستہ کر لے تویہ اس کے کامیاب اورخالق و مخلوق کے نزدیک اشرف و اکرم ہونے کی سب سے بڑی نشانی ہے، اوریہی تقویٰ و پرہیزگاری ہے۔فرمایا: { قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَکّٰہَا} (الشمس : ۹) شاید اسی وجہ سے اس جگہ فجور کو تقویٰ پر مقدم کیا گیا (واللہ اعلم ) کہ انسان میں فجور و گناہ کا مادہ نہ ہوتا تو تقویٰ کا وجود بھی نہ ہوتا،اسی لیے فرشتے معصوم تو ہیں،متقی نہیں ہیں، کیوںکہ ان میں گناہ کی صلاحیت ہی نہیں،اور تقویٰ کہتے ہیں:’’ کَفُّ النَّفْسِ عَنِ الْهوٰی‘‘ نفس کو برائیوں سے روکنا۔ارشادِ ربانی ہے:
{وَنَھَی النَّفْسَ عَنِ الْھَوٰی}  (النازعات:۴۰) اورجوشخص نفس کو غلط خواہش سے روکے وہ ہے متقی۔اس لیے کہ نفس کی غذا گناہ ہے تو روح کی غذا تقویٰ،اور نفس کو گناہ سے روکنے ہی کا نام تقویٰ ہے،لہٰذا اب جو بھی بندہ تقویٰ حاصل کرنا چاہے اسے چاہیے کہ فجور و گناہ کے تقاضے پر عمل نہ کرے،تو وہ خود بخود متقی بن جائے گا۔ پھر جس کی زندگی میں جتنا زیادہ تقویٰ ہوگا وہ اتنا ہی اکرم و افضل ہوگا،ارشادِ ربانی ہے: {إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ أَتْقٰکُمْ }  (الحجرات : ۱۳) درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے۔
تقویٰ کی اہمیت   :  حدیثِ مذکور سے بھی یہی بات واضح ہوتی ہے،اس بناپر ایمان کے بعد انسانی زندگی میں تقویٰ اور پرہیزگاری کی بہت زیادہ اہمیت ہے، اسی لیے قرآن و حدیث میں جا بجا ’’تقویٰ ‘‘کا ذکر آیا ہے، کہیں اس کی افادیت کا بیان ہے تو کہیں اس کی ضرورت کا اعلان ہے،ایک جگہ اس کو اپنانے کی تعلیم ہے تو دوسری جگہ اسے برتنے کی تلقین،غرض یہ کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم  نے مختلف پیرایوں میں،مختلف مقامات پر تقویٰ کی ترغیب دی ہے،جس کی بنیادی وجہ ایک یہ ہے کہ مقصد زندگی تو  اللہ کی بندگی ہے، قرآنِ کریم کہتا ہے:{وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإِنْسَ إِلاَّ لِیَعْبُدُوْنِ}(الذاریات: ۵۶)
 اور میں نے جنات و انسانوں کو اس کے سوا کسی اور کام کے لیے پیدانہیں کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔          
لیکن مقصد بندگی خود قرآن کے اعلان وحکم کے مطابق تقویٰ اور پرہیزگاری ہے۔ چنانچہ فرمایا :    
{ یٰٓأَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ  وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ  تَتَّقُوْنَ} (البقرۃ : ۲۱)      
اے لوگو! اپنے اس پروردگار کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور ان لوگوں کو پیداکیا جو تم سے پہلے گزرے ہیں،تاکہ تم متقی بن جاؤ۔ پس ثابت ہوا کہ تمام عبادات و اعمال کی اصل جڑ تقویٰ ہے، حتیٰ کہ ایک حدیث میں تو یہاں تک ارشاد ہے کہ اگر تم نماز پڑھتے پڑھتے کمانوں کی طرح ٹیڑھے ہو جاؤ،اور روزہ رکھتے رکھتے سوکھ کر کانٹا ہو جاؤ، پھر بھی نفع تو تقویٰ ہی سے ہوگا ۔( تنبیہ الغافلین مترجم/ص:۴۶۹)            
مشکوٰۃ میں ترمذی کی روایت منقول ہے کہ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ و سلم  کی خدمت میں ایک شخص کی عبادت و محنت کاتذکرہ ہوا،او ردوسرے کے تقوی کا،تو آپ   صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:         ’’لَاتَعْدِلُ بِالرِّعة، یَعْنِیْ اَلْوَرَعَ۔‘‘ (رواہ الترمذی، مشکوٰۃ :۴۴۱/کتاب الرقائق). تقوے کے برابر کوئی عبادت و عمل نہیں۔خود قرآنِ کریم میں بھی ارشاد ہے : { وَلٰکِنَّ الْبِرَّمَنِ اتَّقیٰ} (البقرۃ / ۱۸۹)        بلکہ اصل نیکی کی راہ یہ ہے کہ بندہ تقویٰ کی راہ اختیار کرے ۔
تقویٰ کی حقیقت   :  اب رہا یہ سوال کہ یہ کہ تقویٰ ہے کیا چیز؟
تو یاد رکھو !مختصر لفظوں میں تقویٰ کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف اس کی عظمت کی وجہ سے پیدا ہوجائے، اور اس کے مواخذہ کی فکر پیدا ہو جائے،جس کے اثر سے زندگی میں تیقظ یعنی دینی بیداری پیدا ہوجائے، تاکہ اللہ تعالیٰ سے غافل کرنے والی ہر چیز سے آدمی بچ سکے۔ ویسے تقویٰ کی تعریفات و توجیہات میں علمائِ امت نے مختلف تعبیرات استعمال فرمائی ہیں، اور کتاب و سنت سے مختلف انداز میں اس کی وضاحت کی ہے، مگر ا ن میں حضراتِ محققین نے جسے سب سے زیادہ راجح اور پسندیدہ قرار دیا ہے وہ ہے حضرت ابی ابن کعب ؓ کی تعریف وتحقیق، جب آپؓ سے سیدنا فاروق اعظم ؓنے تقویٰ کی حقیقت معلوم کی، تو آپؓ نے آسان اور بہترین مثال سے تقویٰ کی حقیقت سمجھائی، فرمایا: ’’اے امیر المومنین !کیا کبھی کسی خار دار راستہ سے آپ کا گذر ہوا ہے؟‘‘  فرمایا:’’ جی ہاں ! متعدد بار گذرا ہوں‘‘،   ’’اچھا !تو اس وقت آپ نے کیا طرزِ عمل اختیار کیا تھا ؟‘‘ حضرت ابی ابن کعب ؓ نے سوال کیا،جواباً حضرت عمر ؓ نے ارشاد فرمایا: ’’اس موقع پر خود کو اور اپنے کپڑوں کو نہایت سمیٹ کر بڑی احتیاط سے چلا ہوں کہ کہیں دامن کانٹوں سے الجھ نہ جائے‘‘ تب حضرت ابی ابن کعب ؓ نے عرض کیا:’’حضرت ! یہی تو تقویٰ ہے !‘‘(ابن کثیر /ج:۱/ص:۲۸)            
یہ دنیا ایک خار دار وادی ہے، اس خارستان میں ہر طرف گناہوں کے کانٹے موجود ہیں، اس لیے دنیا میں اس طرح زندگی بسر کرنا کہ ہمارا ایمانی دامن گناہوں کے کانٹوں سے الجھنے نہ پائے اسی کا نام تقویٰ ہے، اور جو اس صفت سے متصف ہو جائے وہ متقی ہے  حدیث میں ہے:       عَنْ أَبِیْ هریْرَۃ رَضِيَاللّهٰ عَنْه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰه: ’’حُجِبَتِ النَّارُ  بِالشهوَاتِ، وحُجِبَتِ الْجنَّة بِالْمَکَارِه۔ ‘‘ (متفق علیہ، مشکوٰۃ/ص:۴۳۹ )      
مسلم شریف کی روایت میں’’حُجِبَتْ‘‘ کی جگہ ’’حُفَّتْ‘‘ ہے،         تو دونوں ہی ہم معنی ہیں۔     اس کی ترجمانی کرتے ہوئے مولانا رومیؒ فرماتے ہیں:حُفَّتِ الْجنۃُ بمکروہاتِنَا حفت النیرانُ مِن شَہَوَاتِنَا.یعنی جنت کو مشکلات  اور حرام خواہشات کی باڑ اور پردے کے ساتھ گھیر لیاگیاہے، او ردوزخ کو شبہات وخواہشات کی باڑ سے، اب جو شہوات و خواہشات کی باڑ  اور پردے سے بچ کر نکل گیاوہ ہے متقی، او رجو شہوات و خواہشات میں الجھ گیاوہ پھنس گیا۔تقویٰ آسان ہے   :            عام طور پر لوگوں کا خیال یہ ہے کہ تقویٰ محال ہے اور متقی ہونا مشکل ہے،یہ سب کے بس کی بات نہیں،حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ تقویٰ اختیار کرنا بہت آسان کام ہے، اور متقی بننا ایک اختیاری عمل ہے،ورنہ تو حق تعالیٰ اتنی کثرت سے اس کا حکم ہی کیوں دیتے؟
جب کہ اہل ایمان کے نزدیک یہ بات مسلم ہے کہ ربِ کریم نے انسانوں کو کوئی ایسا حکم ہرگز نہیں دیا جو ان کی طاقت اور استطاعت سے باہر ہو، اب جب تقویٰ کا بار بار حکم دیا،اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی فرمادیا کہ    { فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ} (التغابن : ۱۶) یعنی جتنا تقویٰ اختیار کر سکتے ہو کرو ! تو اس کا صاف مطلب یہ نکلاکہ تقویٰ آسان اور اختیاری عمل ہے،کوئی دشوار نہیں ہے، بس ذراسا پختہ عزم کر کے ہمت سے کام لیں، گناہوں سے بچنے کی کوشش کریں تو قسم بخدا! تقویٰ اختیار کرنا آسان ہے، اور ہر مسلمان کم از کم درجہ کا متقی تو ضرور ہی بن سکتا ہے ۔دوگام چل کے کوئی اس راہ پر بھی دیکھے.
٭کتنی حسین ہیں راہیں، کتنا حسین ہے منظر .
تقویٰ کے تین درجات   :آج کل ہمارے ذہنوں میں متقی کا ایک خاص مفہوم بیٹھ گیاہے، جب ہم لفظ متقی سنتے ہیں تو وہی مفہوم ذہن میںآتاہے، یعنی دودھ کادھلا ہوا، اعلیٰ درجہ کاپرہیزگار، حالانکہ بات یہ ہے کہ ہر سچاپکا مسلمان جو منافق نہیں وہ متقی ہے، کیوں کہ علمائِ امت کی تصریح کے مطابق تقویٰ کے تین درجات ہیں:  ادنیٰ ،  اوسط ،  اعلیٰ   ۔        
تقویٰ کا پہلا درجہ  : تو یہ ہے کہ بندہ کفر اور شرک سے بچ جائے،یہ سب سے کم اور ادنیٰ درجہ ہے،جو الحمدللہ! ہر مسلمان کو حاصل ہے،اور اگر زیادہ نہیں تو بندہ کم ازکم اتنا کر لے کہ کفر وشرک سے بچے، تب بھی وہ آخرت کے دائمی عذاب سے محفوظ رہے گا،اسی لیے تقویٰ کا یہ درجہ فرض ولازم قرار دیاگیا، ارشاد ہے: { وَأَلْزَمَھُمْ کَلِمَۃَ التَّقْویٰ} (الفتح:۲۶) آیت کریمہ میں تقویٰ سے یہی مراد ہے۔(مدنی مظاہر حق جدید /ج:۳/ص:۶۰)            .
حدیث قدسی میں ہے کہ رحمت عالم  صلی اللہ علیہ و سلم نے آیت کریمہ تلاوت فرمائی :      {ھُوَ أَھْلُ التَّقْوٰی وَ أَھْلُ الْمَغْفِرَۃِ} (المدثر : ۵۶) یعنی وہ اللہ ہی اس لائق ہے کہ اس سے ڈراجائے او روہی معافی او رمغفرت کے اختیارات بھی رکھتاہے۔ حضوراکرم  صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ حق تعالیٰ کا ارشادہے:           ’’أَنَا أَہْلُ أَنْ أُتَّقیٰ، فَمَنِ اتّقَانِیْ، فَلَمْ یَجْعَلْ مَعِيَ إِلٰہًا، فَأَنَا أَہْلُ أَنْ أَغْفِرَلَہٗ۔‘‘ (ترمذی:۲/ص:۱۷۰، مشکوٰۃ/ص:۲۰۵/ حدیث قدسی نمبر:۱)  میں تقویٰ اختیار کرنے والو ں کے ساتھ ہوں، او رجس نے تقویٰ اختیار کیا، یعنی میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا،تو میری شان (رحمت کا تقاضا) یہی ہے کہ میں اس کی مغفرت کردوں۔            
 حضرت معاذ بن جبل فرماتے ہیں کہ ’’متقی وہ قوم ہے جو شرک اور بت پرستی سے بچتی ہے، اور خالص اللہ تعالیٰ کی ہی عبادت کرتی ہے۔‘‘ (درسِ محمد احمد،از گلدستۂ تفاسیر/ ص: ۴۹/ ۱).
تقویٰ کا دوسرا درجہ: یہ ہے کہ ایک انسان جیسے کفرو شرک سے بچتا ہے،تمام صغیرہ وکبیرہ گناہوں سے بھی بچ جائے،یہ درمیانی درجہ کا تقویٰ ہے، جوہر مسلمان پرواجب ہے، اور محاورہ میں اسی کا نام تقویٰ ہے، ارشادِ باری :       {وَلَوْ أَنَّ أَہْلَ القُریٰ آمَنُوْا واتَّقَوْا} (الأعراف : ۹۶)           میں تقویٰ کا یہی معنی مراد ہے۔(مدنی مظاہر حق جدید/ج:۳/ص:۶۰) .
اب جو شخص جتنا زیادہ گناہوں سے بچے گا اور بچنا چاہے گا وہ اتنا ہی زیادہ متقی ہوگا، حضرت حسن بصری ؒ فرماتے ہیں کہ ’’متقی وہ ہے جو حرام سے بچے اور فرائض بجالائے ‘‘ ۔   (گلدستۂ تفاسیر/ص: ۴۸/۸).     
امام محمدؒ سے کسی نے فرمائش کی کہ آپ تقویٰ پر ایک کتاب لکھیں، تو انہو ں نے  فرمایا:’’صَنَّفْتُ کِتَابَ الْبُیُوْعِ ‘‘میں نے خرید وفروخت او ردوسرے معاملات پر ایک کتاب لکھ دی ہے، مقصد یہ تھا کہ معاملات میں شریعت(کے احکامات) کی پابندی اور محرمات سے بچنا تقویٰ پیداکرنے کا بڑا ذریعہ ہے۔(عبادت وخدمت /ص:۲۳).
پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ جوشخص اللہ تعالیٰ کا پیارہ بننا اور گناہوں سے بچنا چاہتا ہے ربِ کریم اسے ضرور بالضروراپنا پیارا بناتا اور گناہوں سے بچاتاہے،چنانچہ آیت قرآنی و ارشاد ربانی ہے:  { وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْافِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا} ( العنکبوت : ۶۹) او رجن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی ہے، ہم انہیں ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچائیں گے۔اس کی تفسیر بعض علماء نے یہی بیان فرمائی ہے۔ (واللہ اعلم ).
ایک عبرت آموزواقعہ  :  اس سلسلہ میں علامہ عبد الرحمٰن صفوی ؒنے اپنی کتاب ’’نزہۃالمجالس ‘‘میں اور ابن کثیر ؒ نے تفسیر ابن کثیر میں ایک عبرت آموز واقعہ بیان فرمایا ہے کہ سیدنا فاروقِ  اعظم ؓ کے زمانے میں ایک شخص نوجوان،عبادت گزار اور پرہیزگار تھا،ایک عورت اس پر فریفتہ تھی، وہ اس کو مسلسل اپنی طرف مائل کرتی رہتی تھی،حتیٰ کہ وہ نوجوان ایک دن اس کے گھرآ ہی گیا،لیکن اللہ تعالیٰ کی شان ! اسی وقت اسے یاد آیا قرآن !جس میں فرمایا :{ إِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا إِذاَ مَسَّھُمْ طٰئِفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَکَّرُوْا} (الأعراف:۲۰).
جس کا مطلب یہ ہے کہ ’’جو لوگ متقی ہیں،جب انہیں شیطان کی طرف سے کوئی خطرہ (گناہ کا) لاحق ہو جاتا ہے،تو وہ فوراً اللہ تعالیٰ کی یاد میں لگ جاتے ہیں۔ ‘‘ یکایک اس کی حقیقی ایمانی آنکھ کھلی،خوابِ غفلت سے بیدار ہو گیا اور ارادئہ معصیت ترک کر دیا، اور اتنا ہی نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کے خوف و خشیت کا اس قدر غلبہ اس پر ہوا کہ وہ بے ہوش ہو گیا، جب ہوش میں آیا تو پھر یہی آیت بار بار پڑھنے لگا،حتیٰ کہ پڑھتے پڑھتے جان بحق ہو گیا،إِنَّا لِلّٰہِ  وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو اس واقعہ کاپتہ چلا تو اس کی قبر پر تشریف لے گئے اور دعائِ مغفرت کے بعد اس کی قبر سے مخاطب ہو کر فرمایا: ’’اے نوجوان ! {وَلِمَن خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ} (الرحمٰن : ۴۶) جو اللہ سے ڈر گیا اس کے لیے اللہ کی طرف سے دو جنتیں ہیں۔ کہتے ہیں کہ اس آیتِ کریمہ کو سن کر قبر کے اندر سے آواز آئی:      اے عمر! اللہ تعالیٰ نے مجھے دونوں جنتیں بخشی ہیں۔
سبحان اللہ! سچ ہی کہا ہے  : ہر کہ دارد خوفِ حق در دل دوام  جنت الماویٰ دہد او را مقام  .    ظاہر ہے کہ یہ مقام خوف ِ الٰہی اور تقویٰ سے حاصل ہوتا ہے،وہ جس کی زندگی میں ہے حق تعالیٰ اس کی دنیا بھی جنت کدہ بنا دیتے ہیں.
اس لیے بعض مفسرین فرماتے ہیں:{ وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ}  (الرحمٰن : ۴۶)میں ایک تو آخرت کی جنت مراد ہے، اور دوسری دنیا کی۔ عاجز کا خیالِ ناقص یہی ہے کہ متقیوں کے لیے دنیا میں بھی جنت کا لطف ہے، آیت قرآنیہ میںشاید اسی کی طرف اشارہ کیا ہے، فرمایا: { وَلَوْ أَنَّ أَھْلَ الْقُرٰٓی آمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَاعَلَیْھِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَالأَرْضِ} (الأعراف : ۹۶) .اگر یہ بستی والے ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان و زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔     اس سے معلوم ہوا کہ یہ برکتیں تقویٰ سے حاصل ہوتی ہیں، اور سب سے بڑا تقویٰ یہی ہے کہ بندہ ہر قسم کے معاصی اور محرمات سے بچ جائے، جسے یہ درجہ حاصل ہو جائے وہ متقی درحقیقت  اللہ تعالیٰ کا ولی ہے، قرآن کہتا ہے: {إِنْ أَوْلِیَاؤُہٗ إِلاَّ الْمُتَّقُوْنَ}یعنی متقی ہی دراصل اللہ کے ولی ہیں۔ (الأنفال : ۳۴) نیز فرمایا:   { أَلآ إِنَّ أَوْلِیَائَ اللّٰہِ لاَ خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلاَھُمْ یَحْزَنُوْنَ اَلَّذِیْنَ آمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ} ( یونس:۶۲-۶۳). یاد رکھو! جو اللہ کے دوست او رولی ہیں ان کو نہ کوئی خوف ہوگا،نہ وہ غمگین ہوں گے، ان کی پہچان یہ ہے کہ وہ ایمان لائے اورتقویٰ اختیار کیا۔او رتقویٰ کہتے ہیں ترکِ معاصی کو، جیساکہ عرض کیاگیا۔
تقویٰ کا تیسرا اورسب سے اعلیٰ درجہ    :            لیکن تقویٰ کا تیسرا سب سے اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ ایک انسان اپنے اللہ اور انجام کے خوف سے جملہ معاصی اور محرمات سے توبچتا ہی ہو، اسی کے ساتھ مکروہات اورمشتبہات سے بھی بچ جائے، اور  اپنے باطن کو غیر اللہ میں مشغول نہ کرے۔یہی حق تقویٰ اور حقیقی تقویٰ ہے، اور جس کا حکم رب العالمین نے اس طرح فرمایا  :           { یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ} ( آل عمران : ۱۰۲).اے ایمان والو! دل میں اللہ کا ویسا ہی خوف رکھو جیسا خوف رکھنا اس کا حق ہے۔ آیت کریمہ میں تقویٰ اسی معنی میں ہے۔(مدنی مظاہر حق جدید/ ج:۳/ص:۶۱).
اورحدیث میں ہے کہ بندہ اس وقت تک حقیقی متقی نہیں ہو سکتا جب تک کہ ان چیزوں کو ترک نہ کر دے جن میں حرج نہیں،اس خوف سے کہ کہیںحرج میں نہ پڑ جائے ۔ (ترمذی، از :گلدستۂ تفاسیر /ص:۴۸).
سلفِ صالحین اور ان میں بھی خصوصاً متقدمین کا تقویٰ یہی تھا،اس سلسلہ میں متقدمین کے تو بڑے ہی عجیب و غریب اور حیرت انگیز واقعات ملتے ہیں،چناں چہ امامنا العلام حضرت امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں آتا ہے کہ آپؒ نے تجارت میں اپنے ایک شریک (حضرت حفص بن عبد الرحمن ) کے پاس کچھ کپڑا بھیجا، کپڑے کا ایک تھان ذرا سا عیب دار تھا،تو حضرتؒ نے بتایا کہ ’’خریدار کو اس سے ضرور آگاہ کر دینا ‘‘ اتفاق سے وہ خریدار کو بتلانا بھول گئے (اور یہ بھی یاد نہ رہا کہ وہ عیب دار تھان کس کے ہاتھ فروخت کیا) امام صاحب ؒ کو جب معلوم ہوا توبہت افسوس کا اظہار فرمایا،پھر اسی پر اکتفا نہ کیا،بلکہ سارے تھانوں سے حاصل ہونے والی قیمت صدقہ کر دی،جس کی رقم تیس ہزار درہم تھی،تا کہ مشتبہ مال سے مکمل اجتناب ہو ۔  (الخیرات الحسان فی مناقب أبی حنیفۃ النعمان/ص: ۴۳،از:’’ کتابوں کی درسگاہ میں‘‘/ص: ۵۲) یہ تقویٰ کا اعلیٰ درجہ ہے،جو فرض تونہیں، البتہ افضل ضرور ہے،خلاصہ یہ ہے کہ کفر وشرک سے بچنا ادنیٰ درجہ کا تقویٰ ہے،فسق و فجور سے بچنا اوسط درجہ کا تقویٰ ہے،اور غیر اللہ سے بچنا،اسی طرح ہر اس چیز سے بھی بچنا جس سے اللہ تعالیٰ کی محبت میں رکاوٹ پیدا ہو، جیسے شکوک و شبہات، تو یہ اعلیٰ درجہ کا تقویٰ ہے ۔
تقویٰ کے انعامات    : اب جو جس اعتبار سے تقویٰ اختیار کرے گا اس اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دونوں جہاں میں نوازا جائے گا اورانعامات کا مستحق ہوگا، چناںچہ قرآنِ کریم نے تقویٰ کے عظیم الشان انعامات بیان فرمائے ہیں، مثلاً سورئہ طلاق میں تین انعامات کا ذکر ہے۔پہلا انعام  :  مصائب سے نجات و حفاظت:{ وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجَا} (الطلاق : ۲).
جو شخص تقویٰ اختیار کرے گا اس کے لیے ہر قسم کی مشکلات و مصائب (بلکہ معاصی) سے نجات و خلاصی کا را ستہ نکالا جائے گا‘‘۔یہ کتنا بڑاانعام ہے،اس سے زیادہ اور کیا چاہیے، علاوہ ازیں مزید انعامات کو بیان کرتے ہوئے دوسری جگہ فرمایا:
{ یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنوْا إِنْ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَاناً وَّیُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّئٰاتِکُمْ وَیَغْفِرْ لَکُمْ وَاللّٰہُ ذُوالفَضْلِ الْعَظِیْم}  (الأنفال:۲۹)   اے ایمان والو !اگر تم تقویٰ اختیار کرو گے،اللہ سے ڈرو گے تو وہ تمہیں ایک فیصلہ کی چیز دے گا، اور تم سے تمہارے گناہوں کو دور کر دے گا،اور تم کو بخش دے گا،اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔
یہاں تقویٰ پر فرقان کا وعدہ فرمایا،اس کے مفہوم میں بڑی وسعت ہے۔’’فرقان‘‘ کے متعلق ایک قول تو یہ ہے کہ اس سے مراد فیصلہ کن فراست وبصیرت ہے،جس کے ذریعہ حق و باطل،طاعت و معصیت میں امتیاز و فرق کرنا آسان ہو جائے۔ اور دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی نصرت و حفاظت ہے،اوریہی اکثر کا قول ہے،اس کی تائید اس آیت سے بھی ہوتی ہے جس میں مخالفین اور حاسدین کے شر سے حفاظت کا بہترین ذریعہ تقویٰ کو فرمایا، ارشاد ہے: { وَإِنْ تَتَّقُوْا لَایَضُرُّکُمْ کَیْدُھُمْ شَیْئًا} (آل عمران :۱۲۰) . اوراگر تم صبر و تقویٰ سے کام لو گے تو ان کی چالیں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہچائیں گی۔                                                                                                          
کیونکہ جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے ہرچیز اس سے ڈرتی ہے ۔مولانارومیؒ فرماتے ہیں: ہر کہ تر سید از حق و تقویٰ گزید ترسد از وے جن و انس و ہرکہ دید یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈر کر تقویٰ اختیار کرے، تو جن و انس اور جوبھی اسے دیکھے وہ اس سے ڈرتا ہے۔            علاوہ ازیں ان کی زندگی میں ایک نمایاں فرق ہوتاہے، جس کی وجہ سے ان کی عظمت وہیبت عام لوگوں کے دلوں میں پیداہوجاتی ہے، فرقان کے مفہوم میں یہ سب داخل ہے۔پھر فرقان جیسے عظیم الشان انعام کے ساتھ ساتھ آیتِ مبارکہ میں دو وعدے اور بھی فرمائے:
 (۱)دنیا میں کفارئہ سیئات:{ وَیُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّئٰاتِکُمْ }.
 (۲) اور دوسرا آخرت میں معافی و مغفرت:{وَیَغْفِرْ لَکُمْ}
ثابت ہوا کہ تقویٰ سے مصائبِ دنیا کی طرح مصائبِ عقبیٰ سے بھی حفاظت ہوگی،جیسا کہ خود ارشاد ربانی ہے:{ثُمَّ نُنَجِّیْ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا}   (مریم :۷۲) پھر ہم متقین کو (ہر قسم کے مصائب سے )نجات دیں گے۔{ وَمَنْ یَّتَقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا}.
نیز حدیث میں رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:       عَنْ أَبِیْ ذَرٍؓ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰه قَالَ: إِنِّیْ لَأَعْلَمُ آیَة لَوْ أَخَذَ النَّاسُ بِها لَکَفَتهمْ: { وَمَنْ یَتَّقِ اللّٰه یَجْعَلْ لّهَ مَخْرَجَا} (رواہ أحمد، مشکوٰۃ/ص:۴۵۳).
میں ایک ایسی آیت جانتا ہوںکہ اگر لوگ اس پر عمل کرلیں تو دین،دنیا کے لیے وہی آیت کافی ہو، اور وہ آیت یہی سورئہ طلاق کی ہے {وَمَنْ یَتَّقِ اللّٰہَ …الخ }کہ جو بھی تقویٰ اختیار کرے گا اس کے لیے ہر قسم کی مصائب سے نجات کا راستہ نکالا جائے گا ۔
رزق کی وسعت   ,دوسرا انعام : نقدیہ ملے گا کہ:  {وَیَرْزُقْہُ مِن حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ} (الطلاق:۴). ہم اسے وسعت والا رزق ایسی جگہ سے دیں گے جہاں کا گمان بھی نہ ہوگا ۔     حضرت علی کرم اللہ وجہہ اسی لیے فرماتے تھے: عَلَیْکَ بِتَّقْوٰی اللّٰہِ إِنْ کُنْتَ عَاقِلاًیأتِیْکَ بِالأَرْزَاقِ مِنْ حَیْثُ لَاتَدْرِیْ ضروری ہے کہ تم تقویٰ اختیار کرو اگر تم عقلمند ہو،وہ (اللہ )تمہیں ایسی جگہ سے روزی دے گا جس کی تمہیں خبر بھی نہیں ۔      
صاحبو !   گویا تقویٰ اختیار کرنا اللہ تعالیٰ سے تجارت اور سودا کرنا ہے،اور اللہ کی قسم! اس میں کبھی خسارہ نہیں ہو سکتا۔
ہر طرح کی آسانی اور سہولت   : علاوہ ازیںتقویٰ کا تیسرا انعام یہ بیان کیا گیاکہ اس کی برکت سے تمہیں ہر طرح کی آسانی اور سہولت نصیب ہو گی، فرمایا: {وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مِنْ أَمْرِہٖ یُسْرًا} (الطلاق :۴). جو بندہ تقویٰ اختیار کرے گا حق تعالیٰ اس کے ہر کام میں آسانی اور سہولت پیدا فرمائیں گے۔ اب اس وعدۂ الٰہی کے بعد تقویٰ اختیار کرنے کے باوجود جب کبھی پریشانی آئے توسمجھ لوکہ تقویٰ میں ضرور کمی آئی ہے،ورنہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے، دنیا اور عقبیٰ کی ساری سعادتیں تقویٰ کے ساتھ وابستہ ہیں،تقویٰ دارین کی نعمتوں کا سر چشمہ ہے،اسی لیے غالباً حضرت ابو ذر ؓ     اکثر و بیشتر یہ اشعار پڑھتے تھے  :
یُرِیْدُ الْمَرْئُ أَنْ یُّعْطیٰ مُنَاہٗ ٭  وَیَأْبَی اللّٰہُ إِلاَّ مَا یُرَادُیَقُوْلُ الْمَرْئُ: فَائِدَتِیْ وَ ذُخْرِیْ ٭ وَتَقْویَ اللّٰہِ أَفْضَلُ مَایُسْتَفَادُ
اس کے بر خلاف اگر گناہ کی حالت ہے تو قرآن پاک ہر جگہ بار بار یہی بتا رہا ہے کہ جو قومیں ایمان اور تقویٰ  سے محروم اور عاری ہیں وہ دارین کی کامیابی اور عیشِ ابدی سے تو خیر محروم ہی ہیں، دنیا میں بھی ان کا تنعم محض ظاہری اورسطحی ہوتا ہے، اندر سے بالکل کھوکھلا۔         حق تعالیٰ ہمیںاپنے فضل سے تقویٰ کا اعلیٰ درجہ عطا فرمائیں ۔ {وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ إِمَامًا} آمین۔جَزَی اللّٰہُ عَنَّا مُحَمَّداً صَلّٰی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمَا ہُوَ أَہْلُہٗ ۔    
(    بحوالہ   گلدستہ  احادیث       ترتیب   اکبر حسین اورکزئی )


1 تبصرہ:

ابو سعاد کہا...

ما شا اللہ! بارک اللہ فیکم!
بہت ہی پر مغز اور جان دار مضمون ہے۔بہترین نقشہ آگیا تقوی کے حوالے سے...